Thursday 15 March 2012

کتاب : یوسف کا بکا جانا ۔ حصہ دوم

پہلا کالم

قارئین کے پُرزور اصرار پر – زور کس پر ہوا "اصرار" پر۔ اور اصرار کس بات پر ہے یہ ہم بتلانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں تو قارئین کے پُرزور اصرار پر ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی اب باقاعدگی سے کالم لکھا کریں گے۔ اور ہماری تحریروں کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہونگے۔ اس میں ہمارے علاوہ کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت صرف اسی حد تک ہو گی جس حد تک وہ ہمارے لئے سود مند ہو۔ مثلاً مدیر محترم کو ہمارے اس کالم سے استفادہ کرنے کی اجازت صرف اس لئے ہو گی کہ وہ اسے "او کے" کر سکیں۔ کاتب صاحب صرف اس بنیاد پر اسے ہاتھ لگا سکیں گے کہ ہاتھ لگائے بغیر وہ کتابت جو نہیں کر سکتے۔ پروف ریڈر صاحب اپنی عینک کی اوٹ سے محض اس بنا پر ہمارے کالم پر نظر عنایت فرمانے کے اہل ہوں گے کہ وہ اس کی نوک پلک درست یا غلط (حسب ضرورت و حسب منشاء) کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو ہمارے اس کالم میں دخل در معقولات و نامعقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں بلا اجازت وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔

قارئیں کرام! کالم لکھنے کی ذمہ داری تو ہمارے قلم ناتواں پر ہو گی، لیکن پڑھنا آپ کا کام ہو گا یعنی لکھے عیسیٰ پڑھے موسیٰ – ہاں! اس سلسلے میں نہ آپ کو مجھ سے پوچھنے کی اجازت ہو گی کہ میں یہ کالم کس سے لکھواتا ہوں، نہ ہی میں آپ سے یہ دریافت کرنے کی جرات کروں گا کہ آپ کالم کس سے پڑھوا کر سنتے ہیں۔ البتہ جب کبھی ہمارا دل لکھتے لکھتے اکتانے لگے (یا بالفاظ دیگر کالم لکھ کر دینے والا بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کبھی کالم لکھ کر دینے سے انکار کر دے) اور آپ کالم دیکھ کر ہی بوریت محسوس کرنے لگیں (مطلب یہ کہ کالم پڑھ کر سنانے والا پڑھنے کے بعد بوجوہ سنانے سے انکار کر دے) تو ہم اپنے فرائض آپس میں بدل بھی سکتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اسے اپنے نام نامی اسم گرامی کے ساتھ اس کالم میں شائع کر کے پڑھ یا پڑھوا لیا کریں گے۔
قبل اس کے کہ ہمارا کالم منظر عام آ کر دنیائے علم و ادب پر چھا جائے، ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ چند باتیں کالم سے متعلق، متعلقین سے کرتے چلیں۔ سب سے پہلے ہم کاتب محترم سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم کراماً کاتبین کے بعد انہین سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی برادری کی شوخئی طبع کے باعث ہمارے ساتھ اکثر ع

ہم دعا (غیر منقوط) لکھتے رہے وہ دغا (منقوط) پڑھتے رہے

کا سا معاملہ رہا ہے۔ کاتب محترم سے ہماری دو گزارشات ہیں اول تو یہ کہ وہ گھر سے دفترجانے سے کچھ دیر پہلے ہمارا کالم تحریر کرنے سے گریز فرمایا کریں۔ کیونکہ قلم قبیلہ والے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسا کرنے سے کالم پر درون خانہ کے سیاسی حالات کی چھاپ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اور ہم سیاست سے ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جیسے بی سیاست بی شرافت سے دور بھاگتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے تحریر کردہ لفظوں بلکہ نقطوں تک کے ہیر پھیر سے گریز کیجیے گا۔ کیونکہ ع
نقطوں کے ہیر پھیر سے خدا بھی ہوتا ہے جدا

ہم تو کسی شمار قطار میں بھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سھی بھول سے یوسف ثانی یوسف آنجہانی ہو جائے۔ نتیجتاً آپ کے پاس تعزیتی پیغامات کی بھرمار ہو جائے جسے کتابت کرتے کرتے خود آپ کے اپنے تئیں تعزیت کرنے کی نوبت آن پہنچے۔ علاوہ ازیں کالم کے لفظوں اور سطور کے درمیان ہمیشہ مناسب جگہ چھوڑا کیجئے گا کہ ہم بین السطور بھی بہت کچھ کہنے کے عادی ہیں۔ ایسا نہو ہو کہ ہم بین السطور کچھ کہنا چاہیں اور آپ سطور کے درمیان کچھ کہنے کے لئے جگہ ہی نہ چھوڑیں۔

پروف ریڈر صاحبان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اس کالم کی کتابت کے لئے ہدایت نامہ کتابت کروا کر ہم کاتب محترم کے حوالے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ کتابت شدہ مواد کی اصلاح کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا۔ اگر کوئی جملہ یا لفظ مہمل نظر آئے یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ زیر نظر تحریر تجریدی ادب کا نمونہ ہے۔ عنقریب آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارا ہر کالم تجریدی ادب کا شاہکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں تو آپ اپنے خرچ پر ہمارے تجریدی کالم پر مذاکرہ یا سیمینار وغیرہ منعقد کروا کر علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ پیش کش لامحدود مدت کے لئے اور سب کے لئے ہے۔ آخر میں ایک بات ہم آپ کو چپکے سے بتاتے چلیں کہ یہ ساری باتیں ہم نے آپ سے نہیں بلکہ کسی اور سے کہی ہیں۔ بھئی دیکھیں نا! اگر ہم ان سے یہ باتیں براہ راست کہیں تو پھر ہمارا کالم کون چھاپے گا۔

اللہ نہ کرے کبھی سنسر بورڈ کی نظر ہمارے کالم پر پڑے تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر ہم سنسر بورڈ کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کالم کی روز افزوں مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر حکام بالا ہمارے کالم کو سنسر کرنے کا خیال ظاہر کریں تو بورڈ ہمیں اردو لغت کی ضخیم سی جلد (جس میں قابل اعتراض لفظوں کو سنسر کر دیا گیا ہو) پیشگی ارسال کرے۔ آئندہ ہم اپنا کالم اسی جلد کے سنسر شدہ الفاظ سے تحریر کیا کریں گے۔ اس طرح آپ پڑھنے کی زحمت سے بھی بچ جائیں گے اور کالم سنسر (یعنی سیلف سنسر) بھی ہو جایا کرے گا۔ سیاست تو خیر ہمارا موضوع ہے ہی نہیں۔ البتہ ہم آپ سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارا کالم فحاشی سے بھی پاک ہو گا۔ ہم "دلبرداشتہ" جیسے الفاظ کو ہمیشہ واوین بلکہ خطوط وحدانی کے اندر لکھا کریں گے تاکہ آپ غلطی سے بھی ایسے الفاظ کے بیچ وقف کر کے اسے فحش نہ قرار دے بیٹھیں۔

چلتے چلتے ہم مشتہرین حضرات کو بھی مطلع کرتے چلیں کہ وہ ہمارے کالم کی مقبولیت سے جائز و ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے کالم کے بیچ یا آس پاس اپنے اشتہارات شائع کروانے سے گریز کریں۔ اور اگر اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے ایسا ناگزیر ہو تو شعبہ اشتہارات کے بعد ہم سے بھی رجوع کریں تاکہ حسب ضرورت ان کی جیب ہلکی اور اپنی جیب بھاری کر کے ملکی اقتصادی توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔


لب چھڑی

یہ کیا ہے؟ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے لب چھڑی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں جی ہاں انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ یہ اسم بامسمی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینےمیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لب چھڑیوں کی مارکیٹ ویلیو اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ مکمل طور پر اسم بامسمی بن جائے گی۔ یہ ایک کارآمد شے ہے۔ بقول شاعر، خواتین اسے اپنے نازک ہونٹوں کو گلاب جیسا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں جب کہ مرد حضرات اس سے بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کا کام لیتےہیں۔ آخر خواتین بھی تو شیونگ بلیڈ سے پنسلیں بنانے کا کام لیتے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ابتدا میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ مقبرہ کتب (جسے کتب خانہ بھی کہا جاتا ہے) میں مدفون کتابوں کے وہ بوسیدہ اوراق پیش کرتے ہیں جن کے بیشتر اشعار میں ہونٹوں کو (غلطی سے ہی سہی) گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار خواتین ضرورت کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شید استعمال کر سکتی ہیں۔ اور آج کے موٹر گاڑیوں کے اس دور میں کون ایسا بھولا ہے جو ان رنگوں کا "مفہوم" نہ سمجھتا ہو۔

بعض رجعت پسند حضرات (خواتین نہیں) لب چھڑی کا شمار سامان تعیش میں کرتے ہیں، مگر اس سے متفق نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ خواتین کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ لب چھڑی کے بغیر صنف نازک کی پہچان تک مشکل ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے۔ دور حاضر میں تراش خراش (زلف و لباس دونوں) چال ڈھال اور شکل و صورت کے لحاظ سے تو دونوں اصناف میں کوئی فرق نہیں رہا۔ لب چھڑی ہی وہ واحد چھڑی ہے جس کا استعمال، تا دم تحریر صنف قوی نہیں کرتی۔ ہم لب چھڑی کے موجد کی روح کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے لب چھڑی ایجاد کر کے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ آج ہم بلیک اینڈ وہائٹ اور کلرڈ ہونٹ دیکھ کر ہی اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس ہستی سے ہم محو گفتگو ہیں اس کا تعلق کس صنف سے ہے۔

اگر مضمون ہذا کی اشاعت کے بعد خواتین لب چھڑی کا استعمال ترک بھی کر دیں تو اس سے اس کی افادیت اور مانگ میں کمی نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس صورت میں بھی سادہ اور رنگین لب دونوں اصناف کے درمیان وجہ امتیاز بنے رہیں گے۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ رنگین لب کے تصور سے ہمارے ذہنوں میں صنف قوی کا خیال آیا کرے گا۔

ابھی ہم رنگ برنگ لپ اسٹکس کے تراکیب استعمال پر غور و فکر کرتے ہوئے مندرجہ بالا سطور لکھ ہی پائے تھے کہ لب چھڑی سے متعلق ایک اہم خبر درآمد ہوئی، جس نے متذکرہ بالا تراکیب کو بیک خبر کالعدم کر دیا۔ سات سمندر پار سے خبر موصول ہوئی ہے کہ سائنس دان ایک ایسی لب چھڑی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو انسانی (مطلب یہ کہ نسوانی) جذبات کی عکاسی کیا کرے گی۔

ہم جب مختلف قسم کے جذباتی قسم کیفیات سے گزرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارا دوران خون گھٹتا بڑھتا ہے بلکہ ہمارے جسم کی بیرونی جلد پر مخصوص کیمیاوی تبدیلیا بھی واقع ہوتی ہیں۔ انہی کیمیاوی تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے جدید لپ اسٹکس میں ایسی کیمیاوی اشیاء شامل کر دی ہیں جو جلدی کیمیاوی تبدیلیوں کے زیر اثر اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہیں۔ اور رنگوں کی یہ تبدیلی مستقل نہیں بلکہ گرگٹ کی طرح تغیر پذیر ہوتی ہے۔ یعنی اب ہمیں خاتون خانہ کے موڈ کو سمجھنے کے لئے فقط ان کے ہونٹوں کا رنگ دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ رنگ ڈھنگ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ابھی تو یہ لپ اسٹکس تجرباتی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جب یہ تجارتی بنیادوں پر تیار ہو کر گھر گھر پہنچ جائے گی تو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ ملاحظہ فرمائیں : صاحب خانہ گھر میں داخل ہوتے ہیں کہ گڈو "ابو آ گئے! ابو آ گئے!" کہتا ہوا لپٹ جاتا ہے۔ "بیٹے! آپ کی امی کہاں ہیں؟"۔۔۔ "ابو ابو آج گھر میں کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سے امی کے ہونٹوں کا رنگ مستقل بدل رہا ہے۔" ممی کی آہٹ سن کر ابو کی گود میں چڑھتے ہوئے۔ "ابو مجھ تو ڈر لگ رہا ہے "۔۔۔ " ارے آپ؟ کب آئے؟ اور یہ گڈو جوتوں سمیت آپکی گود میں۔۔۔؟ "۔۔۔ بھئی تمہارے ہونٹوں کا رنگ تو بڑا خوشگوار ہے، گڈو تو بڑا سہما ہوا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ صبح سے ممی کے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔" "۔۔۔ اس گڈو کے بچے کو تو ۔۔۔  بس ۔۔۔ بیگم ۔۔۔ بس۔۔۔ دیکھو!۔۔۔ دیکھو! پھر تمہارے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔


قربانی کے بکرے
ان سے ملئے یہ ہیں قربانی کے بکرے۔ معاف کیجئے گا آپ غلط سمجھے۔

یہ محاورے والے بکرے نہیں ہیں، بلکہ سچ مچ کے قربانی کے بکرے ہیں۔ اسی لئے تو یہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ یوں تو یہ سارا سال انسانی ضرورتوں کی قربان گاہ پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر عید قربان پر ان کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دام یوں آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جیسے یہ زمینی مخلوق نہ ہوں بلکہ آسمانی مخلوق ہوں بلکہ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے آسمانی مخلوق ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے فوراً بعد ان کی حیثیت آسمانی ٕمخلوق سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

اب ان سے ملئیے۔ جی ہاں یہ بھی قربانی کے بکرے ہی ہیں۔ معاف کیجئے گا آپ پھر غلط سمجھے۔ یہاں میری مراد محاورے والے بکروں سے ہے۔ مگر یہ کسی طرح بھی اصلی بکروں سے کم نہیں ہوتے بلکہ دیکھا جائے تو کسی حد تک ان کی حیثیت اصلی بکروں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات دنیا کے بازار میں ان کی قیمت ایک بکرے سے بھی کم لگائی جاتی ہے۔

آج کل تو بازار مصر شہر شہر قریہ قریہ لگا ہوا ہے۔ سماج کے ان نام نہاد بازاروں میں راقم جیسے نہ جانے کتنے یوسف قربانی کے بکروں کی مانند، بلکہ بکروں سے بھی سستے بک رہے ہیں، کوئی اف تک کرنے والا نہیں۔ قربانی کے ایک بکرے (اصلی والے) سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بھئی کیوں قربان ہوتے ہو تو موصوف پہلے تو مسکرائے پھر گویا ہوئے ہم تو ہیں ہی قربانی کے بکرے۔ ہم اگر قربان نہ ہوں گے تو کیا حضرت انسان خود اپنے آپ کو قربان کرے گا؟ ہم تو حضرت انسان کو قربانی سے بچانے کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیتے ہی مگر یہ ناقدرے پھر بھی ہماری قربانی کو خاطر میں نہیں لاتے اور چند ٹکے خرچ کر کے یہی کہتے پھرتے ہیں کہ قربانی تو ہم نے دی ہے۔

قربانی کے بکرے کی یہ بات سن کر صاحب بکرا یعنی محاورے والے بکرے۔۔۔ حضرت انسان برہم ہو گئے۔ کہنے لگے صاحب! قربانی کے اصل بکرے تو ہم ہیں جو گود سے گور تک قسطوں میں خود کو قربان کرتے رہتے ہیں۔ یہ چار پاؤں والے بکرے تو زندگی میں صرف ایک مرتبہ قربان ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھئے نا ہمیں ہر لمحہ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہر آن قربان ہوتے رہتے ہیں۔ سماج کی قربان گاہ پر ہمیں ہر لمحہ مار کر دوسرے لمحہ زندہ کر دیا جاتا ہے تاکہ تیسرے لمحہ پھر مارا جا سکے۔ مارنے اور جلانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تاوقتیکہ فرشتہ اجل تقدیر کی قربان گاہ پر ہمیں قربان کرنے چلا آتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ قربانی کا اصل بکرا کون ہے؟ چار ٹانگوں والا بے زبان بکرا یا یہ دو ٹانگوں پر چلنے والا حیوان ناطق۔
باتوں ہی باتوں میں
دو افراد باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ ایک نے غصہ میں آ کر دوسرے سے کہا کہ تم تو بلکل گدھے ہو۔ دوسرے نے کہا گدھے تو تم ہو۔ بس پھر کیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گدھا ثابت کرنے کے لئے گدھے پن کا ثبوت دینا شروع کر دیا۔ پہلا فرد غصہ کو کم کرتا ہوا بولا چلو ایسا کرتے ہیں کہ ووٹنگ کرا لیتے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ ملے گا اصل میں وہی گدھا ہو گا۔ دوسرا بولا کرا لو ووٹنگ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ کون گدھا ہے۔ پہلا گویا ہوا تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں "گدھے ہونے" کے امیدوار ہیں۔ اور جسے زیادہ ووٹ ملے وہی گدھا ہو گا، تمہیں منظور ہے نا؟ دوسرے فرد کے اقرار پر پہلے شخص نے جلدی سے کہا تو پھر ٹھیک ہے میں اس مقابلے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اب تم بلا مقابلہ گدھے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ رفوچکر ہو گیا۔

دیکھا آپ نے ووٹنگ کا کمال یعنی اس میں بڑے بڑے گدھے بھی منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے ۔۔۔ ۔۔۔  ہر دم انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی منتخب ہو جائیں۔ گدھے کے تذکرے پر یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ صاحب بہادر نہ جانے کسی بات پر مسلسل انکار کئے جا رہے تھے اور میں انہیں منانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے ہوئے کہا۔ تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مانتے حالانکہ میں تو تمہیں اپنے بھائیوں کے برابر عزیز رکھتا ہوں۔ موصوف تقریباً رضامند ہوتے ہوئے بولے : واہ صاحب! یہ اچھی رہی۔ جب تمہیں کوئی بات منوانی ہو تو فوراً بھائی بنا لیتے ہو۔ میں نے کہا میرے بھائی! لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو صرف بھائی بنایا ہے۔ بس موصوف دوبارہ ناراض ہو گئے اور اب تک ناراض ہیں۔ پتہ نہیں کیوں؟
ویسے ناراض ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ لوگ تو ذرا ذرا سے بات پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ اب پچھلی عید کی بات ہے ہم نے سوچا چلو کچھ نہیں تو جوتے ہی سہی۔ چنانچہ ایک جوتے کی دکان پر پہنچ گئے۔ سیلزمین نے کئی خوبصورت جوتے دکھائے جو قیمت معلوم ہوتے ہی ہمیں ناپسند آنے لگتے۔ جوتوں کا ڈھیر لگ گیا مگر ہمیں کوئی جوتا پسند ہی نہیں آ رہا تھا کہ پسندیدگی کے لئے جیب کی پیشگی اجازت ضروری تھی۔ چنانچہ ہم جب بکھرے ہوئے لاتعداد جوتوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھنے لگے تو سیلزمین گویا جوتے مارتے ہوئے بولا، صاحب! اتنے جوتے پڑے ہیں لیکن آپ اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے فوراً خود کو سنبھالا اور سیلزمین کی دیکھتے ہوئے خوبصورت سے بارہ سو روپے والے جوتے پہن لئے۔ سیلزمین اپنی اس کامیابی پر مسرور نظر آنے لگا۔ ہم نے جیب سے بٹوا اور بٹوے سے پانچ سو روپے کا اکلوتا نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔ یہ پانچ سو روپے لیتے ہو یا اتاروں جوتا؟

آگے کا احوال کیا بیان کریں۔۔۔ جی ہاں مجبوراً مجھے جوتا۔۔۔ اب دیکھیں نا! جنگ محبت اور مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے نا؟ آپ محبت سے مجبور ہوں یا مجبوراً محبت کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں نتیجہ عموماً ایک ہی نکلتا ہے۔ مثلاً اس محفل ہی کو لے لیجیے جس میں ایک شمع محفل ہیروں کے زیورات سے سجی دیگر تمام خواتین و حضرات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون تو اپنے شوہر کے سر ہو گئیں کہ مجھے بھی ایسا ہی سیٹ لا کر دو۔ شوہر نے سمجھایا اری نیک بخت پاگل ہوئی ہے کیا؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے یہ کتنا قیتی ہے؟ بیوی بولی مجھے کیا پتہ؟ اچھا چلو اس سے پوچھ لو کہ کتنے میں خریدا ہے؟ شوہر نے لاکھ سمجھایا کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے، لوگ کیا کہیں گے۔ مگر خاتون نہ مانیں۔ مجبوراً صاحب بہادر مذکورہ خاتون کے قریب پہنچے۔ سب کی نظریں ادھر ہی جم گئیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ صاحب بہادر نے خاتون کے قریب جا کر کہا ایکسکیوزمی پلیز! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سیٹ آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ پہلے تو خاتون نے اسے سر تا پا گھور کر دیکھا مگر محفل کا رنگ انہماک دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا "نیویارک سے خریدا ہے ڈھائی ہزار ڈالر میں آیا تھا" قیمت سن کر صاحب بہادر کے ہوش اڑنے ہی والے تھے کہ انہوں نے خود کو سہارا دیا اور یہ کہتے ہوئے پلٹ پڑے کہ مگر اتنے میں تو نیا سیٹ مل جاتا ہے۔
***


کرفیو اور اہل کراچی
اہل کراچی اب کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء سے۔ اگر ہمارے پاکستانی بھائی تھوڑا عرصہ بھی مارشل لاء کی چھتری سے باہر گزار لیں تو ان کی طبعیت ناساز ہو جاتی ہے۔ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتے مارشل لاء کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے اگر حالات یہی رہے تو نئے مارشل لاء کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف سے تسلی دی جاتی ہے کہ نہیں فی الحال مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں۔ اور تیسرے ہی دن یہ اطلاع آتی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔

بات ہم کرفیو کی کر رہے تھے کہ یہ مارشل لاء نہ جانے کہاں سے ٹپک پرا۔ ویسے بھی مارشل لاء عموماً ٹپک ہی پڑتا ہے۔ یہ کبھی "تھرو پراپر چینل" نہیں آتا لہذا سطور بالا میں اس کے اس طرح ٹپک پڑنے کو اس کی عادٹ ثانیہ جانتے ہوئے ہم درگزر کرتے ہیں۔ اور اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہاں اب تو اہل کراچی کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے۔۔۔۔ ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہل کراچی کرفیو سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ اسے "معمولات" میں تصور کر کے اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ کرفیو تو پھر کرفیو ہے۔ کسی زمانے میں محض مارشل لاء کی بھی بڑی "قدر" ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں جب مارشل لاء نیا نیا آیا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو باہر گلی میں کھیلنے سے منع کرتے ہوئے کہتی تھیں بیٹے باہر مت جانا۔ مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ پھر جب یہی مائیں اور بچے مارشل لاء سے مانوس ہو گئے تو ایک مارشل لاء سے دوسرے مارشل لاء تک کے درمیاں وقفے میں مائیں بچوں بلکہ بڑوں تک سے کہنے لگیں ذرا دیکھ بھال کر باہر جانا اب مارشل لاء نہیں ہے نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔

قارئین کرام! آپ نے دیکھاہم تذکرہ مارشل لاء سے اپنے کالم کے دام کو جتنا بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اس تذکرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے ملک کو جتنا مارشل لاء سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی مارشل لاء سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مارشل لاء سے اور ہمارے کالم کو تذکرہ مارشل لاء کے اثرات بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ مگر اس سلسلہ میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ہم جس قدر کسی کو کسی چیز سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اسی قدر ہی اس چیز سے قریب ہونے کی سعی کرے گا۔ اس قسم کے ماہرین اپنے بیان کی وضاحت میں عموماً یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ جہاں "تھوکنا منع ہے" لکھا ہوتا ہے ماسوائے تھوک کے اور کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر چلے جا رہے ہیں اور آپ کو یکایک ناگوار سی بو محسوس ہونے لگے تو سمجھ لیجیئے کہ یہیں کہیں آس پاس لکھا ہو گا ۔۔۔ ۔ کرنا منع ہے۔ نو پارکنگ کے بورڈ کے آس پاس گاڑیوں کا ہجوم نہیں تو چند گاڑیاں ضرور کھڑی ہوئی ملیں گی۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچ ہے کہ جہاں کسی گوشے میں چند گاڑیاں پارک نظر آئیں پولیس کے سپاہی وہاں نو پارکنگ کا پور ٹیبل بورڈ نصب کر کے گاڑیوں کے مالکان کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائے۔ ماضی کی ایک حکومت کے دور میں حزب اختلاف کے ایک رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسمبلی کی بلڈنگ پہنچے تو ان کی نسبتاً پرانی گاڑی کا سیکورٹی کے عملے نے شایان شان اور پرتپاک خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بیان داغ دیا کہ ان جیسے غریب ارکان اسمبلی کا سرکاری کارندے مناسب طور پر استقبال نہیں کرتے۔ لہذا وہ کل احتجاجاً گدھا گاڑی پر سوار ہو کر اسمبلی ہال پہنچیں گے۔ چنانچہ موصوف اگلے روز بدست خود گدھا گاڑی "ڈرائیو" کرتے ہوئے اسمبلی پہنچے۔ سیکورٹی کے عملے نے احتیاطاً ان کے ساتھ کسی کا کوئی سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے قریب ہی ایک پول سے گدھا گاڑی کو باندھا اور اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اندر چلے گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے جس "پول" سے گدھا گاڑی کو باندھا تھا وہ دراصل "نو پارکنگ" کا بورڈ تھا اور اس منظر کو ہمارے تمام قومی اخبارات نے اپنے صفحے کی زینت بنایا تھا۔

ابھی ابھی آپ یہ پڑھ رہے تھے کہ جب مذکورہ رکن اسمبلی کو ان کی منشاء کے مطابق "ٹریٹ" نہیں کیا گیا تو انہوں نے جھٹ ایک بیان داغ دیا کہ "غریب ارکان اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے"۔ اسی بیان پو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ آپ اسے لطیفہ سمجھتے ہوئے سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ایک سماجی کارکن کو بیان سینے کا بہت شوق تھا۔ انہیں روزانہ کے معمولات میں جو بھی پریشانی ہوتی وہ اسے عوام کی پریشانی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بیان داغ دیتے۔ علاوہ ازیں متعلقہ احکام کو بھی ٹیلی فون کر دیتے کہ صاحب آپ فوراً اس مسلہ کو حل کروائیں' عوام بہت پریشان ہیں۔ یہ آخری جمہ تو ان کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی بیگم شاپنگ کرنے گئیں تو ان کئ واپسی سے قبل کرفیو لگ گا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ سکیں۔ موصوف نے شام تک ہر ممکن جگہ انہیں تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنے علاقے کے تھانیدار کو ٹیلی فون کیا کہ صاحب! میری بیوی صبح شاپنگ کرنے گئی تھی۔ ابھی تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ آپ فوراَ ان کی تلاش کے لیے سپاہی بھیجیں' عوام بہت پریشان ہے۔

موصوف کی بیگم تو کرفیو میں گم ہو گئی تھیں مگر ان کے دوران کرفیو گم ہونے کے تذکرے پر ہمیں ہمارا گم شدہ موضوع "کرفیو" مل گیا ہے۔ اگر آپ کی یاداشت قابل اعتبار ہے تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کرفیو سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا تھا مگر الفاظ و واقعات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہو گئے کہ اپنا موضوع تک گم کر بیٹھے جو ابھی ابھی ملا ہے۔ سو ہم تانے سے بانا ملاتے ہوئے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اہل کراچی کرفیو سے اسی چرح مانوس ہو چکے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء سے۔ مارشل لاء کے ذکر پر ہم نے کہا تھا کہ ہم جتنا اس ذکر سے دامن چھڑانا چاہتے ہیں یہ اتنا ہی ہم سے چمٹ جاتا ہے۔ کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔ ۔ اور ماہرین نفسیات کے بیان کے ثبوت میں جب ہم گدھا گاڑی کی ڈرائیونگ اور پارکنگ والے مقام تک پہنچے تو ہمیں ایک سماجی کارکن کا واقعہ یاد آگیا جن کی بیوی دوران کرفیو گم ہو جاتی ہیں۔ اور اسی گمشدگی کے نتیجے میں ہمیں ہمارا گمشدہ موضوع "کرفیو" ابھی ابھی ملا ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں اصل موضوع پر لکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟





مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ
بھئی آپ مجھے اس طرح کیا گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے؟ نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ کیونکہ اس وقت کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو ان چاہتوں کا شکار ہوتا چیخ اٹھتا۔ ع
اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے تو دوست کا مارا دوستوں کو گھور گھور کر دیکھنے لگتا ہے کہ حق دوستی ادا کرنے کے لئے اب کون پر تول رہا ہے۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ آج کل حق دوستی ادا کرتے وقت دوست احباب حق و ناحق کی تمیز کے چکر میں نہیں پڑتے ویسے بھی حق تو صرف ایک ہی ذات ہے جس کی ضیا پاشیوں نے سارے عالم کو حق پرست بنا رکھا ہے خواہ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار۔

نفسا نفسی کے اس دور میں کسی دوست کا ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً محال بھی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ بھلا یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہے جو شخص لوگوں کے درمیان رہتا ہو اس کے دوست احباب تو ہوں گے دس بیس نہیں تو دو چار تو کہیں نہیں گئے۔ پھر یہ دوست کی عدم دستیابی چہ معنی دارد؟ ہم ایسے تمام خوش فہم حضرات کی خوش فہمی دور کرنے کے لئے صرف یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ع
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے مطلب یہ کہ کوئی فرد اپنی عادت ثانیہ کو یکسر ترک نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کر بھی لے تو کبھی نہ کبھی اپنی اس عادت کا اظہار ضرور کرے گا۔ اسی طرح دوست کے بارے میں آجکل یہ بات بلا کھٹکے کہی جا سکتی ہے کہ دوست دوستی سے جائے خود غرضی سے باز نہ آئے۔ اگر کسی دوست کو ہماری یہ بات بری لگے تو وہ فوراً سمجھ لے کہ ہماری یہ بات سچی ہے کیونکہ سچ کے بارے میں ماہر حسیات پہلے ہی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ سچ تلخ تو ہوتا ہےمگر دافع امراض خبیثہ ہوتا ہے۔ اور اس کا تادم مرگ استعمال آدمی کو تمام برائیوں سے پاک رکھتا ہے۔ چچا غالب تو رہنے دیجئے کہ وہ اپنے قول میں صادق تھے (خدا گواہ ہے) مگر پطرس بخاری مرحوم جیسے "جھوٹے" بھی سچ کہنے پر مجبور تھے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا تھا بلکہ وہ خود کہہ گئے ہیں۔ ع
کہتا ہوں سچ گرچہ عادت نہیں مجھے

ذکر ہو رہا تھا، دوست کی دوستی کا اور بات پہنچی جا کر۔۔۔ خیر یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ آخر جب قیامت کا ذکر چھڑتا ہے تو اس وقت بھی بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے اور اگر بات کے ساتھ ساتھ آپ خود بھی بنفس نفیس وہیں پہنچ جائیں تو آپ کا یہ اقدام قاب دست اندازی پولیس بھی ہے۔ ہاں تو ہم عدم دستیابی دوست کا تذکرہ کر رہے تھے اور تذکرہ کیا کر رہے تھے حقیقت بیان کر رہے تھے اگر آپ اپنے ارد گرد جمع تمام دوستوں کو دوستی کی کسوٹی پر ذرا سا بھی آزما کر دیکھیں تو حقیقت آپ پر آشکار ہو جائے گی۔ ویسے ایک دانشور کا قول ہے کہ آپ اپنے دوست کو کبھی نہ آزمائیں ہو سکتا ہے کہ بوجوہ وہ آپ کی آزمائش پر پورا نہ اتر سکے اور آپ ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائیں۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ دانشور صاحب نے دوست کو آزمانے سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ اس طرح دوست کا بھرم کھل جائے گا اور آپ اس خوش فہمی سے نکل آئیں گے کہ آپ کا بھی کوئی دوست ہے۔ اب آپ بتلائیں ایسے میں ہم، "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ" کی صدا نہ لگائیں تو کیا کریں۔ ویسے ہم دوست کے وجود کے یکسر منکر بھی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو یہ کالم لکھا ہی تلاش دوست کے لئے ہے کیونکہ اس کی پہنچ بہرکیف مجھ سے زیادہ وسیع ہے۔ سوائے مری پیاری تحریر! تو ع
اب "انہیں" ڈھونڈ چراغ رخ زیباِ لے کر


سچ گپ
باتیں یا تو سچی ہوتی ہیں یا پھر جھوٹی یعنی گپ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نہ تو سچی ہوتی ہیں اور نہ جھوٹی۔ ایسی باتوں کو سچ گپ کہا جاتا ہے۔ مثلاً کسی مخلوط محفل میں جب ایک صاحب نے ازراہ مزاح یہ کہہ دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی گپ یہ ہے کہ ایک جگہ چند خواتین بیٹھی تھیں اور وہ سب خاموش تھیں۔ تو خواتین نے احتجاجاً شور مچانا شروع کر دیا۔ چنانچہ موصوف کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھئی یہ گپ نہیں بلکہ سچ گپ ہے۔ خواتین نہ جانے کیا سمجھیں بہر حال خاموش ہو گئیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ملا دو پیازہ کی زوجہ محترمہ خاموش ہو گئی تھیں۔

راوی کی روایت ہے کہ ملا دو پیازہ کے گھر کے باہر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آئیں تو وہ باہ رنکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو افراد آپ میں دست و گریباں ہیں۔ ماجرا دریافت کرنے پر ایک نے اپنا دعویٰ ملا دو پیازہ کے گوش گزار کیا تو ملا بولے بھئی بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ اس پر دوسرے نے احتجاج کیا کہ آپ نے میری بات تو سنی نہیں اور فیصلہ یکطرفہ سنا دیا۔ ملا کے استفسار پر دوسرے صاحب نے بھی اپنی رام کہانی سنائی تو ملا نے کہا : کہتے تو تم بھی ٹھیک ہی ہو۔ ملا کی بیوی جو دروازے سے لگی یہ ساری باتیں سن رہی تھی فوراً پکار اٹھیں : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دونوں کی باتیں درست بھی ہوں اور دونوں لڑ بھی رہے ہوں۔ ملا دو پیازہ تھوڑی دیر تک تو بیوی کی اس بات پر غور کرتے رہے۔ پھر سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے بھاگوان! کہتی تو تم بھی ٹھیک ہو۔ اور یوں وہ اپنی بات کی تائید پر حسب سابق خاموش ہو گئیں۔ راوی بھی یہیں پر خاموش ہو جاتا ہے مگر گمان غالب ہے کہ ملا اور راوی کے رخصت ہونے کے بعد دونوں نے دوبارہ لڑنا شروع کر دیا ہو گا۔

بالکل اسی طرح جیسے امریکہ کے ایک انتخابی جلسہ میں حاضرین جلسہ اپنے صدارتی امیدوار سے لڑ پڑے تھے۔ صدارتی امیدوار نے جوش خطابت میں کہیں یہ کہہ دیا کہ ہماری آدھی قوم بے وقوف ہے۔ حاضرین کے احتجاج پر فاضل مقرر نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آدھی امریکی قوم بے وقوف نہیں ہے۔ اس امریکی رہنما کی نظر میں آدھی قوم بے وقوف ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ہاں کا تو ایک پاگل بھی اپنے آپ کو بے وقوف کہلانے پر راضی نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کی گاڑی ایک پاگل خانے کے قریب پنکچر ہو گئی۔ وہ پنکچر وھیل کھول کر اسپئیر وھیل لگانے لگا تو پتہ چلا کہ پنکچر وھیل سے کھولے ہوئے سارے نٹ غائب ہیں۔ بہت تلاش کیا مگر نہ ملے۔ موصوف پریشانی کے عالم میں کھڑے تھے کہ پاگل خانے کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ایک پاگل جو یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا کہنے لگا آپ کے سارے نٹ تو ایک بچہ لے اُڑا۔ صاحب نے پوچھا۔ ارے کب؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ اب میں کیا کروں گا؟ پاگل بولا اب وہ بچہ تو ملنے سے رہا۔ آپ ایسا کریں کہ بقیہ تینوں وھیل سے ایک ایک نٹ کھول کر کام چلا لیں۔ موصوف نے حیرت کی نگاہوں سے پاگل کو دیکھا اور بولے بات تو تمہاری معقول ہے مگر تم تو پاگل ہو تم نے یہ بات کیسے سوچی؟ پاگل کہنے لگا۔ حضرت میں پاگل ضرور ہوں مگر آپ کی طرح بیوقوف نہیں۔ 
بات سچ گپ سے شروع ہوئی تھی اور پاگل کی عقل مندی تک آ پہنچی۔ مگر دیکھئے ہم اپنے موضوع سے پھر بھی نہیں ہٹے کہ پاگل کا بے وقوف ہونے سے انکار کرنا سچ گپ کی بہترین مثال ہے۔ اب ایک اور تقریب کی بات سنئے۔ اس موقع پر کسی ستم ظریف نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا اس کے لیے ایک ہزار روپے کا انعام رکھا جاتا ہے۔ تمام مرد حضرات خاموش ہو گئے اور خواتین میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ اس ستم ظریف نے پھر کہا کہ اپنی بیوی سے ڈرنے والے تمام مرد حضرات اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ جائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام مرد اپنی اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھ گئی مگر ایک دبلا پتلا شخص سہما سہما سا اپنی بیوی کے ہمراہ کھڑا رہا۔ لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور اس کی جرات کی تعریف کی کہ اتنے بڑے مجمع میں وہ واحد مرد ہے جو اپنی بیوی سے نہین ڈرتا۔ انعام کی رقم دینے سے قبل لوگوں نے اس کی بیوی سے تصدیق کی کہ کیا واقعی اس کا شوہر اس سے نہیں ڈرتا اور اسے کس بات سے اپنی بیوی کے قدموں میں بیٹھنے سے روکے رکھا۔ بیوی نے ایک نظر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔ میں نے اس کے کان میں کہہ دیا تھا کہ خبردار جو تم میرے قدموں میں بیٹھے، بس سیدھے کھڑے رہو۔ مجھے ایک ہزار روپے کی شدید ضرورت ہے۔

آپ ماشاء اللہ خود سمجھدار ہیں لہذا ہمیں امید ہے کہ اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ ہر گز نہیں فرمائیں گے۔ نہ جانے آپ کی نصف بہتر کو کونسی بات ناگوار محسوس ہو۔ اور وہ آپ کے "بقیہ نصف" ہونے کا فادہ اٹھاتے ہوئے آپ پر حملہ آور ہو جائے اور آپ ہوائی حملہ سے بچاؤ کے مسلمہ اصول کے مطابق گھر میں خندق کی عدم دستیابی کی صورت میں پلنگ ہی کے نیچے جا بیٹھیں۔ ایسے میں اگر گڈو آپ کو ڈھونڈتا ہوا آپ تک پہنچ جائے تو پوچھ بیٹھے کہ ابو ابو کیا آپ بھی میری طرح امی سے ڈرتے ہیں اور آپ دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہیں کہ نہیں بیٹے! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ لازماً گڈو آپ سے پوچھے گا پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اب آپ کے پاس اس کے سوا اور چارہ کیا ہو گا کہ بھئی یہ میرا گھر ہے۔ میری مرضی میں پلنگ کے اوپر بیٹھوں یا پلنگ کے نیچے۔ میں کوئی ملازم ہوں جو اپنی مرضی نہ چلا سکو۔ ملازم پر یاد آیا کہ کسی گھر کا ملازم روتا ہوا صاحب خانہ کے پاس آیا۔ صاحب نے پوچھا بھئی رو کیوں رہے ہیں۔ ملازم نے روتے ہوئے جواب دیا۔ بیگم صاحب نے مارا ہے۔ یہ سننا تھا کہ صاحب کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ ملازم رونا بھول کر انہیں حیرت سے دیکھنے لگا۔ صاحب نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے فرمایا : اس مین رونے والی کون سی بات ہے۔ ارے او احمق! کبھی ہمیں بھی روتے ہوئے دیکھا ہے۔

دیکھئے دیکھئے! ہم آپ کو ہرگز ہرگز یہ اجازت نہیں دیں گے کہ اس آخر الذکر واقعہ پر آپ کوئی تبصرہ کریں کیونکہ ہم اس واقعہ کو نہ تو سچ مانتے ہیں نہ بالکل ہی گپ۔ البہ آپ کی آسانی اور مضمون ہذا کی رعایت سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ سچ گپ کی بہترین مثال ہے اور اسی کو کہتے ہیں سچ گپ۔

جھوٹ بولیئے
مثل مشہور ہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور سچوں پر خدا کی رحمت۔ مگر اس مشہوری سے جھوٹ کی اپنی صحت پر نہ اب تک کوئی اثر پڑا اور نہ آئندہ پڑنے کا امکان ہے لہذا ہم نے سوچا کہ کیوں نہ روز افزوں پھلتے پھولتے اس جھوٹ کی جھوٹی سچی کہانی پر طبع آزمائی کی جائے۔ سو ہم آج کے کالم مین جھوٹ کی گردان، دروغ بر گردن راوی کہتے ہوئے شروع کرتے ہیں کہ جھوٹ پھر جھوٹ ہے کھلے گا تو سہی۔ جھوٹ کی یوں تو کئی اقسام ہیں مگر چند ایک زبان زد خاص و عام ہیں۔ مثلاً ایک تو سفید جھوٹ ہوتا ہے جسے سب بالاتفاق جھوٹ کہتے ہیں۔ خواہ اس میں سچ کی کتنی ہی آمیزش کیوں نہ ہو اسے عموماً جھوٹے لوگ بولتے ہیں۔ کسی اور کی یہ مجال نہیں کہ وہ سفید جھوٹ بول سکے۔ اس جھوٹ کو بولنے والے اس بات کی قطعا پرواہ نہیں کرتے کہ ایک جھوٹ کو نبھانے کے لئے انہیں مزید کتنا جھوٹ بولنا پڑے گا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس قسم کے افراد ہر دم ہر جگہ اور ہر ایک کے سامنے جھوٹ بولنے کو تیار رہتے ہیں۔ تجربہ کار جھوٹوں کا کہنا ہے کہ جھوٹ ایسا بولنا چاہیے جو اگر صبح بولا جائے تو کم از کم شام تک تو اس کا بھرم باقی رہے جبکہ غیر تجربہ کار جھوٹے عموماً جھوٹ بولتے ہی پکڑے جاتے ہیں۔

جھوٹ کی ایک بہترین قسم مصلحت آمیز جھوٹ ہے۔ ایسا جھوٹ عموماً سچے لوگ بولتے ہیں گو ہوتا تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے مگر اسے مصلحت کا خوبصورت لبادہ پہنا دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسے بولنے والے نہ صرف یہ کہ کوئی کراہیت محسوس نہیں کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔

راویان جھوٹ اس کی تمثیل میں یہ روایت کرتے ہیں کہ کسی دربار میں کوئی درباری بادشاہ سلامت کو زیر لب برا بھلا کہہ رہا تھا کہ بادشاہ کی نظر اس درباری پر پڑ گئی۔ بادشاہ نے ساتھ والے سے دریافت کیا کہ یہ زیر لب کیا کہہ رہا ہے۔ اس نے مصلحت آمیز جھوٹ کا سہار لیتے ہوئے کہا کہ حضور یہ آپ کی شان میں تعریفی کلمات ادا کر رہا ہے۔ بادشاہ نے خوش ہوتے ہوئے اسے زر و جواہر سے نوازنا چاہا تو قریب ہی بیٹھا ایک بد نیت درباری بول پڑا حضور یہ جھوٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ درباری آپ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس پر بادشاہ بولا۔ تمہارے اس سچ سے تو اس کا یہ جھوٹ ہی بہتر تھا کہ کم از کم اس کی نیت تو نیک تھی۔
ان دنوں جھوٹ کی مثال رشک و حسد کی بھول بھلیوں سے بھی دی جا سکتی ہے۔ جب حسد کرنے والے لوگوں کو معاشرے نے ذلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا تو "پارسا" قسم کے لوگ بڑے پریشان ہوئے کہ ہم کیا کریں حسد نہیں کر سکتے اور کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے لئے رشک جیسا خوبصورت لفظ تراش لیا۔ تاکہ اپنا گزارہ حسد بھی ہوتا رہے اور پارسائی کا بھرم بھی برقرار رہے۔ ایسے ہی پارساؤں کے بارے میں تو شاعر کہہ گیا ہے کہ :

ہم گناہ گار تو آسودہ ملامت ہیں
یہ پارسا ہیں، ذرا ان پر بھی نظر رکھنا

ماہرین کلریات کے مطابق "جھوٹ" خوابوں کی طرح رنگین بھی ہوتے ہیں۔ بھئی سفید جھوٹ سے کون واقف نہیں۔ اب ظاہر ہے سفید جھوٹ کے ہوتے ہوئے سیاہ جھوٹ بھی ہو گا کہ سفید کا تصور سیاہ کے بغیر ممکن نہیں اور جب سفید و سیاہ جھوٹ سے آپ واقف ہو گئے ہیں تو رفتہ رفتہ دیگر رنگوں کے جھوٹ سے بھی واقف ہو جائیں گے۔ ویسے اگر سائنسی نگاہ سے دیکھا جائے تو سفید رنگ بذات خود سات رنگوں کا مرکب ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے تو سفید جھوٹ بھی سات رنگین جھوٹوں کا مجموعہ ہوا۔ اب یہ ماہرین جھوٹ کا کام ہے کہ اس مجموعہ کو علیحدہ علیحدہ کر کے عوام الناس کو متعارف کرائیں۔ بالکل اس طرح جیسے سائنس دانوں نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے۔ جھوٹ کے بارے میں آخر میں ایک "زنانہ جھوٹ" بھی سنتے جائیے کہ جھوٹ بولنے والوں کو کالا کوا کاٹا کرتا ہے یعنی (اگر سیاں) جھوٹ بولے (تو) کوا کاٹے، (لہذا اے سیاں!) کالے کوے سے ڈریو۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔

عینک
ایک دیہاتی اپنے لیے چشمہ بنوانے شہر گیا۔ ڈاکٹر نے اس کی آنکھیں ٹیسٹ کر کے اس کے لئے ایک چشمہ منتخب کیا تو دیہاتی نے ڈاکٹر صاحب سے کہا۔ ڈاکٹر صاحب! میں یہ عینک لگا کر آسانی سے پڑھ لکھ تو سکتا ہوں نا؟ ڈاکٹر نے جواب دیا ہاں! ہاں کیوں نہیں۔ دیہاتی نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا کہ شکر ہے بغیر عینکوں کے تو مجھے ساری عمر پڑھنا آیا۔ اب میں بھی عینک لگا کر بابو صاحب بن جاؤں گا۔

دیکھا آپ نے عینک کا کارنامہ! پلک جھپکتے، بلکہ عینک لگاتے ہی ایک دیہاتی بابو صاحب بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے عینک اتارتے ہی۔۔۔ ایک سائنس دان ٹرین میں سفر کر رہے تھے کہ یکایک انہیں اپنے کسی اہم خط کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ پڑھنے والی عینک تو گھر ہی بھول آئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وہ خط اپنے ساتھ والے صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ ذرا دیکھنا تو اس میں کیا لکھا ہے؟ موصوف نے ان کی طرح دیکھا اور معذرت کے انداز میں بولے معاف کیجئے گا میں بھی آپ ہی کی طرح ان پڑھ ہوں۔

عینکوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک دھوپ کی عینک جسے عرف عام میں سن گلاس کہتے ہیں ۔ اور دوسری نظر کی عینک۔ جی ہاں اس دوسری قسم کو عرف عام میں پاور گلاس کہتے ہیں۔ اس پاور گلاس کی پھر مزید دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہوتی ہے جو دور کی چیزوں کو واضح کر کے دکھاتی ہے ۔ جبکہ دوسری قسم قریب کی چیزوں کو بڑا اور نمایاں کر کے دکھاتی ہے۔

جن خواتین و حضرات کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے۔ وہ موخر الذکر قسم کی عینک سے استفادہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی قریب و دور دونوں نظریں کمزور ہوتی ہیں۔ وہ دونوں اقسام کے گلاسز باری باری(حسب ضرورت) استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ترتیب استعمال الٹ ہو جائے تو بڑی دلچسپ صورتحال پیش آتی ہے۔ ایک خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ شاپنگ کر کے واپس آ رہی تھیں کہ محترمہ کے ایک بچہ نے ریڑھی والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ امی مجھے یہ لے دیں پسینے میں شرابور خاتون نے رومال سے چہرہ صاف کیا اور عینک لگاتے ہوئے ریڑھی والے کے پاس آئیں اور ریڑھی والے سے کہا بھئی کیسے کلو دے رہے ہو۔ ریڑھی والے نے پہلے تو مشتبہ نگاہوں سے خاتون کی طرف دیکھا پھر بولا : بیگم صاحب آپ غبارے بھی تول کر خریدیں گے۔ خاتون کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے فوراً عینک تبدیل کی تو پتہ چلا کہ جسے وہ انگور سمجھ رہی تھیں وہ دراصل غبارے تھے۔

دھوپ کی عینک یوں تو آنکھوں کو دھوپ کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے ایجاد کی گئی تھی مگر اس اس کا استعمال آشوب چشم کے مریضوں کے علاوہ خواتین خاص خاص مواقع پر کثرت سے کرتی ہیں۔ سن گلاس کے شیشے عموماً رنگین ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو کئی کئی رنگوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں۔ جبکہ پاور گلاس یعنی نظر کی عینک عموماً شفاف شیشوں کی ہوتی ہے۔ مگر خواتین کے پاور گلاس عموماً رنگین ہی ہوتے ہیں تاکہ سن گلاس کا شائبہ رہے اور ان کی بینائی کی کمزوری کا اسرار کھلنے نہ پائے۔
مردوں والی بات
راشد بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ جب بھی گھڑی کی جانب دیکھتا، اس کی بیوہ ماں کی نگاہ بے اختیار گیٹ کی طرف اٹھ جاتی۔ آج راشدہ کو کالج میں خاصی دیر ہو گئی تھی اور جب تک وہ گھر نہ آ جاتی راشد کھانا کھانے سے انکار ہی کرتا رہتا۔ حالانکہ اسے اخبار کے دفتر جانے میں دیر ہو رہی تھی جہاں وہ بطور پروف ریڈر ملازم تھا۔ اس کی ماں بھی کئی بار دبے لفظوں میں اسے کھانا کھانے اور دفتر جانے کا کہہ چکی تھی مگر راشد کے شدت سے انکار کرنے پر وہ بھی خاموش ہو جاتی اور تشکر بھری نگاہوں سے بیٹے کا چہرہ تکنے لگتی۔ یہ تقریباً روز ہی کا معمول تھا۔

راشد گو راشدہ سے ایک برس چھوٹا تھا مگر ذہانت اور محنت میں راشدہ سے کسی طور کم نہ تھا اسی لئے والدین نے دونوں کو ایک ہی کلاس میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ پڑھنے پڑھانے میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں میٹرک میں پہنچ گئے۔ اساتذہ کے مشورہ اور بچوں کے رحجانات کو دیکھتے ہوئے ان کے ابو نے انہیں سائنس گروپ میں داخلہ دلا دیا۔ خیال تھا کہ بیٹے کو آگے جا کر انجینئرنگ اور بیٹی کو میڈیکل میں داخلہ دلائیں گے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس روز میٹرک کا نتیجہ متوقع تھا جب راشد اور راشدہ کے ابو دفتر کے لئے گھر سے نکلنے لگے تو ان دونوں نے ایک بار پھر انہیںیاد دلایا کہ اخبار کا سپلیمنٹ نکلتے ہی وہ دفتر سے چھٹی لے کر گھر آ جائیں گے۔ اور انہوں نے بھی وعدہ کر لیا تھا کہ وہ صرف اخبار لے کر نہیں بلکہ مٹھائیوں کے ڈبے بھی لے کر آئیں گے۔ اور جب وہ حسب وعدہ اخبار کا سپلیمنٹ اور مٹھائی کے ڈبے لے کر خوشی خوشی تیز رفتاری سے اسکوٹر چلاتے ہوئے گھر لوٹ رہے تھے کہ اچانک سامنے آ جانے والے ایک بچے کو بچاتے ہوئے مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرک سے ٹکرا گئے اور جائے حادثہ پر ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

غمزدہ مختصر سا خاندان سرکاری کوارٹر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں شفٹ ہو گیا۔ راشد کے بے حد اصرار اور والد مرحوم کی خواہش کے مطابق راشدہ نے انٹر سائنس پری میڈیکل گروپ میں داخلہ لے لیا جبکہ راشد نے صبح ایک آرٹس کالج میں داخلہ لے کر شام کو ایک اخبار میں ملازمت کر لی۔ اب یہ روز کا معمول تھا کہ راشد کالج سے چھٹی ہوتے ہی گھر آ کر کھانے پر ماں کے ساتھ راشدہ کا انتظار کرتا کیونکہ پریکٹیکل کے باعث ہفتہ میں تین چار دن تاخیر سے گھر لوٹتی جب تک وہ گھر نہ لوٹ آتی راشد نہ تو کھانا کھاتا اور نہ دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلتا۔

آج بھی وہ راشدہ کے انتظار میں ماں کے ساتھ بیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا، تاکہ ماں کی توجہ بھی بٹی رہے اور انتظار کے لمحات بھی با آسانی کٹ جائیں۔ "اماں ایسا لگتا ہے جیسے اس گھر میں ہم ہمیشہ تین ہی افراد رہیں گے" راشد نے پیار بھری نظروں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ارے کیا منہ سے بدفال نکالتا ہے۔" ماں نے جھوٹ موٹ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "جب میں تیرے لئے ایک چاند سی دلہن لے آؤں گی تو۔۔۔" راشد ماں کا فقرہ درمیان ہی سے اچکتے ہوئے بولا "اماں اس وقت تک باجی کی شادی بھی تو ہو جائے گی۔ اس گھر میں ہم تو پھر تین کے تین ہی رہیں گے ناں!" "ارے بیٹا تو کتنا بھولا ہے۔ دیکھ جب میرا پوتا اس گھر میں آئے گا تو ہم پھر۔۔۔"۔ "مگر اماں!" بیٹے نے شوخ نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا "اس وقت تک تم اللہ میاں کے پاس نہ ۔۔۔ "! ارے اب تو میرے۔۔۔۔ !" اتنے میں گیٹ کسی نے زور سے دھڑ دھڑایا۔ یہ راشدہ کے گھر آنے کا مخصوص انداز تھا۔ راشد نے ماں کی توجہ بٹاتے ہوئے کہا "اماں۔۔۔ لوباجی بھی آ گئی۔ اب جلدی سے کھانا نکالئے۔ مجھے پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔" کھانا تو پہلے ہی سے تیار تھا۔ بس راشدہ ہی کے آنے کی دیر تھی وہ آئی تو سب کھانے پر بیٹھ گئے اور راشد جھٹ پٹ کھانا کھا کر راشدہ اور ماں کو دسترخوان پر ہی چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔
 
دن اسی طرح کٹتے رہے۔ راشد نے انٹر کر کے بی اے میں اور راشدہ نے مطلوبہ مارکس نہ آنے پر بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ ابھی وہ فائنل ایئر ہی میں تھی ماں بیٹے نے ایک اچھا رشتہ دیکھ کر اسے پیا گھر بھیج دیا۔ بی اے پاس کرتے ہی راشد کو اپنے ہی اخبار میں سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ گھر میں ذرا خوشحالی آئی تو ماں کو چاند سی بہو لانے کا ارمان دل میں جاگا۔ یوں راشد کی بھی شادی ہو گئی۔ گھر کے بے تکلفانہ ماحول کی جگہ رکھ رکھاؤ نے لے لی۔ راشدہ اب میکے آتی تو ماں اور بھائی کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح گھنٹوں بے تکلفانہ گفتگو کرنے کی بجائے بھائی بھابھی سے علیک سلیک کرنے کے بعد ماں کے کمرے میں جا گھستی اور ماں بیٹی گھنٹوں نہ جانے کیا کھسر پھسر کرنے لگتیں۔ ایسے میں راشد اگر گھر میں ہوتا تو اسے بڑی کوفت ہوتی۔ اس کی بیوی کچن میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتی تو وہ اپنے کمرے میں تنہا لیٹا بہن اور ماں سے ماضی کی طرح بے تکلفانہ ماحول میں گفتگو کرنے کی تمنا کیا کرتا۔ اس روز بھی وہ جب دفتر جانے کے لیے کھانا کھانے گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ ساتھ والے کمرے سے راشدہ اور ماں کے درمیان باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں جو نسبتاً تیز ہونے کی وجہ سے صاف سنائی دے رہی تھیں۔ غالباً انہیں راشد کے گھر آنے کی اطلاع نہ تھی۔ راشدہ ماں سے اپنے سسرال کی شکایتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی، "امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!" قبل اس کے کہ بیٹی ماں سے مزید شکوہ شکایت کرتی راشد کی بیگم نے کمرے میں آ کر راشد کے آنے اور کھانا لگ جانے کی اطلاع دی۔ اور یوں بات آئی گئی ہو گئی۔ راشد نے حسب معمول سب کے ساتھ کھانا کھایا اور سب کو گپ شپ کرتا چھوڑ کر دفتر کو روانہ ہو گیا۔

دن اسی طرح ماہ و سال میں تبدیل ہونے لگے۔ اب راشدہ میکے آتی تو اس کی گود میں اس کا بیٹا بھی ہوتا۔ اور وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ دن ماں کے ہاں قیام کرتی۔ ادھر راشد کی بیگم ہنوز اپنی گود ہری ہونے کے انتظار میں تھی۔ راشد کو تو اس بات کی چنداں فکر نہ تھی۔ مگر ماں اور بہن دونوں مل کر راشد کے کان بھرتیں تو وہ بھی کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔ اور پھر اس کی اپنی بیگم سے ان بن ہو جاتی مگر وہ بالاخر بیوی ہی کی بات کو معقول پا کر ماں اور بہن کی باتوں کو نظر انداز کر دیتا۔ اور اپنے روز مرہ کے معمول میں گم ہو جاتا۔ یہ دیکھ کر ماں بیٹی دونوں راشد سے روٹھ جاتیں۔

راشد کےرویہ میں کسی تبدیلی کو نہ دیکھ کر بالاخر ماں بیٹی نے راشد سے دو ٹوک گفتگو کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ خوش قسمتی سے انہیں اس بات کا موقع بھی مل گیا۔ راشدہ اس مرتبہ جب میکے آئی تو پتہ چلا کہ بھابھی اپنے میکے گئی ہوئی ہے۔ ماں بیٹی نے موقع غنیمت جانتے ہوئے راشد کو گھیر لیا۔ راشدہ کہنے لگی : میں کہتی ہوں کیا ہر بات میں بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہو۔ مرد بنو مرد۔ اپنے اندر کچھ تو مردوں والی بات پیدا کرو۔ اور ہاں اب کان کھول کر سن لو۔۔۔۔

راشدہ بولے جا رہی تھی مگر راشد بظاہر متوجہ ہونے کے باوجود کچھ سننے سے قاصر تھا۔ کیونکہ اس کے کانوں میں راشدہ کے وہ جملے گونج رہے تھے جو اس نے ماں سے اپنے شوہر کے متعلق کچھ عرصہ پہلے کہے تھے : امی وہ میری تو بالکل ہی نہیں سنتے۔ ہر کام ماں اور بہنوں سے پوچھ کر ہی کرتے ہیں۔ یہ کوئی مردوں والی بات تو نہ ہوئی نا!
 

No comments:

Post a Comment