Thursday 15 March 2012

کتاب : یوسف کا بکا جانا ۔ حصہ سوم

شہید صحافت

یہ دسمبر94ء کے پہلے اتوار کی شام تھی۔ میں حسب معمول اپنے اخبار کے لئے لندن سے موصول ہونے والی خبروں کی تدوین و ترجمہ میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک روزنامہ کے مدیر تھے جو ممتاز صحافی محمد صلاح الدین سے متعلق ایک خبر کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ متعلقہ رپورٹر سے فوری رابطہ کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کچھ ہی دیر قبل صلاح الدین صاحب کو ان کے دفتر سے نکلتے ہی نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو صلاح الدین صاحب کے ایک دیرینہ رفیق کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ جمعیت الفلاح گئے ہوئے ہیں اور جب میں وہاں پہنچا تو اجلاس کا اختتامی سیشن چل رہا تھا۔ اور صدر مجلس بتلا رہے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو صلاح الدین صاحب نے فون پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع دی تھی۔ اے کاش کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے دفتر سے جلد اٹھ جاتے تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا جو ہو گیا ہے۔۔۔ مگر اس طرح تو وہ شہادت کی سعادت سے محروم نہ ہو جاتے؟۔۔۔ پھر کیا ہوتا، کم از کم ہم تو ان سے محروم نہ ہوتے۔۔۔ ہم بھی کتنے خود غرض ہیں کہ ہر دم اپنی غرض۔۔۔ اپنی محرومی ہی کا خیال رہتا ہے۔ ایک وہ تھے جو اپنے شہر، اپنے ملک بلکہ پورے عالم اسلام کی محرومیاں دور کرنے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے اپنی جان تک کی بازی لگا بیٹھے۔

گو صلاح الدین صاحب سے جمعیت الفلاح کے اجلاسوں اور شہر میں ہونے والی دیگر تقاریب کے علاوہ کبھی براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ان کے ساتھ کسی اخبار یا رسالہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے باوجود مجھے ان کی تحریروں اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کےمطالعہ سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے صلاح الدین صاحب پر ایک بھرپور خاکہ لکھا جو غالباً ان کی زندگی میں ان پر لکھی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحریر ہے۔ یہ خاکہ تکبیر ہی میں شائع ہونے والے معروف سیاسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کے مقبول عام سلسلہ "تاب سخن" کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ یہ خاکہ اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ صلاح الدین صاحب کے پرستاروں نے اسے ان کے خلاف اور ان کے مخالفین نے حمایت میں لکھا ہوا خاکہ قرار دیا۔

مجلس ادب کی ایک تنقیدی نشست میں ممتاز شاعر جمیل علوی نے کہا کہ یہ کالم لکھ کر موصوف "گڈول" بنانے کے چکر میں ہیں۔ شمس الدین خالد نے کہا کہ یوسف ثانی نے خاکہ اڑانے والے کا خاکہ خوب اڑایا ہے۔ کمانڈر عبد الجلیل صاحب نے کہا کہ خاکہ نویس اپنا بھرپور روایتی انداز پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، غالباً ان پر زیر بحث شخصیت کا خوف طاری رہا ہے۔ جبکہ اس خاکسار نے یہ خاکہ صلاح الدین صاحب کو ارسال کرتے ہوئے ان کے نام اپنے پہلے اور آخری مکتوب میں صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ : "کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود مضمون نگار اپنے تحریر کردہ مضمون کے نفس سے متفق نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب لکھنے والا کالم نویس یا فکاہیہ نگار ہو۔ وہ اکثر و بیشتر خلق خدا کی آراء کو زبان عطا کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کالم نویس نے لکھا ہے وہ دراصل خود اس کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں۔


صلاح الدین صاحب کی زندگی میں لکھا گیا یہ خاکہ گو اپنی جگہ ایک مکمل اور مربوط تحریر ہے جس کے حصے بخرے کرنے سے اس کا حسن اور تسلسل متاثر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہونگے۔

صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نردیک نَر صحافی۔ نتیجتاً موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص "بُو" پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی "خُو"۔ ابھی تک یہ بات واضح نہین ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلے میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہیے کہ وہ ان اسپانسرز کی پریشانی دور کر دیں۔ ان کی اپنی (مالی) پریشانیاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔

ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام پہلے بھی جارے تھے اور غالباً آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ عوام الناس انہیں "جماعتی" سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ جماعتی انہیں جماعتی سمجھتے تو تھے مگر اب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو انہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی پیدائشی مسلم لیگی کہتے ہیں تو کبھی الجماعت (جس کا وجود ع ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے، کی طرح متنازعہ ہی ہے) کارکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جماعت سے متفق ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ جماعت میں متفقین ہی کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس جمہوری دور میں لوگ عموماً اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ پھر شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر متفقین جماعت ہی سے ہے۔

 صلاح الدین دھن کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں اسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں۔ حکومت خواہ اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ اپنوں کی حکومت میں گھر اور دفتر جلوا کر سرکاری امداد ببانگ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر راس نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے بڑے صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کرکے بھی اچھے ہی رہے اور یہ نہ حاصل کر کے بھی بُرے کے بُرے۔ گو تکبیر کا آغاز "مجھے ہے حکم اذاں" سے کرتے ہیں مگر بدخواہوں کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور "اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں" بھی کہنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی عقیدہ کی بنیاد پر جماعت میں "بت" ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شکنی" کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ الزام بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطً موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اٹھا کر بہت دور لے گئےہیں۔


صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے (نفس کے) تن کو قید رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید" پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کی ہوتی تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اردگرد ادیبوں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس۔ عورتیں تو محض "پی" کو کوستی ہیں یہ پی۔۔۔ پی کو کوستے رہتے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ کود بھی بند ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے بھولے نکلے کہ دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے نہ پکڑنے والوں سے۔ چنانچہ بالا آخر اخبار سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو" ہو کر تیرے کوچے سے میں نکلا۔ جس کی حمایت کرتے ہیں اسے شہید کا درجہ دلوا کر رہتے ہیں۔ مثلاً ضیاء الحق شہید۔ جس کی مخالفت کرتے ہیں اسے پھانسی پر لٹکوا کر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نواز شریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔

جماعت سے گو متفق ہیں مگر "جماعتوں" سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گڑ تو پسند ہے مگر گلگلوں سے پرہیز فرماتے ہیں۔ گل بہار (بانو نہیں) سے خاصی انسیت ہے۔ مگر جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف اسے دوبارہ گولی مار بنانے پر تل گئے ہیں، طبیعت کچھ اچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کی کوٹھڑی میں ہوتے تھے تو کوٹھڑی کے باہر پولیس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادہ کوٹھڑی سے نکل کر باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ یہ گل بہار میں ہوتے تھے تو گھر کے باہر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا کہ مبادا اردگرد موجود ان گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والی بسوں، منی بسوں کے کنڈیکٹروں کی صدا۔ گولی مار!گولی مار! پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔
کوچہ صحافت میں جہاں کہیں بھی رہے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ اپنی صحافتی ٹیم کے کارکنوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو کسی مشاعرہ میں شاعر یا اکھاڑے میں پہلوان اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی قافیہ، ردیف اور داؤ پیچ خود بتلاتے ہیں، شاگرد انہی پر عمل کر کے کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ کثیر الشاگرد صحافی ہیں۔ جو شاگردی سے انکار کر دے اسے اپنی ٹیم سے ہی نکال دیتے ہیں۔ ایک غیر خواہ کے بقول خود کو صحافت کا وڈیرہ اور قاری کو اپنا ہاری تصور کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے نیوز میگزین کے نام پر "ویوز میگزین" نکال رہے ہیں۔ اداریہ سے لے کر ادبی کالم تک کے تمام صفحات موصوف کے ذاتی ویوز کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قارئین کے تعریفی خطوط انہیں اور تنقیدی خطوط ان کی ردی کی ٹوکری کو بہت مرغوب ہیں۔ سیاستدانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہوئے اس کی تکا بوٹی کرنا جائز تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی سطر ان کے پرچہ میں شائع ہوئی ہو جو ان کے خلاف جاتی ہو۔ جو دوست کا دوست ہے وہ ان کا بھی دوست ہے چنانچہ دوست کے دوست کا سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ اپنی رائے کو اس تواتر سے لکھتے ہیں کہ ہر پرچہ پر گذشتہ شمارے کا گمان ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو (جو اکثر ہوتا ہے) سابقہ تجزیوں اور جائزوں ہی کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کر کے فروخت کے لئے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ جس شخص یا جماعت کو ملک دشمن سمجھ لیں اس کی ہر اچھی بات (فعل) پر بھی شک کا اظہار کرتے ہیں اور جسے ایک مرتبہ ملک کا خیر خواہ قرار دے دیں، اس کی ہر ملک دشمنی سے صرف نظر کرتے ہیں۔

ہم موصوف کے خیر خواہ ہونے کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ ان کا پرچہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ وہ اپنے پرچہ کی ترقی کی خاطر اپنے پرچے میں اپنا کالم شائع کرنا بند کر دیں بلکہ ہر وہ کالم بند کر دیں جو ان کے کالموں کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ ان کا پرچہ کم از کم ان کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کر سکے جو ہر ہفتے نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ او ریہ کوئی انہونی بات نہ ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اب تک ایسی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورے پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچے کو شامل نصاب کرنے میں محکمہ تعلیم کو کوئی عار نہ ہو گا اور یوں ان کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے بہت آگے نکل جائے گا۔

سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی وقوعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔۔۔ خفیہ اجلاسوں کا آنکھوں دیکھا حال" اس طرح قلمبند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کار خیر" کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہو پاتی، درمیان میں "ایجنسیاں" جو حائل ہو جاتی ہیں۔۔۔"

اور قارئین کرام! آپ نے دیکھ ہی لیا جونہی "ایجنسیاں" درمیان میں سے ہٹیں۔ اور شہر سے نکل کر واپس بیرکوں میں پہنچیں، صلاح الدین صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی "پیشن گوئی" ٹھیک ایک برس قبل یعنی دسمبر ۹۳ء میں لکھے گئے اس خاکہ میں کی گئی تھی۔ غالباً یہی وہ احساس تھا جس کے باعث صلاح الدین شہید کے جنازہ کو اشکبار آنکھوں سے کاندھا دیتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کاش میں نے یہ خاکہ نہ لکھا ہوتا۔۔۔ مگر میرے یا کسی کے لکھنے یا نہ لکھنے سے کیا ہوتا ہے، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہے۔

صلاح الدین صاحب کی شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ ساز شخصیات کی زندگیوں میں ۵۹ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ میدان صحافت میں ربع صدی سے زائد بھرپور سال گزار کر ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر سے بھی قبل ریٹائر ہونے والے اس شہید صحافت بلکہ شہید وفا کے لئے میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ وہ ۔۔۔ اللہ کی عطا کردہ زندگی ۔۔۔ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر کے ع حق تو یہ کہ حق ادا کر گیا۔
 

محمد نقوش

اگر بالفرض محال آج میں مر جاؤں تو کیا ہو گا۔ بعض لوگ خوش ہوں گے تو بعض کہیں گے کہ چلو اچھا ہی ہوا۔ شاید چند ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہاں مرحوم ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے چند اچھے اچھے نمبر نکالے اور بس۔ کیا میں صرف ان چند جملوں کے لیے دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ دن رات کام کرتا ہوں اور دن رات مرتا ہوں۔ کیا صرف ان چند جملوں کے لیے؟

جی ہاں یہ ان الفاظ کا مفہوم ہے جو مدیر نقوش محمد طفیل مرحوم نے اپنی کتاب "جناب" میں اپنے ہی اوپر لکھے گئے ایک خاکے میں اپنے بارے میں کہے اور آج یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ مرحوم کی وفات پر پاکستان ٹیلی ویژن نے بیس منٹ کے مختصر سے وقت میں چند اصحاب کے تاثرات پیش کیے جو ان ہی چند جلموں پر مشتمل تھے جن کا تذکرہ مرحوم نے اپنے ذاتی خاکے میں کیا تھا۔

محمد طفیل کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جن کے بارے میں سیلف میڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ آپ نہ تو معروف سکہ بند ادیبوں میں سے تھے نہ مدیروں میں۔ مگر آپ نے اپنے آپ کو بحثییت ادیب و مدیر اس طرح منوایا کہ بڑے بڑے سکہ بند ادباء بھی آپ کے سامنے بونے نظر آنے لگے۔ آپ نے علم و ادب کی دنیا میں بحثییت ایک کاتب کے قدم اٹھایا۔ آپ کو کتابت کرنے کا شروع ہی سے شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مشہور ادباء سے فرمائش کر کے ان کی کتابیں کتابت کیا کرتے، بعد ازاں آپ نے ادیبوں ک کتابیں شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ادب نوازی کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو آپ کو ایک ایسے رسالے کی ضرورت محسوس ہوئی جسے ادبی دنیا میں انسائیکلوپیڈیا کا مرتبہ حاصل ہو۔ چنانچہ آپ نے نقوش جاری کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس کی ادارت احمد ندیم قاسمی کے سپرد کی مگر پھر آپ اور نقوش اس طرح یکجان ہو گئے کہ نقوش کے لیے آپ کی ادارت ناگزیر ہو گئی۔ نقوش سے آپ کا والہانہ لگاؤ اتنا بڑھا کہ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے آپ کو محمد طفیل کی بجائے محمد نقوش کہنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب کی دنیا آپ کو محمد نقوش کے نام سے پہچاننے لگی۔ علمی و ادبی دنیا میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ نقوش کے خصوصی نمبرز ہیں۔ بقول پطرس بخاری مرحوم' طفیل صاحب کا ہر شمارہ خاص نمبر ہوےا ہے۔ آپ نقوش کے عام شمارے خاص خاص موقع پر شائع کرتے ہیں۔ انہوں نے نقوش کے جتنے بھی موضوعاتی نمبر نکالے ہیں' وہ تمام کے تمام اپنے موضوع پر حوالے کی حثیت رکھتے ہیں۔ ریٹائرڈ جسٹس عطاء اللہ سجاد کے بقول نقوش کے یہ نمبرز تحقیق کی نئی راہیں استوار کر سکتے ہیں۔ منفرد اسلوب کے مالک صدیق سالک کہتے ہیں کہ "محمد طفیل کے لاکھوں عقیدتمندوں میں سے ایک ہوں۔ میرا ان سے رعارف نقوش کے ذریعے ہوا۔ جب میں نے نقوش کے پیچھے طفیل صاحب کی شخصیت کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اگر نقوش عظیم ہے تو طفیل صاحب عظیم تر"۔

محمد طفیل مرحوم نے نقوش 1948 میں احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت شروع کیا۔ اس زمانے میں منفرد ادیبہ حاجرہ مسرور بھی نقوش سے منسلک تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ہم نے اس زمانے میں نقوش کے عالمی امن نمبر اور جشن آذادی نمبر نکالے جو بےحد مقبول ہوئے۔ حامد علی خان اپنے تاثرات میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انہیں سب سے پہلے مدیر اعلی کا خطاب دیا۔ کیونکہ انہوں نے نقوش کی ادارت کا حق ادا کر دیا۔ انہوں نے جدید اور قدیم دونوں ادب پر کام کیا ہے جو اردو ادب کی تاریخ میں بلند مقام رکھتا ہے۔ گو اس سے پہلے اس قسم کا کام امتیاز علی تاج نے بھی اسی طرز پر کیا تھا مگر محمد طفیل مرحوم جیسا کام وہ بھی نہیں کر پائے۔

معروف ڈرامہ نگار انتظار حسین کہتے ہیں کہ مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے برا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔ محمد طفیل مرحوم نے یوں تو نقوش کے متعدد شاہکار نمبر نکالے مگر ان کا سب سے برا اور آخری کارنامہ تیرہ جلدوں پر مبنی رسول نمبر ہے جو پوری دنیا میں کسی بھی زبان میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھے گئے رسالوں سے کہیں زیادہ مستند ہے۔ رسول نمبر کی تدوین کے دوران ایک مرتبہ صدر مملکت نے ان کی خدمات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت کے پیش نظر انہیں یہ پیشکش کی کہ آپ سرکاری خرچ پر حج کر آئیں تو آپ نے فرمایا: میں خالی ہاتھ روضہ رسول پر حاضری نہیں دے سکتا جب تک کہ رسول نمبر مکمل نہ کر لوں۔ صدر نے جواباً فرمایا بھئی لطف تو اسی میں ہے کہ آپ خالی ہاتھ در مصطفے (صلی اللہ علیہ وسلم) پر جائیں اور جھولی بھر کر لائیں۔ چنانچہ اس طرح محمد طفیل صاحب حج پر گئے۔ کسی نے ان کی موت پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ انہوں نے نقوش کے بہت سے نمبر نکالے۔ ان نمبروں میں سے سب سے شاہکار نمبر رسول نمبر تھا۔ اس رسول رسول نمبر سے بڑھ کر آپ کوئی اور نمبر نہٰن نکال سکتے تھے لہذا آہ کو مر ہی جانا چاہیے تھا۔ ہم اپنے کالم کا اختتام پروفیسر مرزا محمد منور کے اس قول پر کرتے ہیں کہ "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فرد واحد کے زیر انتظام کسی ادارے نے کی ہو" ع

حق مغفرت کرے عجب آذاد مرد تھا



زندہ ہیں مسٹر دہلوی

مسٹر دہلوی اظہار بیان میں الجھاؤ اور مصلحت کے قائل نہ تھے کیونکہ مصلحت پسندوں کا ضمیر تو کیا مافی الضمیر بھی نہیں ہوتا۔ آج تو لوگ سچ بھی اس طرح اٹک اٹک کر بولتے ہیں گویا جھوٹ بول رہے ہوں۔

ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جمعیت الفلاح میں منعقدہ مسٹر دہلوی کی تیسری برسی کے موقع پر اپنے مخصوص انداز تحریر میں، بحیثیت مہمان خصوصی تقریر فرما رہے تھے اور میری نگاہوں کے سامنے ۳۱ جولائی ۱۹۸۸ء کی وہ شام تھی جب فلاح مجلس ادب کے تحت اسی جگہ مسٹر دہلوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی تھی۔ موتمر عالم اسلامی کے جناب ایس ایس جعفری کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر عنایت علی خان اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے مسٹر دہلوی کے فن و شخصیت پر مقالے پڑھے۔ جبکہ مجلس کے سیکرٹری کی حیثیت سے اس خاکسار نے بھی اظہار خیال کیا۔ مسٹر دہلوی کی زندگی میں ان کے ساتھ منائی جانے والی یہ آخری شام تھی۔ ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد میں پہلے تعزیتی جلسہ کے اہتمام کا اعزاز بھی فلاح مجلس ادب نے ہی حاصل کیا۔

مسٹر دہلوی کے ساتھ منائی جانے والی اس آخری شام کے صرف ایک ہفتہ بعد ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو اس خاکسار کے لئے ابھی تک پشیمانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک مقامی روزنامہ میں مسٹر دیلوی کا ایک تفصیلی مضمون "موسمی معاشیات دان" کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مسٹر دہلوی ایک مزاح گو شاعر و ادیب کے علاوہ ایک معاشیات دان بھی تھے۔ اس سلسلہ میں ان کی ایک ضخیم کتاب "مکالمات سقراط" بھی شائع ہو چکی ہے۔ مرحوم کی وفات پر اس خاکسار نے یہ چار مصرعے کہے تھے جن میں مسٹر دہلوی کی چاروں کتابوں کے نام موجود ہیں۔

گر "عطر فتنہ"، "سوئے ادب" کی بات تھی
تو "مکالمات سقرا" کیونکر "سپرد قلم" ہوئے

گلشن شعر و ادب میں، زندہ ہیں مسٹر دہلوی
ہاں! مشتاق احمد چاندنا رخصت ہوئے
مسٹر دہلوی کا چار ہزار الفاظ کا یہ تفصیلی مضمون جس صبح اخبار میں شائع ہوا اس روز میں دفتر جانے کی بجائے اس مضمون کا جواب لکھنے بیٹھ گیا اور ایک ہی نشست میں "موسمی ماہرین معاشیات اور مسٹر دہلوی" کے عنوان سے تقریباً ڈھائی ہزار الفاظ تحریر کئے۔ یہ مضمون اسی ہفتہ شائع ہوا۔ اس مضمون میں خاکسار نے مسٹر دہلوی کے متذکرہ بالا مضمون کے بقول شخصے، دھجیاں بکھیر دیں۔ مضمون میں پیش کردہ جملہ خیالات کی رد میں نہ صرف ذاتی دلائل دیئے بلکہ سند کے طور پر ممتاز علماء کی تحریروں سے اقتباسات بھی پیش کئے۔ میرا یہ مضمون پڑھ کر متعدد اصحاب علم نے خاکسار کے اس جرات اظہار کی تعریف کی۔ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میری اس گستاخی پر مسٹر دہلوی اپنے شدید رد عمل کا اظہار کریں گے۔ مگر میرے دل کی یہ "خواہش" دل ہی دل میں رہ گئی۔ اس واقعہ کے بعد بھی دو ایک بار ان سے شرف ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا مگر انہوں نے اس بات کا تذکرہ تک نہ کیا۔

مگر جب میرے اس مضمون کی اشاعت کے ٹھیک دو سال بعد جب مسٹر دہلوی کے انتقال کی خبر ملی تو میری حالت عجیب ہو گئی۔ دل نے کہا مسٹر دہلوی جیسے زندہ دل شخص کا دل دکھا کر تم ہی نے ان کے دل کو مزید دھڑکنے سے رکنے پر مجبور کیا ہے۔ تمہارے اس مضمون کو پڑھ کر مسٹر دہلوی کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو۔ اپنے ہم رتبہ اور بڑے بڑوں کے سامنے بے دھڑک بولنے والے کے سامنے جب تم جیسا ڈیڑھ بالشتیا آن کھڑا ہو تو انہوں نے خلاف معمول "جواب جاہلاں باشد خموشی" پر عمل کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ مگر ان کا نازک دل یہ صدمہ برداشت نہ کر پایا اور انہوں نے دنیا کو خیر باد کہنے میں عافیت محسوس کی۔ آج وہ یقیناً جنت الفردوس میں عافیت سے ہیں۔۔۔ ایک تم ہو ۔۔۔ ایک وہ تھے۔

تلسی کھڑے بجار میں، مانگے سب کی کھیر
نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر

مشتاق احمد یوسفی بتا رہے تھے کہ کوئی بیس برس قبل بارہ، گیارہ بہتر (۱۲/۱۱/۱۹۷۲) کو مسٹر دہلوی کے "عطر فتنہ" کی تقریب رونمائی میری ہی صدارت میں منعقد ہوئی تھی اور آج ان کی تیسری برسی پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود مجھے تقریر کرنی پڑ رہی ہے۔

پروفیسر اقبال عظیم نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ مسٹر دہلوی کو سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے دیدار سے نوازا تھا۔ مگر مسٹر دہلوی نے اس کا اظہار کبھی نہیں کیا بس ایک بار میرے سامنے ان کے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ اقبال عظیم کہہ رہے تھے مسٹر دہلوی نہ صف اول کے شاعر تھے نہ صف اول کے نثر نگار مگر انہیں ہر محفل میں وضاحت اور جرات کے ساتھ گفتگو کرنے کا فن آتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مصلحت اور مصالحت کے بغیر لکھا۔ ان کی تحریریں اور تقریریں ایک خاص مقصد کے لئے ہوتی تھیں۔ وہ ایک کھرے آدمی تھے جس میں صرف اس حد تک کھوٹ تھا کو بقول ان کے کھرے سونے کو زیور میں تبدیل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اقبال عظیم گواہی دے رہے تھے :"جو شخص نمازی پرہیز گار ہو، رزق حلال کماتا ہو، جھوٹ نہ بولتا ہو، اعلیٰ اسناد نہ ہونے کے باوجود ادبی خدمت کو ضروری سمجھتا ہو، وہ یقیناً ایک اچھا شخص ہی ہو سکتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر فردوس بریں میں "مسٹر" کے حضور اظہار پشیمانی کے لئے میرا یہ مضمون پیش کیا جائے تو وہ اس "ذود پشیماں" پر غالب کے کسی شعر کی پھبتی کسنے کے بجائے زندگی سے بھرپور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے اقبال عظیم کا یہ شعر پڑھنا پسند کریں گے۔

آشنا ہوتے ہوئے بھی، آشنا کوئی نہیں
جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں




غزل کہتے ہیں

غزل کے معروف شاعر جگر مراد آبادی کے بارے میں مشہور ہے کہ مرحوم خواتین کی غزل گوئی کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ "مجسم غزل" کی غزل گوئی چہ معنی دارد؟ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نے کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ کسی بھی شاعرہ کے مجموعہ کلام کو دیکھلے۔ غزل کے اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک تخلیق کار کی جنس واضح نہیں ہوتی شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو" کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر" رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کوبکو اس طرح پھیلی کہ اخباری رپورٹروں تک جا پہنچی۔ کم از کم کسی "نیک پروین" سے ایسی "ایکٹی ویٹی" کی توقع تو سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔

بزم کی ایک حالیہ نشست میں اردو کی ایک معروف صنف سخن "غزل" پر بحث کی جا رہی تھی۔ بحث کیا ہو رہی تھی بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایک مجسم "غزل" کے سامنے )جو خیر سے غزل گو شاعرہ بھی ہیں( عصر حاضر کے چند نامور اہل قلم "غزل سرائی" فرما رہے تھے۔ اگر یہاں "غزل سرائی" والی بات آپ کی سمجھ میں نہ آئی ہو تو سمجھے سمجھانے کی خاطر یہ واقعہ سن لیجئے جس کےجھوٹا یا سچا ہونے کی ذمہ داری حسب دستور راوی پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ہاں تو راوی کی روایت ہے کہ ایک طالبہ اپنے استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھی تھی اور استاد محترم تنگنائے غزل کی گتھیاں سلجھا رہے تھے کہ یکایک کچھ سوچ کر بولے : تمہیں معلوم ہے کہ غزل کے اصل معنی کیا ہیں؟ فرمانبردار شاگردہ کیا جواب دیتی سوالیہ نگاہوں سے استاد کی شکل تکنے لگی۔ استاد نے مسکراتے ہوئے کہا : بھئی! غزل کے لغوی معنی ہیں۔ "عورتوں سے باتیں کرنا" طالبہ جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ شوخ بھی تھی اپنی سیاہ چمکدار آنکھیں گھماتے ہوئے بولی : "استاد محترم" ایک بات تو بتائیں یہ آپ مجھے پڑھا رہے ہیں یا غزل سرائی فرما رہے ہیں۔

ہاں تو تذکرہ ہو رہا تھا مجسم غزل کی غزل سرائی کا۔۔۔ معاف کیجیے گا تذکروہ ہو رہا تھا، اہل بزم، کی غزل سرائی کا۔ بھئی قلم آخر قلم ہے جب چلتا ہے تو کبھی کبھی بہک بھی جاتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب بہکنے کی معقول وجوہ بھی موجود ہوں۔ ایسے میں تو اچھے اچھے ادیبوں کی زبان تک بہک جاتی ہے ہمارا تو صرف قلم ہی بہکا ہے جو بہکنے کے بعد کم از کم بہکے ہوئے لفظوں کو قلمزد بھی کر سکتا ہے جبکہ زبان سے نکلی ہوئی بات تو اس تیر کی مانند ہوتی ہے جو کمان سے نکل جائے۔

دیکھئے ہم پھر اپنے موضوع سے بھٹکتے جا رہے ہیں۔ بات غزل کے تذکرے سے چلی تھی اور تیر کمان تک آ پہنچی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تیر اسی قلم ناتواں پر چل جائے اور جب کمین گاہ کی طرف نظر پڑے تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جائے۔ یہ تو طے ہے کہ یہ وہی دوست ہوں گے جن کی "دوستی" پر آسماں اپنی دشمنی تک بھول جاتا ہے اور بھول کیا جاتا ہے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔

لہذا آئیے ہم آپ کو دوبارہ اسی بزم میں لئے چلتے ہیں جہاں "اُن" کے آتے ہی بقول طرفداران میر، علم و ادب کے جملہ چھوٹے بڑے حاضر "چراغوں" کی روشنی ماند سی پڑ گئی تھی۔ اگر آپ میر کے طرفداران میں شامل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں خود انہی کا اعتراف نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ع

سج گئی بزم رنگ و نور ایک نگاہ کے لئے
بام پہ کوئی آ گیا، زینت ماہ کے لئے

اب جب بزم میں "آنیوالا" خود اپنی آمد کی وجہ "بزم کی سجاوت" قرار دے تو ہم آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم نے "آنے والا" کی اصطلاح شعر میں موجود لفظ "آ گیا" کی رعایت سے لکھی ہے ورنہ آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہاں ہم دونوں کو علی الترتیب "آ گئی" اور آنے والی لکھنا چاہیے تھا کہ کم از کم اس طرح تذکیر و تانیث کی اتنی بڑی غلطی تو نہ ہوتی۔ البتہ یہ درست ہے کہ ایسا کرنے سے شعر وزن سے گر جاتا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب ایک انٹرویو میں ایک شاعرہ سے پوچھا گیا کہ آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے تو موصوفہ نے نہایت بھولپن سے جواب دیا کہ میری شاعری کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک بے مقصد شاعری کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔ تاہم بار بار کے اصرار پر انہوں نے فرمایا غ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے" آج ان کا پیغام جہاں تک پہنچ چکا ہے، اس کا یہاں اعادہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اخبارات میں پہلے بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ زیر گفتگو بزم میں غزل پر گفتگو کے دوران جب قومی مقاصد کے تحت کی جانے والی شاعری کے حوالے سے علامہ اقبال کا ذکر آیا تو موصوفہ کو اقبال کی جملہ کلیات میں سے صرف ایک ہی مصرعہ قابل ذکر نظر آیا، مسکراتے ہوئے فرمانے لگیں : اقبال نے ع

بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
جیسی شاعری بھی تو کی ہے۔

غزل اور اینٹی غزل کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی کہ گھٹن کی فضا میں روایتی غزل کبھی حالات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ اس کے لہجہ میں لامحالہ جھنجھلاہٹ اور احتجاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ زندگی کی بے معنویت اور لغویت ہماری غزل میں در آئی ہے جسے بعض نقادان ادب نے "اینٹی غزل" کا نام دے رکھا ہے۔ تو بزم کی جان۔۔۔ میرا مطلب ہے بزم کی میزبان نے فرمایا : سابقہ گیارہ سالہ عہد آمریت میں ایسا ہی ہوا ہے۔ اب یہ ہمارا منصب نہیں کہ ہم سابقہ "عہد آمریت" اور موصوفہ کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں کیونکہ سب ہی جانتے ہیں موصوفہ آج جس "پوزیشن" میں ہین اس میں سابقہ عہد آمریت کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔

نشست میں غزل کے حوالہ سے ترقی پسند تحریک کا بھی تذکرہ ہوا اور پھر اس تحریک کے حوالے سے نام نہاد انقلاب کی باتیں کی گئیں۔ ظاہر ہے مقصود بھی یہی تھا وگرنہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تحریک کا تعلق اگر کسی صنف شاعری سے تھا تو وہ نظم تھی نہ کہ غزل۔ گفتگو جاری تھی۔۔۔ اور میں اپنے دور درشن کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا تھا، کیا عام گھریلو ادبی نشتوں کا معیار اس بزم سے بہتر نہیں ہوتا۔ پھر ہر پندھواڑے اس اہتمام کا فائدہ؟
 صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے


شجر ممنوعہ کا شاعر

گزشتہ دنوں معروف شاعر اور کالم نویس سرشار صدیقی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر نے اپنا پانچ برس پرانا مضمون "شجر ممنوعہ کا شاعر" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سرشار صدیقی کو "وصل کا شاعر" قرار دیا۔ ایک ہی مضمون میں ایک ہی شاعر کو شجر ممنوعہ کا شاعر اور وصل کا شاعر قرار دینا یقیناً حمایت علی شاعر کا خاصہ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ "شجر ممنوعہ" اور "وصل" کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں۔

پروگرام کے میزبان شبنم رومانی نے اپنے ابتدائی کلمات کی طرح اختتامی جملوں میں بھی سرشار صدیقی کی خوب خوب مدح سرائی کی۔ عذر یہ پیش کیا کہ اس قسم کی محفلیں کوئی تنقیدی نشستیں نہیں ہوتیں کہ صاحب شام پر تنقیدی گفتگو کی جائے۔ مگر امراؤ طارق نے اس ہدایت کی پرواہ کئے بٖغیر اپنا مضمون "کامریڈ سرشار صدیقی" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سرشار شاعری میں ہر طرح کے احتساب کے باوجود لکھتے رہے۔ نوجوانی میں شاعری تخلص کی آڑ میں کرتے رہے اور سگریٹ چھپ کر پیتے رہے۔ انہوں نے بتلایا کہ سرشار کلکتہ کی سڑکوں پر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچتے رہے ہیں اور اس قدر اشتراکی ہونے کے باوجود پور پور مسلمان ہیں کیونکہ انہوں نے مذہب کی کبھی نفی نہیں کی۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر ترقی پسندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔

پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں نے گریجویشن کی ایک طالبہ سے "وصال" کے بارے میں گفتگو کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ کہنے لگی کہ آپ بہت خراب ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وصال پر تو میر و غالب جیسے بڑے شاعروں نے بھی لکھا ہے۔ سرشار نے بھی وصال پر نظمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں لکھنا بھی عبادت ہے اور سرشار چالیس برس سے عبادت کر رہے ہیں۔ انجم اعظمی نے کہا کہ سرشار برا بھی ہے لیکن اس کے باوجود اچھا ہے اس لئے کہ وہ آدمی ہے فرشتہ نہیں۔ اس موقع پر قمر ہاشمی نے "سرشار صدیقی کے نام" ایک نظم سنائی جبکہ برگ یوسفی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا

خود اپنی زندگی کے چراغوں کی روشنی
خود اپنی شاعری کا سویرا کہیں اسے

جلسہ سے مہمان خصوصی ابو الخیر کشفی اور صدر نشین ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی خطاب کیا۔ سرشار صدیقی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق یا تردید کرنے سے فرمان فتح پوری نے انکار کر دیا) کہ آج سے برسوں قبل ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی کی صدارت میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی ہوئی تھی جو اپنی "نوعیت" کی پہلی تقریب تھی۔ پھر اس کے بعد کتابوں کی تقریب رونمائی کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے ہمارے خیال میں زیر تذکرہ تقریب میں بھی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے اور وہ یہ کہ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء سے درخواست کی گئی کہ وہ جانے سے قبل سرشار صدیقی کے مجموعہ کلام پر دستخط کرتے جائیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بعد میں کوئی شریک محفل اپنی اس "شرکت" کا انکار نہ کر سکے۔ ویسے ہم نے دیکھا کہ بہت سے شرکاء اس ہدایت پر عمل کئے بغیر ہی رخصت ہو گئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ سوچ سمجھ کر کیا یا یوں ہی ان سے بھول ہو گئی۔
 
ویسے دوران پروگرام شرکاء نے اپنے ادبی ذوق کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جہاں طویل اور "بور" مقالوں کو "ہوٹ" کیا وہیں مقررین کے اچھے فقروں کی خوب خوب داد بھی دی۔ ایک افسانہ نویس جب تقریر کرنے آئے تو ایک طرف سے آواز آئی۔ افسانہ نویس کبھی سچ نہیں بولتا۔ ایک طویل اور بور کر دینے والی تقریر کے بعد جب ایک دوسرے مہمان مقرر کو دعوت دی گئی تو ایک منچلے نے پیچھے سے آواز لگائی : ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔ آخر میں سرشار صدیقی نے ایک نظم اور ایک غزل کے چند اشعار سنائے۔ ایک شعر پیش خدمت ہے ۔

خدا پر آدمی پر یا صنم پر
کسی پر تو ترا ایمان ہوتا

اپنے مقالے میں حمایت علی شاعر نے سرشار صدیقی کو وصل کا شاعر قرار دیا ہے تو یقیناً انہوں نے سرشار کی شاعری کا مطالعہ کر کے ہی ایسا کہا ہو گا۔ لیکن چونکہ ادب کے قارئین کی کثیر تعداد آج بھی سرشار کی شاعری کے تفصیلی مطالعہ سے محروم ہے جس میں ادب کے قارئین کا کوئی قصور نہیں کیونکہ بقول انجم اعظمی صرف لالو کھیت میں مبلغ پچاس ہزار (کہ نصف جس کے پچیس ہزار ہوئے) شاعر پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے ایسے قارئین کی سہولت کے لئے ہم ذیل میں سرشار صدیقی کی ایک نظم درج کر رہے ہیں جوہم نے مجلہ سیپ کے شمارہ نمبر اڑتالیس سے نقل کی ہے

حی علی الوصال
عبادت گاہ خلوت میں
تری نظروں کے پر معنی تکلم نے
مرے لب بستہ جذبوں کو زباں دی تھی
تو میں نے آخر شب کے
بہت نازک
بہت نازک
حساس لمحوں میں
تری موج تنفس سے وضو کر کے
ترےمحراب سینے پر
تہجد کی اذاں دی تھی
 
 
یوسف ثانی سے ایک انٹرویو
آج ہم جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے چلے ہیں یقیناً ہم سے زیادہ آپ انہیں جانتے، پہچانتے ہوں گے کہ ان کی کوکئی ایک حیثیت تو ہے نہیں۔ یہ شاعر ہیں۔۔۔ نثر نگار ہیں۔۔۔ ایک مدیر اخبار ہیں۔۔۔ سنجیدگی بیزار ہیں اور نل جانے کتنی ادبی مجلسوں اور سماجی تنظیموں کے اہل کار ہیں۔۔۔ جب ہم نے پہلے پہل ان کی تحریریں۔۔۔ شگفتہ شگفتہ تحریریں پڑھیں تو نہ جانے کیسے یہ یقین سا ہو گیا کہ یوسف ثانی ان کا قلمی نام ہو گا۔ اور یہ بھی ان کی مزاح نگاری سے محفوظ نہیں رہ سکا ہو گا۔ ہو نہ ہو موصوف۔۔۔ شکل کے مالک ہوں گے۔ تبھی تو نام "یوسف ثانی" رکھ لیا ہے کہ اصلی مزاح نگار وہی ہوتے ہیں جو اپنا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کی ایک خوبی کا البتہ اندازہ ہوا کہ ناموں کی کتر بیونت کرنے کے کافی شوقین ہیں اور ساتھ ہی خاصے ذہین بھی۔ اب دیکھئے نا معروف ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی کو تو محض "سین" تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ خود محمد یوسف رضوی کی آڑ میں "میر" بن بیٹھے ہیں۔ گویا دیوان میر پر ہاتھ صاف کر جائیں تو کون انہیں روکنے والا ہے۔ ہم تو شکر کرتے ہیں کہ ہماری والدہ مھترمہ نے ہمارا نام گوہر پروین نہیں رکھ دیا ورنہ ممکن ہے کہ موصوف آج انٹرویو دینے کی بجائے ہمیں "گپ" کہہ کر ٹرخا دیتے تو ہم کیا بگاڑ لیتے میر ثانی صاحب کا، ہمارا مطلب ہے یوسف ثانی صاحب کا۔ ہمارے مختلف سوالوں کے جوابات انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ سوالات کو جوابات کے بین السطور میں تلاش کرنا قارئین کی اپنی ذمہ داری ہو گی۔
 
میں مرکز برائے مطالعہ جنوبی ایشیا، جامعہ پنجاب کی محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے معروف ادبی سلسلہ "ادب مینارے" کے لئے انٹرویو کی غرض سے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور سوالات کئے۔ ویسے تو کسی سے سوال کرنا کوئی مستحسن بات نہیں لیکن اگر یہ سوال انٹرویو وغیرہ کے ضمن میں ہو تو اتنی زیادہ بری بات بھی نہیں۔
 
بنارس کی صبح اور اودھ کی شام کے بارے میں تو نثر نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے مگر افسوس کہ ہمارے آبائی وطن کی ہوا کے بارے میں کسی نثر نگار نے تاحال طبع آزمائی نہیں کی۔ البتہ بعض شعراء نے اردو شاعری کو "بادِ بہاری" کی خوبصورت اصطلاح سے روشناس ضرور کرایا ہے۔ والدین کے عطا کردہ نام یوسف رضوی کو یوسف ثانی سے تبدیل کرنے کی وجہ محض اتنی سی ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی ایک اور صاحب نے بھی اسی نام سے لکھنا شروع کر دیا اور جب یہ خطرہ پیدا ہو چلا کہ کہیں "فرشتوں" کے لکھے پر ہم نہ پکڑے جائیں، تو ہم نے یہ سوچ کر نام بدل لیا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔ کوئی تین برس قبل لندن سے ایک کتاب یوسف ثانی کے نام سے شائع ہوئی تو ہمیں جنگ لندن میں یہ وضاحت شائع کروانی پڑی کہ "گو اس نام کے جملہ حقوق ہمارے نام محفوظ تو نہیں۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہم اسی نام سے پاکستانی اخبارات و جرائد میں کچھ نہ کچھ لکھ ضرور رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی۔۔۔ پاکستان پریس انٹرنیشنل کی شائع کردہ ایک صحافتی کتاب پر بطور مترجم اس خاکسار ہی کا نام یوسف ثانی درج ہے۔ علاوہ ازیں کوئی آٹھ برس قبل نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحہ پر "یوسف ثانی کی انشائیہ نگاری" کے عنوان سے جو جائزہ شائع ہوا ہے، وہ اسی احقر کے بارے میں ہے۔ ایک ایسا ہی مضمون "یوسف ثانی۔۔۔ ایک ابھرتا ہوا انشائیہ نگار" کے عنوان سے روزنامہ جسارت کراچی کے ادبی صفحہ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ اور اب گذشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والے میرے انشائیوں کا جو انتخاب زیر طبع ہے اس پر بھی میرا نام ظاہر ہے یوسف ثانی ہی درج ہو گا۔
 
اردو ادب میں شین قاف اہم ہوتے ہیں تو صحافت میں چھ کاف ضروری تصور کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس خبر میں چھ کاف یعنی کون، کیا، کب ، کہاں، کیوں اور کیسے میں سے جتنے زیادہ کے جوابات موجود ہوں گے، وہ خبر اتنی ہی مکمل ہو گی۔ ایسا لگتا ہے کہ فرزانہ بھی ان چھ کافوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، جبھی تو سارے کاف ایک ساتھ ہی پوچھ لئے کہ بھئی کون ہو؟ اصل نام کیا ہے؟ قلمی نام کیوں ہے؟ کب اور کہاں (شکر ہے "کیوں" نہین پوچھا) پیدا ہوئے اور کہاں تک پڑھے ہوئے ہو؟ ہم سفر (اب تک) کتنی اور کیسی ہیں؟ گلشن (حیات) میں کتنے پھول اور کلیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔
 
اطلاعاً عرض ہے کہ فی الحال "ہم پانچ" ہیں۔ ایک برقعہ پوش اور بیچلر شپ کی ڈگری ہولڈر بیچلر سے یہی دو چیزیں (میرا مطلب ہے برقعہ اور ڈگری) دیکھ بلکہ سن کر اسّی کی دہائی کے ایک "ناموافق موسم" میں شادی کی۔ عاشقی جب قید شریعت میں آ گئی تو ہم دو سے پانچ ہو گئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ تینوں بچے فی الوقت پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں۔ پڑھتے تو وہ خود ہیں۔ البتہ (پٹی وغیرہ) پڑھانے کی ہمیں کوشش کرتے ہیں۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کمپیوٹر اور ڈش کی عہد کے یہ بچے کس قدر چالاگ یا ہشیار نکلتے ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں تو ان کی ہشیاری محض دن کی روشنی میں جگنو کو دیکھنے کی ضد تک ہی محدود تھی۔ جہاں تک مھترمہ یعنی نصف بدتر۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ،،، خیر بات تو ایک ہی ہے۔۔۔ ہے نا؟۔۔۔ کا تعلق ہے، تو اب پردہ نشینوں کے بارے میں کیا بات کریں۔ کہتے ہیں کہ مرد کی کامیابیوں کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شکر ہے تاحال ہمارا شمار "کامیاب مردوں" میں نہیں ہوتا ورنہ یہ کریڈٹ بھی محترمہ ہی لے جاتیں۔ پیشہ ورانہ مہارت کی اسناد سے قطع نظر، بنیادی تعلیم محض ماسٹر کی ڈگری تک محدود ہے۔ ذریعہ معاش بنیادی طور پر صنعتی دنیا سے وابستہ ہے۔ تاہم گاہے گاہے صحافتی دنیا میں بھی "آمد و رفت" جاری رہتی ہے۔ مختلف جریدوں کے علاوہ ایک خبر رساں ادارہ اور لندن کے ایک اردو روزنامہ کے لئے بھی کام کرتا رہا ہوں۔
 
لکھنا کب سے شروع کیا؟ بھئی لکھنے لکھانے کا آغاز تو اسی روز سے ہو گیا تھا جب والدہ محترمہ نے ہمارے ایک ہاتھ میں قلم دوات اور دوسرے ہاتھ میں تختی پکڑا کر کہا تھا : بیٹا لکھ! اور میں لکھتا چلا گیا۔۔۔ تاہم معاشرتی ناہمواریوں پر باقاعدہ قلم اٹھانے کا آغاز کالج کے زمانہ سے ہوا۔ ہمارے ایک شفیق استاد ماسٹر محمد ریاض صاحب نے تو ہم سے معاشرہ کے منہ پر اس وقت تھپڑ رسید کروانا شروع کر دیا تھا جب ہمیں یہی نہیں معلوم تھا کہ معاشرہ کا منہ کیسا اور کہاں ہوتا ہے۔
 
بنیادی طور پر نثرنگار بلکہ انشائیہ نگار ہوں۔ تاہم دیگر اصناف سخن مثلاً "افسانے، ڈرامے، خاکے، مضامین، تنقید، کالم، فکاہیہ مضامین اور نظموں وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کرتا رہا ہوں۔ تاہم انشائیہ نگاری کو اپنی شناخت قرار دیتا ہوں۔ کتابوں پر تبصرہ تحریر کرتے وقت نہ صرف یہ کہ ایک خاص لطف ملتا ہے بلکہ اس محنت طلب کام سے ذاتی علم میں مزید وسعت بھی پیدا ہوتی ہے۔
دنیا میں صرف ایک ہی ایسی کتاب ہے جسے سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور جسے سب سے زیادہ اور بار بار پڑھا بھی جانا چاہیے اور وہ کتاب ہے ‘ قرآن مجید۔ ام الکتاب سے ہٹ کر اگر ہم گفتگو کریں تو اسکالرز اور درسی کتب کے استثنیٰ کے ساتھ ایک عام قاری ایک عام کتاب الا ماشا اللہ ایک مرتبہ ہی پڑھتا ہے۔ البتہ فکاہیہ ادب ایک ایسی صنف سخن ہے، جسے آپ بار بار پڑھ کر بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ فکاہیہ ادب میری پسندیدہ صنف سخن ہے۔ فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، پطرس بخاری، ابن انشاء، مشتاق یوسفی، شفیق الرحمن، خامہ بگوش (مشفق خواجہ)، ڈاکٹر محمد یونس بٹ وغیرہ کی تحریریں نہ صرف یہ کہ مجھے بے حد پسند ہیں بلکہ میں ان کی تحریروں سے متاثر بھی ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر اصناف سخن کے ادیب مجھے پسند نہیں۔ جمیل الدین عالی کے دوہے اور گیت، سلمیٰ یاسمین نجمی کے سفر نامے اور ناول، ابن صفی کے جاسوسی اور رضیہ بٹ کے معاشرتی ناول، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے افسانے، سلیم احمد کے فکر انگیز کالم، انور مقصود کے طنز و مزاح سے پر کالم اور ڈرامے اور نعیم صدیقی کی سنجیدہ تحریریں مجھے خاص طور پر بے حد پسند ہیں۔

ادب اور زندگی سے متعلق گو مکتلف نظریات پائے جاتے ہیں تاہم میں بنیادی طور پر ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کا قائل ہوں۔ جب کائنات کی ہر شئے کسی دوسری شئے کے لئے تخلیق کی گئی ہے تو ادب برائے ادب چہ معنی دارد؟ اسی طرح جہاں پوری کائنات انسانی محور کے گرد گھومتی ہے تو انسان کو منشائے ایزدی کے مھور کے گرد گھومنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کی کامیابی و ناکامی کا دار و مدار اسی محور کے گرد گھومنے یا نہ گھومنے پر ہے۔
آخر میں ذاتی پسند و ناپسند کے حوالے سے چند رسمی سوالات کے مختصر جوابات۔ پسندیدہ رنگ۔۔۔ دھنک کے رنگ، پسندیدہ چہرہ۔۔۔ مسکراتا ہوا چہرہ، پسندیدہ پھول۔۔۔ جو مصنوعی نہ ہو، پسندیدہ لباس۔۔۔ شلوار قمیص، پسندیدہ لمحہ۔۔۔ ہجوم میں تنہا یا تنہائی میں خیالات کا ہجوم، پسندیدہ لوگ۔۔۔ جو مجھے پسند تو نہ کریں لیکن مجھ سے توقعات ضرور تکھیں، پسندیدہ کتاب۔۔۔ چیک بُک، پسندیدہ مشروب۔۔۔ صبر کے گھونٹ، پسندیدہ ساتھی۔۔۔ تلاش جاری ہے، اپنی پسندیدہ تحریر۔۔۔ ٹک روتے روتے، پسندیدہ فقرہ۔۔۔ اللہ حافظ۔
(مطبوعہ ماہنامہ بتول لاہور 1994)   
     

No comments:

Post a Comment