Friday 24 February 2012

پھر سوئے حرم لے چل ۔ حصہ دوم

آدابِ حرمین شریفین: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے ”حرم“ ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ کے ”حرم“ قرار دیئے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں خوں ریزی کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیاراٹھایاجائے۔ جانوروں کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں۔ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ (صحیح مسلم


احرام: سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب مقامِ بیداءمیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بلندی پر مقام حجوں کے پاس اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کا احرام باندھے ہوئے تھے طواف کرنے کے بعد آپ کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہوگیا۔ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورپوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہے، جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو خوشبو تجھے لگی ہوگی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔ (صحیح بخاری


سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج کیلئے مکہ جانے کا ارادہ کرتے تو تیل لگاتے جس میں خوشبو نہ ہوتی تھی پھر ذوالحلیفہ کی مسجد میں آتے اور نماز پڑھتے اس کے بعد سوار ہوتے پھر جس وقت وہ سوار ہوتے اور سواری کھڑی ہوجاتی تو احرام باندھتے اس کے بعد کہتے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم حج کے مہینے میں حج کے احرام کے ساتھ مدینے سے نکلے پھر ہم مقامِ سرف میں اترے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ چاہے کہ اس احرام سے عمرہ کرے تو وہ ایسا کرلے اور جس شخص کے ہمراہ جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ اُمُّ المو منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجة الوداع کے سال مکہ کی طرف چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا یہاں تک کہ قربانی کا دن آگیا۔ اُمُّ المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کرکے احرام سے باہر ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کرکے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کرلوں احرام سے باہر نہیں آسکتا۔ (بخاری


مردوں اورعورتوں کے احرام کا فرق: حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والاکیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حالت احرام میں نہ تو قمیض پہنو اور نہ پاجامہ ۔ نہ ہی سر پر عمامہ پہنو اور نہ پاؤں میں موزے پہنو۔ ایسا کوئی کپڑا بھی نہ پہنو جس کو زعفران یاخوشبو لگا ہو۔ (صحیح مسلم) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور زعفران یا خوشبو لگے کپڑوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں۔ (سنن ابی داؤد


احرام کھولنا: سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں سر کے بالوں کو منڈوا ڈالا تھا۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید کہتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بال کتر وانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا کہ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت فرما۔ (بخاری


تلبیہ پڑھنا: سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھتے ہی تلبیہ یعنی لبیک نہیں پکارا ۔ البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب پہنچے تو تلبیہ پڑھی۔ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمر کاب تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمرکاب کرلیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دونوں صحابیوں کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرة العقبہ کی رمی کی۔ سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا ” اے اﷲ میں تیرے دروازہ پر بار بار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔ (بخاری


خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں۔ (موطا امام مالک، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی): حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کا مومن و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے ۔تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اﷲ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب احرام باندھ کر تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے(مسند شافعی
  
کعبہ اور طوافِ کعبہ: اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میںنے عرض کیا کہ کعبہ کا دروازہ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہاری قوم نے اس لئے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہوگا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملادیتا ۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کردینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کردیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کردیتا اور اس کو زمین سے ملادیتا اور اس میں دروازے بناتا ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے موافق کردیتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کردے گا۔ ایک اور حدیث میںسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گویا کہ میں اس سیاہ فام شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔ (بخاری


طوافِ کعبہ میں رمل کرنا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ جب حج کرنے مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایساگروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے پس اس بات کی اطلاع پاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حکم کے دینے سے کہ لوگ تمام چکروں میں رمل نہ کریں یہ منظور تھا کہ لوگوں پر سہولت ہو، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجر اسود کا بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔ (بخاری

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا پھر طواف کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ عمل عمرہ کے لےے نہیں تھا۔ پھر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ رسی سے باندھا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کو رسی کے ذریعہ کھینچ رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسی کو اپنے ہاتھ سے توڑدیا پھر فرمایا کہ اسے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر لے چل۔ (بخاری) سیدنا ابن ِعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلا طواف کرتے تھے تو اس کے تین چکروں میں رمل یعنی دوڑ کر چلا کرتے تھے اور اگلے چار چکروں میں مشی یعنی معمولی چال سے چلا کرتے تھے اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن المسیل میں سعی (دوڑا) کرتے تھے۔ (بخاری)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا۔ پھر آپ نے داہنی طرف طواف شروع کیا۔ پہلے تین چکروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیااور اس کے بعد چار چکروں میں آپ اپنی عام رفتار سے چلے۔ ( مسلم) حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت اﷲ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے۔ جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی کی بات کرے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی ، سنن دارمی


حجرہ اسود اور رکن یمانی: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ طواف میں حجراسود کے پاس آئے پھر اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کو تیرا بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجةالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا، اور لاٹھی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ یعنی حجر اسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا۔ (بخاری


حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا۔ اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا۔ جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہوگیا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، سنن دارمی) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ حجر اسود اور رکن یمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے۔ جس نے اﷲ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیاتو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا۔ بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھ کر دوسرا قدم اٹھائے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا (ترمذی


حضرت عبداﷲ بن السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (سنن ابی داؤد)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جوہر اس بندے کی دعا پر امین کہتے ہیں جو اسکے پاس یہ دعا کرے کہ : اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ االعَفوَ وَالعَافِیَةَ فِی الدُّنیَا وَالا خِٰرَةِ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (اے اﷲ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں۔ اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا!)۔ (سنن ابن ماجہ


زم زم کا پانی : سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو زم زم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔(بخاری


صفا و مروا کی سعی : اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بہن کے بیٹے عروہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے قول (ترجمہ) ”بے شک صفا اور مروہ دونوں اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے“ (بقرہ۔ ۸۵۱) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واﷲ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ صفاومروہ کی سعی نہ کرے؟ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے بھانجے! تم نے بہت بُرا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی (ترجمہ) بے شک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمان ہونے سے پہلے ”مناة“ بت کی پوجا کرتے تھے ۔یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہم صفاومروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کو ترک کردے۔ (بخاری

قیامِ منیٰ : سیدنا انس بن مالک سے عبدالعزیز بن رفیع نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نے ظہر اور عصر کی نمازیں آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھیں؟ تو انہوں نے کہا ”منیٰ میں“ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نفر کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ”ابطح میں“ پھر سیدنا انس رضی اللہ تعلیٰ عنہ نے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔ (بخاری) عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کوفرماتے سنا: حج وقوف عرفہ ہے۔ جو حاجی مزدلفہ والی رات یعنی 9 اور10 ذی الحجہ کی درمیانی شب میں بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پالیا اور اس کا حج ہوگیا۔ منیٰ میں قیام کے تین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے 11، 12، 13 ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی11، 12 ذی الحجہ کو رمی کرکے منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ ( ترمذی، ابی داؤد، نسائی، ابن ماجہ،


یومِ عرفہ : سیدناعبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرفہ کے دن زوالِ آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آکر بلند آواز دی تو حجاج نے باہر نکل کر پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو تجھے اسی وقت وقوف کے لےے چلنا چاہیئے۔ حجاج نے عرض کیا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں۔ پھر حجاج نکلا تو چل پڑے ۔ اس موقع پر موجودسالم بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھنے لگا ۔جب عبداﷲ بن عمرنے کہا کہ سالم صحیح کہتے ہیں ۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حجةالوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے؟ تو سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلنے لگتے۔ (بخاری


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو اُمُّ المومنین سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک سست عورت تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ کاش میں نے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔ (بخاری


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اﷲ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لئے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو۔ اس دن اﷲ تعالیٰ اپنی صفت ر حمت کے ساتھ عرفات میں جمع ہونے والے اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھتے ہو!میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں؟(صحیح مسلم) تابعی حضرت طلحہ بن عبید اﷲ کریز سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار، پھٹکارا ہوا اورجلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا وہ عرفہ کے دن دیکھا جاتا ہے۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس دن رحمتِ الٰہی کوبرستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے دیکھتا ہے ۔(موطا امام مالک)


وقوف ِمزدلفہ : سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے اور ہم نے مغرب اور عشاءکی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں ۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹادی گئی ہیں مغرب اور عشائ۔ پس لوگوں کو چاہیئے کہ جب تک عشاء کا وقت نہ ہوجائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔ جب خوب سفیدی پھیل گئی تو عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے ۔چنانچہ امیر المومنین نے کوچ کردیا ۔ پھر سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر تلبیہ کرتے رہے اور قربانی کے دن جمرةالعقبہ کو کنکریاں ماریں۔تب تلبیہ موقوف کردیا۔ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے اس کے بعد فرمایا کہ مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کُوچ نہ کرتے تھے اورثبیر نامی پہاڑ سے کہا کرتے تھے کہ اے ثبیرآفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت فرمائی تھی۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کردیا۔ (بخاری


حج کی قربانی: سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام سے باہر آجاؤ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہوکر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آجائے تو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کردو تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس کو تمتع کردیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے۔ (بخاری


سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجةالوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے آپ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اُسے چاہیئے کہ کعبہ کا طواف اور صفامروہ کی سعی کر کے بال کتر والے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو کو صرف حج کا احرام باندھے ۔پھر حج کرے اور قربانی کرے۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔ (بخاری


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو قربانی کا جانور ہے اس پرکیسے سوار ہوسکتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ۔ سیدنا مسور بن مخرمة رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور عمرہ کا احرام باندھا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں، قربانی کیلئے روانہ کی تھیں۔ ایک اور روایت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کردیتے تھے اور حج پر نہ جانے کے باعث اپنے گھر میں بغیر احرام کے رہتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے قربانی کے جانوروں کے لےے ہار بنائے تھے۔(بخاری


سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منحر میں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کرنے کی جگہ پر قربانی کیا کرتے تھے۔سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اونٹ کو نحر کرنے کے لےے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کرکے اس کا پیر باندھ دے پھر اس کو نحر کر کیونکہ یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑا رہوں اور ان کی بنوائی کی اجرت میں قصاب کو گوشت یا کھال وغیرہ نہ دوں۔ سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا کہ کھاؤ اور ساتھ لے جاؤ ۔ پس ہم نے کھایا بھی اور ساتھ بھی لے کرآئے۔ (بخاری

حضرت عبداﷲ بن قرط سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر(10 ذی الحجہ) ہے۔ اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر(11 ذی الحجہ) کا درجہ ہے۔ اس کے بعد (یعنی 12 ذی الحجہ) اگر کی جائے تو ادا تو ہوجائے گی ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا، تاکہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں۔ ( ابو داؤد

طوافِ زیارت: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو دسویں ذی الحجہ کی رات تک موخر کرنے کی اجازت دی ۔ (گو طوافِ زیارت 10 ذی ا لحجہ کے دن افضل ہے تاہم اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی کیا جاسکتا ہے) ۔حضرت حارث ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اﷲ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو۔ (مسند احمد


جمرات کی رمی کرنا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔ اس نے دوبارہ ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور آفتاب ڈھل جا نے کے بعد کنکریاں مارتے۔سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد کے رمی کرنے کی جگہ یہی ہے ۔سیدنا عبداﷲ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کرلیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کی ۔سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آجاتے تھے اورکہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ذکر اﷲ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں۔(جامع ترمذی، سنن دارمی)


طوافِ وداع : سیدنا ابنِ عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کا آخری وقت کعبہ کے ساتھ ہو یعنی مکہ سے واپسی کے وقت کعبہ کا طواف کرکے جائیں مگر حائضہ عورت کو یہ معاف کردیا گیا تھا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو عورت طوافِ زیارت کے بعد حائضہ ہوئی ہو اس کے لےے جائز ہے کہ وہ طوافِ وداع کےے بغیرمکہ سے چلی جائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حائضہ عورتوں کوایسا کرنے کی اجازت تھی۔ (بخاری

مدینة النبی صلی اللہ علیہ وسلم :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لاکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس کو قبول فرما کر اس طر ح دعا فرماتے : اے اﷲ! ہمارے پھلوں اور پیدا وار میں برکت دے، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم


مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتا۔“ ( صحیح مسلم) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مسجد نبوی میں مسلسل ۰۴ نمازیں پڑھیں اورایک نماز بھی فوت نہیں کی اس کے لئے دوزخ سے نجات اور نفاق سے برات لکھ دی جائے گی۔(مسند احمد، معجم اوسط للطبرانی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ۔ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ (صحیح مسلم


روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (شعب الایمان للبیہقی ، معجم کبیر و معجم اوسط للبطرانی)۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگی۔ ( ابن خزیمہ، سنن دار قطنی ، بیہقی 

1 comment:

  1. جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete