Thursday 15 March 2012

کتاب : یوسف کا بکا جانا ۔ حصہ اول











(دیباچہ 1998)


سچ کی صلیب

پہلی کتاب کی اشاعت کو کسی بھی ادیب کی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہمارا شمار محض "اہل کتاب" میں ہوتا تھا۔ آج کے بعد سے ہمارا تعارف "صاحب کتاب" کہہ کر کرایا جائے گا۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والی بہت سی تحریروں میں سے چند منتخب تحریروں کا انتخاب "یوسف کابکا جانا" کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔

کتاب کا نام دیکھ کر ایک خاتون فرمانے لگیں: مانا کہ آپ کی جملہ تحریریں آپ کی بکواس ہی کی مانند ہیں۔ مگر اس امر کا برملا اعتراف کرنے کیا ضرورت تھی۔ اگر میری عزت کا پاس نہیں تو کچھ بچوں ہی کا خیال کیا ہوتا۔ صحافتی دنیا سے تعلق رکھنے رکھنے والے ہمارے ایک دوست تو بہت دور کی کوڑی لائے۔ کتاب کا سرورق دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمانے لگے : کتاب کا نام آپ نے بہت اچھا اور معنی خیز رکھا ہے "یوسف کا بکا جانا"۔ مستقبل میں ایسے "واقعات" کی روک تھام کی غرض سے ہمیں سرورق پر کتاب کے نام کے ساتھ میرتقی میر کے اس شعر کا حوالہ بھی دینا پڑا' جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے اس کتاب کا نام رکھا ہے۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ کتاب کی پروف ریڈنگ کے دوران ہمارے ایک شاعر دوست کو بھی پیش آیا۔ انہوں نے متن میں ایسے بے شمار "اغلاط" کی نشاندہی کی، جن کا تعلق "اعراب" وغیرہ سے ہے۔ سو ایسے تمام قارئین سے پیشگی معذرت جنہیں اب بھی ایسی "اغلاط" کتاب میں جابجا نظر آئیں گی۔ کیوں کہ کہ کتاب جس کمپیوٹر پر کمپوز ہوئی ہے، اس میں اعراب اور ہمزہ وغیرہ کی مطلوبہ سہولت موجود نہیں۔

صحافیوں کے مقابلہ میں ادیبوں کو سچ لکھنے کی نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ادب و صحافت کا بیک وقت طالب علم ہونے کے ناطے مجھے سچ لکھنے کی ہمیشہ سے سہولت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ "خبر نویسی" کے دوران نوک قلم سے سرزد ہونے والے "گناہوں" کا "کفارہ" دیگر اصناف سخن کے ذریعہ کرتا رہا ہوں۔ اس کتاب کے مندرجات یقیناً میرے اس دعویٰ کی صداقت کی گواہی دیں گے۔

میں اس کتاب کا آغاز اپنی ایک نظم "سچ کی صلیب" سے کرنا چاہوں گا، جو میں کوئی ایک عشرہ قبل کہی تھی۔
سچ کی صلیب
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
یا پھر تم ہی سچے ہوتے
ہم تم میں یہ فرق نہ ہوتا
جھوٹ کی ارضی جنت نہ ہوتی
سچ کی صلیب پہ دنیا نہ چڑھتی
کاش کہ میں بھی جھوتا ہوتا
================

اس جنت سے گو صلیب بھلی ہے
مجھ کو کب یہ تاب ملی ہے
پھر میں کیسے منۃ کو کھولوں
میں جو بولوں، کیسے بولوں
ہمہ تن گوش کیاں کر رہوں میں
کانوں کو جو بند کروں میں
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
================

یارب! یا پھر ایسا ہوتا
گونگا ہوتا، بہرا ہوتا
نہ جھوٹ کی جنت میں جینا ہوتا
نہ سچ کی صلیب پہ مرنا ہوتا
کاش میں گونگا، بہرا ہوتا
==============








نوائے وقت فیچر

یوسفِ ثانی کی انشائیہ نگاری
اردو میں انشائیہ نگاری پہلے بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے مگر پہلے اور آج میں فرق یہ ہے کہ کل کا انشائیہ نگار، انشائیہ نگاری کا دعویٰ نہیں کرتا تھا جبکہ آج کا انشائیہ نگار نہ صرف یہ کہ اپنی تحریروں کو انشائیہ قرار دینے پر "بضد" ہے بلکہ اپنے جیسے دیگر تمام لکھنے والوں کی تحریروں کو انشائیہ سے خارج قرار دینے پر "مصر" بھی ہے۔ کل تک ہر انشائیہ نگار اپنی تحریروں کے ذریعہ اپنے قارئین کو کچھ نہ کچھ فیض پہنچاتا رہا ہے جبکہ آج کے قد آور انشائیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر انشائیہ میں کسی قسم کی "مقصدیت" داخل ہو جائے تو وہ تحریر انشائیہ سے خارج ہو جاتی ہے۔ انشائیہ کے بارے میں یہ رویہ دراصل ادب برائے ادب کے پٹے ہوئے نظریہ کی جزوی بازگشت ہے جو آج کے سائنسی عہد میں ادب برائے زندگی کے سائنٹیفک نظریہ سے عملاً مات کھا چکا ہے۔

ادب برائے زندگی کے علمبردار قلم کاروں کی صف میں نوجوان انشائیہ نگار یوسف ثانی ایک خوشگوار اضافہ ہیں جو گزشتہ ایک عشرے سے خاموشی سے مشق انشائیہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کا شمار باصلاحیت نوجوان قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی اس مختصر سی ادبی زندگی میں اب تک مختلف اصناف و موضوعات پر بعض اس قدر خوبصورت اور فکر انگیز تخلیقات پیش کی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ آپ کے انشائیے اخبارات و جرائد میں شائع ہونے کے علاوہ ریڈیو پاکستان سے بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔ آپ کی تحریروں کی نمایاں خوبی وہ ہلکا پھلکا طنز و مزاح ہے جو قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ صاحب تحریر کی فکر سے بھی متاثر کرتا ہے۔ مثلاً "انشائیہ" ٹک روتے روتے" کا یہ حصہ ملاحظہ ہو

گو رونے کی ابتداء بچوں نے کی مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے عطا کیا جبکہ اس کی موجودہ پروفیشنل حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پرفیشلزم کے اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش" کرانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔۔۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا آرٹ ہے جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور "عین دال شین ششٹرز" یعنی عزت دولت شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ہے۔ ایکا ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے سامنے جھکنا نہیں پڑتا صرف ہر ایک کے سامنے رونا پڑتا ہے۔
یوسف ثانی کے ہاں روایتی لفظوں اور فقروں کو اپنی ضرورت کے مطابق برتنے کا فن بدرجہ اتم پایا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ خود بھی نئے نئے فقرے اور منفرد تراکیب تراشتے نظر آتے ہیں۔ اب "لب چھڑی" ہی کی مثال لے لیں آپ کہیں گے کہ یہ لب چھڑی کیا بلا ہے؟ لیجئے یوسف ثانی ہی کی زبانی سنئے
یہ لب چھڑی ہے۔ اسے عرف عام میں۔ جی ہاں! انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں یہ اسم بامسمٰی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک چھڑی کی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔۔۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ ابتداء میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ اساتذہ قدیم کے ان اشعار کا حوالہ دیتے ہیں جن میں خواتین کے لبوں کو گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے مگر آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار اب خواتین "ضرورت" کے مطابق سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شیڈ استعمال کر سکتی ہیں اور آج کے علامتی دور میں اس قدر بھولا کون ہے جو ان رنگوں کے مفہوم سے آگاہ نہ ہو۔
یوں تو اب تک یوسف ثانی بہت سے انشائیے تحریر کر چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مگر ان کے تحریر کردہ تمام انشائیے اب تک کسی ایک جگہ یکجا دستیاب نہیں کہ ان سب کا ایک نظر جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم ہو انشائیے جو ہماری نگاہ سے گزر چکے ہیں ان میں ناموں سے نہ پہچان، قرض اور مرض، سچ گپ، پہلا کالم، گرلز سینٹر، پوچھنا منع ہے، یوسف کا بکا جانا، وعدہ فردا اور مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یوں تو یوسف ثانی کی تحریروں میں تشبیہوں، استعاروں اور علامتوں کا استعمال جابجا نظر آتا ہے، مگر ان کا استعمال اس خوبی سے ہوتا ہے کہ تحریر کا بنیادی مقصد، جو یوسف ثانی کی جملہ تحریروں میں مشترک ہے نہ صرف برقرار رہتا ہے بلکہ قاری تک پہنچ بھی جاتا ہے مثلاً ان کی ایک تحریر کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو
آج کی غزل تو معنی خیز ہی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شاعرہ نہ کہی ہو۔ اگر کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ آج کی کسی بھی "نمائندہ شاعرہ" کے مجموعہ کلام کو اٹھا کر دیکھ لے۔ غزل کے اکثر اشعار پڑھتے وقت ذہن میں جب تک شاعرہ کی جنس "واضح" نہیں ہوتی، شعر کا مفہوم غیر واضح ہی رہتا ہے۔ اب "خوشبو" کی طرح اپنی پذیرائی اور اس پذیرائی پر "شاکر" رہنے والی شاعرہ ہی کی مثال لے لیں جن کی شناسائی والی بات کو بکواس طرح پھیلی کہ اخباری کالموں تک جا پہنچک، حالانکہ کسی "نیک پروین" سے تو اس قسم کی توقع سودائیوں کی اس بستی میں بھی نہیں کی جاتی۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی "تصحیح" سے شعر وزن وغیرہ سے گر جائے گا لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب اخلاق سے گرے ہوئے اشعار شامل دیوان کیئے جا سکتے ہیں تو اوزان سے گرئے ہوئے اشعار میں کیا برائی ہے۔
ادبی تقریبات میں ادیبوں کے فن اور شخصیت پر مقالات پڑھنا آج کل ایک وبائی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس قسم کے مقالوں میں کیسی کیسی گل افشانی کی جاتی ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی یوں پیش کرتے ہیں
ایسے موقع پر بعض عقل مند مقالہ نگار اپنے ممدوح کے نام ہی کو غنیمت جانتے ہیں مثلاً بین السطور والے صبیح محسن پر مضمون لکھتے وقت ایک مضمون نگار نے نام کی رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلم اسٹار صبیحہ خانم پر ہی سیر حاصل گفتگو کر ڈالی۔ میری مشکل یہ ہے کہ فی الحال مجھے اس قسم کی کوئی فنکارہ دستیاب نہیں جس پر نظر عنایت کی جا سکے۔ رہ گئی ان کی شاعری تو اس سلسلہ میں آپ سے معذرت چاہوں گا کہ پروفیسر صاحب نے اس ضمن میں مجھے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے بلکہ بعض اوقات تو یار لوگ اپنے فن اور شخصیت پر پورا مقالہ لکھ کر فراہم کرتے ہیں اور بسا اوقات تو مقالہ پڑھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے اور مجھے تاحال اس قسم کی کوئی ایڈ یا ایڈز نہیں ملی ہیں۔
یوسف ثانی کی گرفت اپنے عہد کے ادبی مسائل پر بھی کوب ہے۔ ڈاکٹر سلمان معظم کے تحقیقی مقالہ "سرقہ کی روایت" پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب کوئی زبان وسعت پذیر ہوتی ہے اور اس میں لکھنے لکھانے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی ہے تو زبان و بیان میں نئی نئی تراکیب "تخلیق" تو کوئی ایک فرد کرتا ہے مگر اسے استعمال بے شمار افراد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب لکھاریوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے تو قلمی ناموں اور علمی و ادبی شہ پاروں کے عنوانات میں مشابہت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر ہمیں ایسی کوئی مشابہت نظر آئے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے اور سرقہ جیسے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر بات سے بات بڑھی تو پھر خیالات کے سرقہ تک جا پہنچے گی اور یوں متعدد علمی و ادبی شہہ پارے محض ایک اچھے "ادبی سرقہ" بن کر رہ جائیں گے۔
آج ہم جس نفسا نفسی اور مادہ پرستی کے عہد میں جی رہے ہیں اس میں روایتی محبت اور دوستی بھی عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا عصری ادب بھی اس صورتحال کی خوبصورتی سے عکاسی میں مصروف ہے اس کی ایک مثال یوسف ثانی کا انشائیہ "مجھے میرے دوستوں سے ملواؤ" ہے
وہ دن ہوا ہوئے جب کہا جاتا تھا کہ "مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ" کیونکہ اس عہد کے دوستوں میں خلوص، ہمدردی، محبت اور چاہت کی چاشنی اس وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی کہ جو بھی ان چاہتوں کا شکار ہوتا، چیخ اٹھتا کہ ع اب اتنا بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے۔ آج صورتحال قدرے مختلف ہے۔ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو دوست کا مارا دوستوں سے سہم سہم کر ملتا ہے۔زیر لب یہ کہتے ہوئے کہ ع دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔
اسی طرح آج کل ہر فرد ہر بات میں اپنا ہی مفاد دیکھنے کا عادی سا ہو گیا ہے۔ یہ فقرہ تو آج کل زبان زد خاص و عام ہے کہ تم ہمارے گھر آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم تمہارے ہاں آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ کچھ اسی قسم کے رویہ کا اظہار ہمیں یوسف ثانی کے انشائیہ "پلیز اور سوری" میں نظر آتا ہے
پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں بڑے کام کی چیزیں ہیں۔ ان کا اسٹاک ہر وقت اپنے پار رکھیں نہ جانے کس وقت ان کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔ اگر کسی کو زحمت دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا پیشگی استعمال سودمند رہتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا ہو تو فکر کی کوکئی بات نہیں قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت ہی میں مبتلا کر چکے ہیں۔ آپ پر جوابی کاروائی کرنے کا سوچے۔ آپ فوراً ایک عدد "سوری" اس کےمنہ پر دے ماریں۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یوسف ثانی آئندہ بھی اسی طرح کے خوبصورت انشائیے لکھتے رہیں گے تا کہ انشائیہ کی اس خوبصورت نثری صنف کو بے مقصدیت کی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے بچا کر اسے واپس تعمیری مقصدیت کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکے کہ ایسا ادب ہی معاشرے کی حقیقی ترقی میں معاونت کر سکتا ہے۔
مطبوعہ : روزنامہ نوائے وقت، کراچی ۱۹۸۹ء


یوسف کا بکا جانا
غیب سے مضامین تو ہمارے خیال میں بھی آتے رہتے ہیں جسے ہم قرطاس پر منتقل کر کے قارئین کے استفادہ کے لئے رسائل و جرائد میں بھیج دیا کرتے ہیں اور پھر سے خالی الذہن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مضامین کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی خاطر ہم نے اپنے خیال میں خیال یار کو بھی کم کم ہی جگہ دی ہے چنانچہ ہمارا ذہن اکثر خالی خالی سا ہی رہتا ہے اور یار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم کسی کے خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔

لیکن جب کبھی ہم نے نالے کو پابند نے کرنے کی کوشش کی تو ذہن و قلم دونوں نے ایک ساتھ، ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ امتحانی سوالات کے لگے بندھے اور خطوط کے رسمی جوابات دینا، نالے کو پابند نے کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ جی ہاں! کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمیں اس وقت بھی درپیش ہے کہ خواتین میں مقبول، ماہنامہ "قبول" کی مدیرہ مسئول "مادام سین" کا خط ہمارے سامنے پڑا ہے اور ہمارے ذہن و قلم کا یہ حال ہے کہ ع
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل







یادش بخیر! کبھی ہم نے "ان" سے متاثر ہو کر انہی کی فرمائش پر ان کے "شکوہ" کو (اپنے جواب شکوہ کی نتھی کے ساتھ) "مجازی خدا" کے عنوان سے ایک نظم کا لبادہ پہنایا تھا۔ اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو تھوڑی دیر کے لئے ہمیں اقبال ثانی تصور کرتے ہوئے "شکوہ جواب شکوہ" کا نیا روپ ملاحظہ فرمائیے :

شکوہ
خدا نے مجھ کو
میں نے جگ کو
پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا!
خدا کی خدائی میں
میں حصہ دار تھی۔
لیکن
جسے میں نے پیدا کیا
منے سے کڑیل جوان کیا
مجھے صنف نازک قرار دے کر
میرا مجازی خدا بن بیٹھا۔

جواب شکوہ
خدا نے مجھ کو
مجھ سے تجھ کو
تجھ سے جگ کو
پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا۔
خدا کی خدائی میں
خدا کی بڑائی میں
نہ تو حصہ دار تھی
نہ میں حصہ دار تھا
لیکن!
جس نے مجھ کو
مجھ سے تجھ کو
تجھ سے جگ کو پیدا کیا
اسی نے مجھ کو
ہاں‘ تجھی پر مجھ کو
نگراں بنایا" برتر بتایا
میں کب خدا تھا
میں کب خدا ہوں
کہنے کو کہہ لو
مجازاً خدا ہوں

جب ہماری یہ نظم مادام "سین" کی نظروں سے گزری تو انہوں نے جھٹ اسے اپنے پرچے کی زینت (امان کے لاحقہ کے بغیر) بنا لیا۔ چنانچہ ہم نے خوش ہو کر ازراہ سرپرستی انہیں اپنی گراں قدر تحریریں شائع کرنے کے جملہ حقوق سونپ ڈالے۔ اور یوں ہمارے تحریریں جو اکثر و بیشتر انشائیہ کا روپ (یا بہروپ) دھارے ہوتی ہیں ماہنامہ مذکورہ میں چھپنے لگیں۔ ابھی ہمارے چند مضامین ہی شائع ہوئے تھے کہ "قبول" کی فضول سی قاریاؤں نے مراسلات کے کالم "محشر خیال" میں ایک حشر برپا کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اسی طرح لکھتے رہے تو یقیناً ایک نہ ایک دن ہمیں لکھنا آ ہی جائے گا۔ چنانچہ ہماری اس مقبولیت سے متاثر ہو کر فاضل مدیرہ نے ہمارے مضامین کی اشاعت میں وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور یوں ہمیں عملاً یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ع
وقفہ بہت ضروری ہے
 ماہناموں میں لکھنا اور پھر لکھ کر چھپنے کا انتظار عموماً انتظار یار سے بھی طویل ہو جات اہے۔ مثلاً بچوں کا ایک ماہنامہ "ہاتھی" ہے جسے ہم اپنے تئیں بڑی عمر کا بچہ تصور کرتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں مگر اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اسے اپنی کوئی تحریر بغرض اشاعت ارسال نہیں کی کیونکہ مدیر محترم بار بار اپنے قارئین کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ تحریر ارسال کرنے کے بعد کم از کم نو ماہ ضرور انتظار کیا کریں۔ اگر آپ بھی اس رسالہ کے قاری ہیں تو یقیناً یہ ہدایت آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو گی۔ اب آپ ہی انصاف کریں کہ محض ایک ادبی تخلیق کے منظر عام پر آنے کے لئے نو ماہ کا انتظار ہماری طرح کے کسی بھی سمجھدار فرد کے لئے کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں آدمی دو گواہوں کی موجودگی میں قبول ہے" کہہ کر اس عرصہ میں ۔۔۔ 

کچھ یہی حال محترمہ سین کا بھی ہے کہ آخر کو موصوفہ بھی ایک ماہنامہ کی مدیرہ ہیں۔ اپنے اس خط میں جو انہوں نے ہمیں لکھا ہے اور جس کا غیر رسمی‘ جواب‘ ہم مضمون ہذا کی صورت میں دے رہے ہیں‘ آپ لکھتی ہیں

۔۔۔ بہت ممکن ہے آپ ناخوشی کے دور سے گزر رہے ہیں ورنہ مانامہ میں لکھنے کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ صاحب! آپ کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔

تو صاحبو! ہم انہیں کیسے بتلائیں کہ جو "سلسلہ" ہم نے شروع کیا تھا‘ ہم از خود اسے کیسے بند کر سکتے ہیں۔ آخری مرتبہ ہم نے اپنی دو تحریریں ساتھ ساتھ ارسال کی تھیں۔ پہلی تو خیر فوراً ہی شرمندہ اشاعت ہو گئی۔ مگر دوسری کو شرمندہ" ہونے میں کوئی سات ماہ لگے۔ ہو سکتا ہے صنف نازک ہونے کے ناطے مدیرہ محترمہ کو ایک تخلیق (مجازی ہی سہی) کے منظر عام پر آنے کے لئے یہ عرصہ "معمول" کے مطابق لگا ہو گا۔ مگر ہم جیسے صنف قوی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تو "معمول" کا عرصہ بھی غیر معمولی لگتا ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہر قسم کی تخلیق۔۔۔ مگر ہمارا بس توسڑکوں پر دوڑنے والی بس پر بھی نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو یا باہر ہم ہر جگہ بالعموم بے بس ہی رہتے ہیں۔ سو یہاں اس معاملہ میں بھی بے بس ہیں۔

 ادیب لوگ مزاج نازک رکھتے ہیں۔ ان کی تعریف نہ کی جائے ان سے لکھنے کی درخواست نہ کی جائے تو وہ ناخوش بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔ ان جملوں کو پڑھ کر پہلےتو ہم کچھ نہ سمجھے کہ روئے سخن کس طرف ہے۔ شاید متعدد شاہکار ناولوں کی مصنفہ بین السطور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر لوگ ان کی تعریف کریں اور ان سے مزید لکھنے کی درخواست کریں تو وہ ایسے اور بھی بہت سے ناول لکھ سکتی ہیں۔ لیکن لفظ "ادیب" یعنی صیغہ تذکیر پر ہم چونکے کہ آخری اطلاع آنے تک تو موصوفہ کا تعلق صیغہ ثانیت ہی سے تھا۔ ہو نہ ہو‘ روئے سخن ہماری طرف ہی ہے اور آگے کی عبارت پڑھ کر اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہر خاص و عام کو بذریعہ ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آج سے ہمارا شمار بھی ادیبوں میں ہو گیا ہے لہذا آئندہ ہمارا نام ادیب کے سابقہ کے ساتھ لکھا اور پکارا جائے۔ اور اگر حفظ ماتقدم کے طور پر ادیب سے پہلے معروف تھی لگایا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہاں اگر کسی اور کو اعتراض ہو تو اندرون نو (۹) ماہ بذریعہ ماہنامہ "قبول" ہمیں مطلع کرے اس کے بعد کوئی دعویٰ قابل قبول نہ ہو گا اور بعد از مدت ہمارے گھر کے نیم پلیٹ پر ہمارے نام کے ساتھ لفظ ادیب لکھا ہوا ملا کرے گا۔ محکمہ ڈاک سے وابستہ کوئی فرد اگر ہمارے یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو متعلقہ ڈاکیہ تک یہ اطلاع پہنچا کر انہی سے شکریہ وصول کر سکتے ہیں۔

اسی خط میں مادام سین مزید لکھتی ہیں : ۔۔۔ امید ہے آپ ہر طرح خیریت سے ہوں گے (خیریت سے تو بفضل تعالیٰ ہیں مگر ہر طرح کی گواہی نہین دے سکتے) چاہیں تو اپنے بارے میں کچھ لکھیں (وہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے) کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اور کیوں مشہور ہیں (اگر ہیں تو)"۔ یہ آخر میں اگر والا جملہ انہوں نے یونہی لکھ دیا ہے آپ اس سے گمراہ نہ ہوں تمام سوالات غالباً لازمی ہیں کہ چوائس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ گو کہ ہم اپنے بارے میں دیگر کالم نویسوں کی طرح جملہ معلومات اپنے متعدد کالموں میں پیش کر چکے ہیں (حوالے لیے دیکھو ہمارا کالم "من آنم کہ من دانم") پھر بھی مکتوب الیہ اور دیگر قارئین کے استفادہ کے لئے اپنی تعریف قند مکرر کے طور پر پیش کیے دیتے ہیں۔

ہم کون ہیں؟ ہم آدمی ہیں اور کون ہیں۔ البتہ انسان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ بقول شخصے اکثر آدمیوں کو انسان ہونا میسر نہیں۔ نام ظاہر ہے قلمی ہے اصلی نہیں۔ اگر (خدانخواستہ) حقیقتاً یوسف ثانی ہوتے تو آج کے شاعر کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ

ہر ایک زلیخا ہے مگن دھیان میں اپنے
کیا ایک بھی یوسف نہیں کنعان میں اپنے

رہا یہ سوال کہ ہم کیا کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں پوچھنا یہ چاہیے تھا کہ ہم کیا نہیں کرتے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں ہماری ادبی حیثیت تو آپ پر آشکار ہو چکی ہے چنانچہ یہ تو طے ہے کہ ہم ادیب (بھی) ہیں چونکہ اخبارات و رسائل میں (بھی ) لکھتے ہیں اس لئے "سکہ رائج الوقت" کے مطابق صحافی بھی ہیں۔ کوچہ ادب و صحافت کی آوارہ گردی کی وجہ سے اگر آپ ہمیں بالکل ہی "آوارہ" سمجھنے لگے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے کہ مابدولت معروف (معنوں میں نہ سہی) سائنس دان بھی ہیں۔ بھئی آخر کو سائنس میں بیچلر کی ڈگری جو رکھتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم "بیچلر" (معنی کے لئے دیکھئے لغت) کی جھوٹی "سند" نہیں رکھتے۔ کم از کم تادم تحریر (تادم اشاعت کی ضمانت نہیں) ان سب باتوں کے علاوہ ایک "مقامی افسر" بھی ہیں حالانکہ ع

کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے

کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسرا فرد یا تو شاعر ہے یا شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ آپ کو شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لہذا دوسرا ہونے کے ناطے کبھی کبھی ہمیں یہ رسم نبھانی پڑتی ہے۔ شاعری کیا کرتے ہیں۔ بس بقول میر "درد و غم" جمع کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اور میر دونوں "چاہ" کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میر کا شکوہ تو آپ بارہا پڑھ چکے ہوں گے، ذرا ہمیں بھی سنتے جائیے ع
چاہ" کا مارا یوسف اپنا‘ "چاہ زخنداں" سے بھی ڈرے ہے

رہتے کہاں ہیں؟ کا کیا جواب دیں کہ۔ ع
اپنا کیا کنعان میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

تاہم تادم تحریر اپنے گھر بلکہ مکان میں رہتے ہیں دعا کریں (ہو سکے تو "دوا" بھی) کہ جس مکان میں ہم رہتے ہیں خدا اسے گھر کر دے یا جس "گھر" میں ہم اب تک نہیں رہ سکے خدا اسے ہمارا کر دے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا یہ شاہکار خط نما انشائیہ (یا انشائیہ نما خط) محض مدیرہ مسئول کے استفادہ کی خاطر آفس فائل میں جگہ پاتا ہے یا استفادہ عام کے لئے ماہنامہ کے صفحات پر۔ خیر یہ تو ان کی مرضی پر منحصر ہے جن کے نام یہ خط ہے۔ تاہم اگر یہ خط ابھی نہ بھی چھپے تو طالبان ادب مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے خطوط پر کام کرنے والا کوئی نہ کوئی محقق اسے ضرور برآمد کر لے گا۔ ہم اس محقق کو پیشگی مبارکباد دیتے ہیں اور اس سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں یہ ضرور لکھے کہ ہمارے زندگی میں ہمارے "ادبی حیثیت" سے ناواقف ایک مدیرہ (انجانے میں ہی سہی) ہماری کس قدر بے قدری کی مرتکب (بمطابق ذیل) ہوئی تھیں۔

اسی خط کے آخر میں مادام سین لکھتی ہیں! "صاحب کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔ (کیونکہ) مجھے خود بھی آپ کی تحریریں (بے حد) پسند ہیں۔" اسی کے ساتھ ہمارے تحریر کی (قدر و) قیمت بھی لگا دی کہ : "پرچہ آپ کے نام اعزازی جاری کیا جا رہا ہے۔ جب تک آپ کا ماہنامہ کے ساتھ تعلق رہے گا (یعنی مضمون ملتا رہے گا) ماہنامہ بھی یہ تعلق نبھائے گا" – مطلب صاف ظاہر ہے کہ بصورت دیگر پرچہ ملنا بند ہو جائے گا۔ صاحبو! دیکھا آپ نے برسوں قبل میر نے ہمارے بارے میں غلط تھوڑا ہی کہا کہ






کیا پانی کے مول آ کر، مالک نے گہر بیچا
ہے سخت گراں، سستا یوسف کا بکا جانا







ذکر اُس پری وش کا

















اللہ کی ایک مشہور اور اشرف مخلوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک کو انسان کہتے یں اور دوسری کو عورت۔ عورتیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن پر شاعر حضرات غزل کہتے ہیں اور جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ دوسری قسم بیوی کہلاتی ہے۔ جس طرح کسی بچے کی معصومیت اُس وقت ختم ہو جاتی ہے جب وہ بڑا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کی ساری خوبیاں اُس وقت ہوا ہو جاتی ہیں جب وہ زَن سے رَن، میرا مطلب ہے بیوی بن جاتی ہے۔ بیوی کو بیگم بھی کہتے ہیں۔ شنید ہے کہ سنہرے دور میں یہ بے غم کہلاتی تھی کیونکہ ان کا کام شوہروں کو ہر غم سے بے غم کرنا ہوتا تھا۔ دور اور کام تبدیل ہوتے ہی نام بھی تبدیل ہو کر بیگم رہ گیا۔

 اعلٰی ثانوی جماعت کے ایک استاد نے طلباء سے پوچھا کہ بیویاں زیادہ تر کس کے کام آتی ہیں؟ ایک شریر طالبعلم نے فوراً جواب دیا "سر لطیفوں کے۔" جی ہاں بیویاں زیادہ تر لطیفوں ہی کے کام آتی ہیں۔ دُنیا میں اب تک جتنے بھی لطیفے تخلیق کئے گئے ہیں، اُن میں سے بھاری اکثریت کا تعلق بیویوں ہی سے ہے۔ بیوی کو ہندی زبان میں استری بھی کہتے ہیں۔ ایک صاحب کی کپڑے پریس کرنے والی استری خراب ہو گئی تو وہ اپنے پڑوسی سکھ سے استری ادھار مانگنے پہنچ گیا جو مزاج کے ذرا تیز تھے۔ سردار جی جب دروازے پر آئے تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولے، "سردار جی وُہ ذرا آپ کی استری ۔۔۔ ۔ سردار جی نے اُسے گھورتے ہوئے ذرا باآواز بلند کہا، "کیا ہوا میری استری کو؟" سردار جی کی بلند آواز سُن کر اُن کی دھرم پتنی بھی دروازے پر آن کھڑی ہوئی۔ سردار جی غصے سے اپنی بیگم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے، یہ رہی میری استری۔۔۔ پڑوسی نے جلدی سے کہا نہیں سردار جی وُہ کپڑوں والی استری۔۔۔ سردار جی چلائے "تو کیا تمہیں اس کے کپڑے نظر نہیں آ رہے؟" پڑوسی مزید گھبراہٹ میں بولا، سردار جی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ وہ وہ والی استری جو کرنٹ مارتی ہے۔ سردار جی ایک زور دار قہقہہ بلند کیا اور بولے، پُتر ذرا ہتھ لا کے تے ویکھ۔







تعلیم بالغاں کی ایک کلاس میں ایک استاد نے ایک شادی شدہ شاگرد سے پوچھا، بیوی اور ٹی وی کیا فرق ہے؟

شاگرد نے جواب دیا، "ہیں تو یہ دونوں بڑے مزے کی چیز لیکن ٹی وی میں ایک اضافی خوبی بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ جب چاہیں، اُس کی بولتی (ہوئی آواز) بند بھی کر سکتے ہیں۔"

دُنیا بھر کے مَردوں (مُردوں نہیں) کی معلومات بیویوں کے بارے میں کم و بیش ایک سی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے بارے میں کم سے کم اور دوسروں کی بیویوں کے بارے میں بیش یعنی زیادہ سے زیادہ جانتے ہیں۔ بیویاں غیر شوہروں کو مرغوب اور شوہروں کو غیر مرغوب ہوتی ہیں۔ بیویوں کے بارے میں ایک محقق نے اپنی تحقیق کو شائع کرنے سے انکار کر دیا، وجہ پوچھی تو کہنے لگا، میں اپنی تحقیق اُس وقت شائع کرواؤں گا جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہو گا اور کتاب شائع ہوتے ہی میں اپنا دوسرا پاؤں بھی قبر میں ڈال لوں گا۔ بیویوں کے بارے میں زیادہ تر تفصیلات کنواروں نے لکھی ہیں۔ کیونکہ شادی کے بعد وہ بیوی کو پیارے ہو چُکے ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں منہ کھولنے کے قابل نہیں رہتے۔ معروف مزاح نگار ڈاکٹر یونس بٹ نے بیویوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا ہے (اور اس کے علاوہ انھوں نے لکھا ہی کیا ہے) وہ سب کے سب ان کے کنوار پنے (گنوار پنے نہیں) کی تحریریں ہیں۔
بیوی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل اور بیوی کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل تر ہے۔ بیویاں غریبوں کے لئے باعثِ رحمت اور خوشحال لوگوں کے لئے باعثِ زحمت ہوتی ہیں۔ جب ایک غریب جوان باورچی، دھوبی، چوکیدار، ملازم وغیرہ کی تنخواہوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا تو شادی کر کے ان سب کی جگہ چند ہزار روپے تاحیات تنخواہ پر ایک بیوی کو گھر میں لے آتا ہے۔ اگر کسی شوہر یا بیوی کے جذبات تاحیات تنخواہ کی اصطلاح سے مجروح  ہوتے ہیں تو وہ اس کی جگہ حق مہر پڑھ لے۔
اُردو کا ایک محاورہ ہے اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ گمان غالب ہے کہ اس محاورے کا موجد کنوارہ ہی مرا ہو گا۔ اگر وہ شوہر بن چُکا ہوتا تو وہ اس محاورے کا اَپ ڈیٹ کئے بغیر نہیں مرتا۔ ایسا ہی انگریزی کا ایک مقولہ ہے
No Life Without Wife
یہاں
Without  
سے پہلے
With Or
بھی ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ بچے ہمیشہ اپنے اور بیوی دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ جس نگاہ کو کوئی عورت اچھی لگ رہی ہوتی ہے، بدقسمتی یا خوش قسمتی سے وہ اُس کی بیوی نہیں ہوتی۔ جبکہ اُسی محفل میں وہ عورت اپنے شوہر کو ذرا بھی اچھی نہیں لگ رہی ہوتی کیونکہ اُس کے شوہر کو دیگر خواتین اچھی لگ رہی ہوتی ہیں۔ بیک وقت اچھی لگنے اور اچھی نہ لگنے کا اعجاز صرف ایک بیوی ہی کو حاصل ہے۔ دُنیا کی کوئی اور ہستی یا تو اچھی ہوتی ہے یا بُری (دونوں ہر گز نہیں) جیسے دُنیا کی سب سے اچھی ہستی ماں ہوتی ہے (بشرطیکہ وہ آپ کی ہو، آپ کے بچوں کی نہیں)۔ آپ کی ماں اگرچہ آپ کے باپ کی بیوی ہی ہوتی ہے لیکن جب تک آپ اپنی ماں کی عظمت کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں وہ بیچاری اُس وقت تک صرف اور صرف ماں بن چُکی ہوتی ہے۔ پھر ماں کی عظمت کی ایک وجہ اُس کی لازوال مامتا بھی ہے۔ بیوی کے پاس لازوال مامتا نہیں ہوتی اور جو کُچھ ہوتا ہے، وہ سب زوال پذیر ہوتا ہے۔

میرا ایک دوست "ج" اپنی اہلیہ کو نااہلیہ کہہ کر پکارتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اہلیہ تو تُم اُس وقت کہلاتیں جب میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا۔ اور اگر میں کسی بڑے کام کا اہل ہوتا تو کم از کم تُم میری اہلیہ نہ ہوتیں۔ ایک دانشور کہتا ہے کہ اگر آپ کے فادر غریب ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں، یہ سراسر آپ کی قسمت کا قصور ہے لیکن اگر آپ کے فادر ان لاء بھی غریب ہیں تو یہ سراسر آپ کا قصور ہے۔ جس کی سزا آپ کی اہلیہ، میرا مطلب ہے کہ نااہلیہ کو ضرور ملنی چاہیے۔ اگرچہ اُسے ایک سزا پہلے ہی ملی ہوئی ہے لیکن کم از کم آپ اُس سزا کا تصور نہیں کر سکتے۔ بھلا کوئی اپنا تصور خود کیسے کر سکتا ہے؟

دُنیا کا بیشتر مزاحیہ ادب بیوی کے گرد، اور رومانوی ادب غیر بیوی کے گرد گھومتا ہے۔ حتیٰ کہ مزاحیہ شاعری بھی بیوی ہی پر کہی جاتی ہے۔ جبکہ غیر بیوی پر شاعر جو کچھ کہتا ہے، اُسے غزل کہتے ہیں۔





میری بیوی قبر میں لیتی ہے کس ہنگام سے
میں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے

اپنی زندہ بیوی پر یہ شعر سید ضمیر جعفری مرحوم نے کہا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک فوجی میجر بھی تھے۔ میں بھی بیویات پر یہ تحریر اُس وقت لکھ رہا ہوں جبکہ میں اپنی ذاتی بیوی سے سینکڑوں میل دُور ہوں۔ اوور دُور دُور تک اُس کے قریب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ شاید یہ اُس سے دُوری کا فیض ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ مردم شناس تو سارے ہی ہوتے ہیں، لیکن خانم شناس صرف اور صرف ایک شوہر ہی ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کا مشہور شعر ۔۔۔ ۔

ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

کی مندرجہ ذیل پیروڈی جہاں تک مُجھے یاد پڑتا ہے، میں نے اُس وقت کی تھی جب میں اپنی بیوی سے ہی نہیں بلکہ اپنے مُلک سے بھی دور تھا۔ اور اس وقت تک نیک بخت کا پاسپورٹ بھی نہیں بنا تھا۔

ایک شوہر جسے تُو گران سمجھتی ہے
ہزار شوہروں سے دیتا ہے عورت کو نجات
        
 
ٹک روتے روتے

شہنائیوں کی گونج میں دلہن رخصت ہو رہی تھی۔ حسب روایت دلہن سمیت سب ہی کی آنکھیں اشکبار تھیں مگر دلہن کی چھوٹی مگر سیانی بہن نے تو رو رو کر گویا گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ سب ہی اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک خاتون انہیں سمجھاتے ہوئے بولیں بھئی اب اتنا بھی کیا رونا۔ کوئی تمہاری تو رخصتی نہیں ہو رہی۔ محفل میں سے آواز آئی : اسی لئے تو رو رہی ہیں۔

صاحبو! ہمیں موصوفہ کے رونے کا سبب تو نہین معلوم۔ مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ فی زمانہ رونا سب سے آسان کام ہے۔ جبھی تو کہتے ہیں رونا اور گانا کسے نہیں آتا۔مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرد گایا اور عورتیں رویا کرتی تھی۔ تاریخ اس بات پہ خاموش ہے کہ پھر بچے کیا کرتے تھے؟ ویسے ہم آج تک یہ گتھی سلجھانے میں ناکام رہے کہ مردوں کے گانے پر عورتیں رویا کرتی تھیں یا عورتوں کے رونے کی آواز محلہ والوں سے چھپانے کے لئے مرد گانے لگتے تھے۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو اب اس کی توجیہہ کی قطعا ضرورت نہین رہی، کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے۔ یہ مرد و زن کے مساوات کا دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین و حضرات نے اپنے بیشتر "فرائض‘ ایک دوسرے سے بدل لئے ہیں اور "بقیہ فرائض" بدلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ آج کل خواتین نے گانے اور مرد حضرات نے رونے کا فریضہ سنبھال لیا ہے۔

رونے کی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً بچوں کا رونا، عورتوں کا رونا اور مردوں کا (عورتوں کی طرح) رونا وغیرہ وغیرہ۔ بچے عموماً آواز سے اور بلا آنسو روتے ہیں۔ بچوں کو اس طریقہ سے رونے میں اسی طرح ملکہ حاصل ہے جس طرح ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم کو۔ (رونے میں نہیں بلکہ گانے میں)۔ صفر سے سو سال تک "بچے" جب کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس ہمدردی کی آڑ میں انہیں دامے در قدمے یا سخنے کچھ مطلوب ہو تو وہ مختلف آوازوں کے ساتھ (بلا آنسو) رونا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا رونا روتے ہیں تو کبھی اپنی بے چسی کا۔ کبھی دوسروں کی زیادتی کا رونا روتے ہین تو کبھی تقدیر کی ستم ظریفی کا۔ غرض کہ کسی نہ کسی سبب سے رو کر اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔
رونے کی دوسری قسم عورتوں کا رونا ہےہ۔ یہ ایک معروف قسم ہے۔ اس قسم کا رونا بچوں کے رونے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح کے رونے میں آنسوؤں کا بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اگر دنیا بھر کی عورتیں رونا دھونا بند کر دیں تو دنیا میں سیلاب کبھی نہ آئے۔ مگر ہم اسی تجویز کے حق میں ہرگز نہیں ہیں۔ کیونکہ اس طرح ہم جہا ں سیلاب بلا کی آفات سے محفوظ ہو جائیں گے وہیں "چشم زن" کے متعدد فیوض سے بھی تو محروم ہو جائیں گے کیونکہ اس بات پر تو تمام طبی ماہرین متفق ہیں کہ خواتین کی آنکھوں کی خوبصورتی میں سامان آرائش چشم سے زیادہ ان کے آنسوؤں کا دخل ہے۔ پھر بن موسم کے برسات کا مزہ بھی تو انہی آنکھوں میں ہے کہ


مزے برسات کے چاہو، تو آ بیٹھو ان آنکھوں میں
سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے، ابر باراں ہے

رونے کی اس قسم کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ اسے جہاں "دکھ" میں استعمال کیا جا سکتا ہے وہیں اس کا استعمال "سکھ" کے موقع پر بھی بلا تکلف و بے دریغ جائز ہے۔ بلکہ بیشتر خواتین تو رونے کے لئے دکھ سکھ کا بھی انتظار نہیں کرتیں اور اکثر اوقات بات بے بات بھی رونے لگ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی خاتون کو روتا دیکھ کر عقلمند سے عقلمند شخص بھی ان کے رونے کی وجہ نہیں بتلا سکتا۔ تاہم "متعلقہ فرد" کو عموماً یہ پیشگی علم ہوتا ہے۔کہ خاتون خانہ (یا غیر خاتون خانہ۔۔۔ جو بھی صورت ہو) کے آئندہ رونے کا سبب کیا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری پولیس کے متعلقہ افراد کو یہ پیشگی علم ہوتا ہے کہ شہر میں ہونے والا اگلا جرم کب اور کہاں وقوع پذیر ہو گا۔
رونے کی ایک تیسری قسم بھی ہے جو سکہ رائج الوقت کی طرح آجکل مقبول عام ہے۔ جی ہاں! یہ رونا مردوں کا رونا ہے۔ گو رونے کی ابتدا بچوں نے کی ہے۔ مگر اسے آرٹ کا درجہ خواتین نے بخشا جبکہ اس کی موجودہ "پروفیشنل" حیثیت مَردوں کی مرہون منت ہے۔ پروفیشنلزم کے اس جدید دور میں وہی لوگ کامیاب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ رونے کے فن پر قدرت حاصل ہے بلکہ وہ اسے موقع محل کے مطابق "کیش" کروانے کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں۔ آپ خود دیکھتے رہتے ہیں کہ اگر کسی حکومت کو رونے دھونے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے تو وہ "بین الاقوامی خطرات" کا رونا رو کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے اور اپنے اقتدار کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حزب اختلاف رونے دھونے میں حزب اقتدار سے بازی لے جائے تو وہ عوام کو حزب اقتدار کی غلامی سے آزاد کرا کر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔ اگر آجر رونے میں کمال حاصل کر لے تو اپنے ملازمین کے سامنے اپنے "بُرے حالات" اور دوسروں کی "زیادتی" کا رونا رو کر اسے کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی ملازم اپنے خود ساختہ مصائب کا رونا رو کر آجر کی ہمدردیاں حاصل کر لے تو تنخواہ کے علاوہ بونس بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ تاجر رونے کے فن میں ماہر ہو جائے تو وہ اپنے مال کی قیمتوں میں اضافہ کروانے اور اپنے اوپر عائد ٹیکسوں کو کم کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض کہ رونا دھونا ایک ایسا فن ہے کہ جس کسی نے بھی اس میں کمال حاصل کر لیا، وہ اداکار کمال سمیت تمام اداکاروں کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اور (نام نہاد) عزت (جائز و ناجائز) دولت اور (اچھی بری) شہرت اس کے گھر کا طواف کرنے لگتی ہے۔ درحقیقت یہی اس کے لئے "پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ" ہے۔ ایک ایسا ایوارڈ جس کے حصول کے لئے کسی کے آگے جھکنا نہین پڑتا۔ صرف ہر ایک کے آگے رونا پڑتا ہے۔
قارئین کرام! ہم نے بھی اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ ابتدائی مشق کے طور پر ہم یہ انشائیہ تحریر کر رہے ہیں بعد ازاں "ریاض" کا باقاعدہ آغاز ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ دوران ریاض ہم روتے روتے (تھک ہار کر) سو جائیں ایسے میں اگر متذکرہ بالا عزت دولت شہرت یعنی "عین دال شین سسٹرز" ہمارے گھر پر دستک دینے لگیں تو بلا تکلف ہمیں اٹھا دیجئے گا۔ اور ہماری امی جان کی اس ممانعت پر ہرگز کان نہ دھریئے گا کہ





سرہانے "میر" کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

واضح رہے کہ "میر" ہمارے اصلی نام کا مخفف ہے اور ہماری امی جان پیار سے ہمیں اسی نام سے پکارتی ہیں۔ دیکھئے! ہمیں جگا ضرور دیجئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں سوتا پا کر "عین دال شین سسٹرز" ہمارے پڑوسی کے گھر پہنچ جائیں۔ اور رونے میں مہارت حاصل کرنے کے باوجود ہمیں یہ کہنا پڑے کہ ع منزل انہیں ملی جو (رونے دھونے میں) شریک سفر نہ تھے۔




گُربہ کشتن روز اول

گربہ کشتن روز اول والی مثل تو تم لوگوں نے سنی ہی ہو گی؟

"سر سنی تو ہے مگر۔۔۔"

"ارے بھئی کمال ہے کالج میں پہنچ گئے اور۔۔۔ خیر اس میں تم لوگوں کا اتنا زیادہ قصور بھی نہیں۔ عربی فارسی تو تم لوگوں کو کبھی پڑھائی ہی نہیں گئی"۔

"سر اب عربی فارسی والا زمانہ کہا؟"

ارے نادانو! اب تم لوگوں کو فارسی عربی کی اہمیت بھی بتانی پڑے گی۔ دیکھو جب تک عربی فارسی تھوڑی بہت نہ آتی ہو تو صحیح طور سے اردو بھی نہیں آسکتی۔ کیا سمجھے؟

"مگر سر! وہ گربہ کشتن والی بات۔۔۔"

"ہاں! وہ گربہ کشتن روز اول کا مطلب ہے پہلے ہی روز گربہ یعنی بلی کو مارنا۔"

"بلی کو مارنا؟"

بھئی یہ ایک روایتی کہانی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب کی شادی ہونے والی تھی۔ ان کے کسی دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ پہلی ہی شب جب تمہاری ملاقات اپنی زوجہ سے ہو تو اس پر اپنی بہادری و شجاعت کا رعب ضرور ڈالنا تاکہ ساری عمر اس پر تمہارا رعب قائم رہے۔

یعنی کہ سر! فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن پر عمل پیرا ہو۔ مگر سر! اس میں بلی کہاں ہے؟

بلی کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب اس سیدھے سادھے شخص نے پوچھا کہ میں اپنی زوجہ پر رعب ڈالوں تو آخر کیسے؟ اس پر اس کے دوست نے بتا کہ کمرے میں پہلے سے ایک بلی چھوڑ دینا اور جب تم کمرے میں داخل ہو گی تو لا محالہ بلی کی میاؤں میاؤں کی آواز تمہیں سنائی دے گی۔ بس تم غصہ سے بلی کی طرف جھپٹنا اور تلوار سے اس کی گردن اڑا دینا۔ یہ دیکھتے ہی تمہاری زوجہ سہم جائے گی اور ساری عمر تمہارے سامنے سر نہ اٹھا سکے گی۔

"سر پھر کیا ہوا تھا؟"

ہونا کیا تھا! جب سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی یعنی جب کہیں فرسٹ امپریشن ہی شجاعت و بہادری کا دینا مقصود ہو تو ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ گربہ کشتن روز اول۔

"سر بلی مار کر؟"

ارے نہیں بھئی! ضروری نہیں کہ بلی مار کر ہی یہ امپریشن قائم کیا جائے۔ اس کے طریقے وقت زمانہ اور موقع کی مناسبت سے بدلتے رہتے ہیں۔ تاہم اس قسم کے موقع پر فارسی میں۔ بلکہ اب تو اردو میں بھی یہی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ "گربہ کشتن روز اول۔

شاباش! مگر دیکھو تم میں سے جو کوئی بھی اس پر عمل پیرا ہونا چاہے، وہ اپنی ذمہ داری پر ایسا کرے۔

"وہ کیوں سر!"

وہ اس لیے کہ برعکس نتائج برآمد ہونے کی صورت میں ذمہ داری ہم پر عائد نہ ہو۔
 (مشترکہ قہقہہ)
***


"کیوں بھئی حامد! تم میری بارات میں آ رہے ہو نا؟"

"یار دیکھو کوشش تو میں ضرور کروں گا لیکن اگر۔۔۔"

"کوشش؟ نہیں بھی میں نہیں جانتا۔ تمہیں ہر حال میں آنا ہے۔ ورنہ؟"

"ورنہ یہ شادی نہیں ہو سکتی؟"

خیر اب ایسی خوش فہمی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ایسی بات ہے تو تم بے شک مت آنا۔ تمہاری شرکت کے بغیر بھی مابدولت کی شادی ہو سکتی ہے۔ سمجھے؟

ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تم تو سچ مچ ہی ناراض ہو گئے۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔ تمہاری شادی ہو اور میں نہ آؤں۔۔۔؟

"یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ ہے نا؟"

"ہاں! ہاں! ہاں بالکل۔ آخر ہم نے بھی تو شادی کرنی ہے۔"

"تو تم شادی کب کر رہے ہو؟"

بس ذرا تمہاری شادی کے بوجھ سے فارغ ہو لیں۔ پھر اپنے بارے میں بھی سوچیں گے؟

بس۔۔۔ بس۔ اب زیادہ بڑی اماں قسم کی چیز بننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بات گول کرنے کی ضرورت ہے۔ تم بارات والے دن صبح سویرے میرے گھر آ جانا۔

"تاکہ رات ہوتے ہی تم مجھے اپنے گھر سے نکال سکو۔"

"کیا مطلب؟"

بھئی دیکھو نا۔ تم کس چاؤ سے مجھے صبح سویرے اپنے گھر بلا رہے ہو۔ برات میں اپنے ساتھ لے جا رہے ہو۔ لیکن جب تم اپنی دلہن لے کر رات گئے گھر پہنچو گے تو ہم سے فوراً گھر سے نکل جانے کا کہو گے تاکہ ۔۔۔

"حامد کے بچے!"

ارے بھئی آہستہ بولو۔ ابھی تو حامد میاں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ اگر حامد میاں کی ہونے والی زوجہ نے سن لیا تو۔ حامد میاں کی شامت ہی آ جائے گی۔ اچھا خیر بارات والی صبح ملاقات ہو گی لیکن بارات والی رات وہ سبق مت بھول جانا۔

"کونسا سبق؟"

"بھئی وہی جو سر نے بتلایا تھا۔ یعنی گربہ کشتن روز اول"

مگر وہ گربہ کہاں سے آئے گی؟

"بھئی ایک "گربہ مسکین" تو کمرے میں ہو گی ہی۔۔۔ اسی سے کام چلا لینا۔"

"حامد کے بچے۔۔۔ میں کہتا ہوں۔۔۔ باز آ جاؤ۔۔۔ ورنہ۔۔۔"

"اوکے۔۔۔ بائی ۔۔۔ بائی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔"

"خدا حافظ۔"
***
"آداب عرض ہے۔"

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"میں نے کہا حضور سلام عرض ہے۔"

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

"اچھا تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔ اگر سلام قبول نہیں تو ہم جاتے ہیں۔"

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ آپ۔۔۔؟"

"بھئی آپ کچھ بولی ہی نہیں تو ہم سمجھے۔۔۔؟"

"آپ کیا سمجھے۔۔۔"

"بھئی ہم سمجھے ، شاید آپ ناراض ہوں۔ یا شاید آپ گونگی ہوں۔"

"ہم نہ تو ناراض ہیں اور۔ اب تو آپ کو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ نہ ہی گونگی ہیں۔"

"واللہ کیا بات ہے آپ کے بولنے کی۔ آپ تو خوب بولتی ہیں۔"

"ویسے ایک بات پوچھوں۔"

"کون سی بات؟"

"آپ ناراض تو نہیں ہوں گی؟"

بھئی پہلے پتہ تو چلے کہ آپ نے کون سی بات پوچھنی ہے؟ ناراض ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا۔

دراصل میں میں ایک کہاوت کی بابت جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ تم نے وہ مثل سنی ہے "گربہ کشتن روز اول"۔

دیکھیں۔۔۔ دیکھیں۔ میں ایک بات صاف صاف کہے دیتی ہوں۔ آئندہ آپ میرے سامنے عربی وربی کا رعب مت جھاڑیئے گا۔

"لیکن بیگم! یہ تو فارسی کی کہاوت ہے۔۔۔"

عربی ہو یا فارسی! کان کھول کر سن لیجئے۔ آئندہ آپ مجھ سے سیدھی سادی زبان میں بات چیت کریں گے اور مجھے کم علمی کا طعنہ نہیںدیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں آپ جتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں لیکن۔۔۔ سب کچھ سمجھتی ہوں۔ ہاں

اوہو! تو اس میں لڑنے والی کون سی بات ہے۔ اگر تمہیں نہیں معلوم تو دفع کرو۔


بس بس! مجھے تو جیسے کچھ معلوم ہی نہیں اور آئندہ مجھے یہ طعنہ بھی مت دینا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ہاں نہیں تو۔

"بیگم! میں طعنہ تو نہیں دے رہا تھا۔ خیر چھوڑو اس کم بخت کو۔۔۔"

"کم بخت کس کو کہا؟"

بھئی میں تو اس کہاوت کو کہہ رہا تھا جس نے تمہارا موڈ بگاڑ دیا۔ تمہیں نہیں کہہ رہا تھا۔۔۔ تمہیں تو وہی کچھ کہوں گا جو تم کہو گی۔۔۔ جو تم چاہو گی۔

یہ ہوئی نا بات! اگر میری مرضی کے خلاف اس گھر میں آپ نے کچھ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔

"بیگم! اب میں اتنا بے وقوف بھی نہیں کہ آئندہ ایسی کوئی کوشش بھی کروں۔"

"بس اسے باندھ لینا اپنی گرہ میں۔"

"ہاں اب تو یہی کرنا پڑے گا۔ کہ پچھلی گرہ کو کھول کر اس میں یہ نئی بات باندھ لوں۔۔۔ اچھا آؤ اب۔۔۔ کچھ "دوسری" باتیں۔۔۔ ہو جائیں۔۔۔ ہو جائیں؟"

   ۔۔۔ خاموشی ۔۔۔

***
"بیگم! پھر تم نے بیٹے کے بار ے میں کیا سوچا ہے؟"

سوچنا کیا ہے؟ میں نے تو شروع ہی سے اپنی بہن کی لڑکی کو اپنے بیٹے کے لیے پسند کر چکی ہوں۔

"کون؟۔۔۔ وہ صائمہ مگر وہ تو۔۔۔؟"

"دیکھو تم میری صائمہ کو کچھ نہ کہنا۔۔۔ ورنہ؟

میں اسے کچھ نہیں کہتا۔ لیکن یہ تو سوچو کہ میرا دوست حامد کیا سوچے گا۔ میں نے اس کے بیٹے کو اپنا داماد بنانے کا خیال ظاہر کیا تو وہ راضی ہو گیا مگر تم نے ایک نہ چلنے دی اور اپنے بھائی کے بیٹے کو داماد بنا لیا۔ اب میں نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس کی اعلٰی ظرفی دیکھو کہ ۔۔۔

"میں نہیں جانتی کسی کی اعلٰی ظرفی؟"

مگر پہلے تو تم راضی تھیں بلکہ تم ہی نے تو مجھے حامد سے بات کرنے پر مجبور کیا تھا میں۔۔۔

اس وقت کی بات اور تھی۔۔۔ جب آپا کے میاں نہیں مان رہے تھے۔ اب تو وہ بھی مان گئے ہیں۔ اب اس گھر میں صرف میری بہن کی بیٹی بہو بنر کر آئے گی سمجھے؟

سمجھ گیا۔ تم نے کب میری بات مانی ہے جو آج مان جاؤ گی۔ جو تمہاری مرضی۔

"بس اگلے جمعہ کو آپ کے گھر چلنا ہے۔ انہوں نے پیغام بھجوایا تھا۔"

"ٹھیک ہے تو چلی جانا۔"

"آپ نہیں چلیں گے؟"

"میرے جانے کا کوئی مصرف تو نہیں۔ لیکن جب تم کہہ رہی ہو تو جانا ہی پڑے گا۔"

***




"اچھا بیٹا! آج ہم نے تمہارا فرض بھی پورا کر دیا۔ تم خوش، تمہاری ماں خوش۔ ظاہر ہے اس سے بڑی اور کیا خوشی ہو گی میرے لئے۔۔۔ اب جاؤ تم اپنے کمرے میں دلہن تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔۔۔ لیکن دیکھو وہ تمہاری ماں آ رہی ہے۔ پہلے اس سے مل لو ورنہ ۔۔۔ "

"جی اچھا! ابا جان۔"

"جی امی جان! آپ کچھ کہہ رہی تھیں کیا؟"

ہاں وہ آخری بات تو کرنا بھول ہی گئی۔۔۔ دلہن کے پاس جا رہے ہو تو۔ گربہ کشتن روز اول والی مت بھولنا۔ اگر تم نے پہلی ملاقات میں اپنی بیوی کو رعب میں نہیں لیا تو یاد رکھنا بیٹا! ساری عمر بیوی کے رعب میں گزارنی پڑے گی۔ سمجھے کہ نہیں۔"

"جج۔۔۔ جی سمجھ گیا۔۔۔ اب میں سب کچھ سمجھ گیا۔۔۔ امی جان!"

"کیا سمجھ گئے؟"

"یہی کہ گربہ گشتن روز اول ہے نا امی جان؟"

"ہاں بیٹا!۔۔۔ یہ تو ہے۔۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں"
***

پوچھنا منع ہے

دو سہیلیاں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ ایک کہنے لگی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں ۲۵ برس کی نہیں ہو جاتی شادی نہیں کروں گی۔ دوسری بولی میں نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے۔ پہلی سہیلی کے پوچھنے پر بولی : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میری شادی نہیں ہو جاتی میں ۲۵ کی نہیں ہوں گی۔ یہ پھلجڑی جس حد تک لطیفہ ہے اس سے زیادہ حقیقت بھی ہے۔ یہ تو سب ہی کہتے یں کہ لڑکیاں بڑی تیزی سے بڑھتی یں مگر یہ کوئی نہیں کہتا کہ لڑکیاں جلد ہی (عمر میں) بڑھنا "بند" بھی تو کر دیتی ہیں اور عمر کے ایک "پسندیدہ" مقام پر پہنچ کر تو اس طرح "رک " جاتی ہیں جیسے ۔۔۔ ایک فلمی ہیروئن جو گزشتہ تیس برسوں سے ہیروئن چلی آ رہی تھی، فلم کے ایک سین میں اپنے حقیقی بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کے ہیرو سے کہنے لگی۔ اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کے نزدیک میری عمر کیا ہو گی۔ ہیرو کہنے لگا بھئی تمہاری باتوں سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تم بائیس برس کی ہو مگر تمہاری فیگر بتلاتی ہے کہ تم بیس برس سے زائد کی نہیں ہو سکتیں اور اگر چہرے کی معصومیت دیکھو تو یوں لگتا ہے جیسے تم صرف اٹھارہ برس کی ہو۔ ہیروئن اٹھلاتی ہوئی بولی اللہ آپ کتنے ذہین ہیں آپ نہ صرف اسمارٹ بلکہ بلا کے "خانم شناس" بھی ہیں۔ ہیرو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ اور ان تمام عمروں کو جمع کر کے کوئی بھی تمہاری اصل عمر کا تخمینہ لگا سکتا ہے۔ "کٹ" ڈائریکٹر کی آواز گونجی اور فلم میں سے ہیرو کا یہ آخری جملہ کاٹ دیا گیا۔

ہمارے ہاں بہت سی باتوں کو پوچھنا ایٹی کیٹس کے خلاف سمجھا جاتا ہے جیسے آپ "عمر نازنین" ہی کو لے لیں۔ اگر آپ کسی خوبصورت سی مھفل میں کسی خوبصورت نازنین کی عمر دریافت کر لیں تو نہ صرف خوبصورت نازنین کی خوبصورتی ہوا ہو جاتی ہے بلکہ خوبصورت محفل کی خوبصورتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ اسی کے ساتھ ہی آپ کو بھی محفل سے جبراً رخصت کر دیا جائے۔ اب بھلا ایسی باتوں کو پوچھنے کا کیا فائدہ کہ لوگوں کو آپ کی خیریت پوچھنی پڑ جائے۔
جس طرح خواتین سے (اس کی ذاتی) عمر پوچھنا منع ہے اسی طرح مرد حضرات سے ان کی تنخواہ پوچھنا بھی بقول شخصے ۔"بے فضول" ہے۔ خواتین اپنی عمر نفی اور تقسیم کے عمل سے کشید کر کے بتلاتی ہیں تو حضرات اپنی تنخواہ کو جمع ۔ جمع الجمع اور ضرب جیسے الاؤنس سے گزار کر بتلاتے یہں مگر یہاں یہ واضح ہو کہ مرد حضرات اس قسم کی حرکت گھر سے باہر ہی کیا کرتے ہیں۔ گھر میں تو۔۔۔ شوہر نے نئی نویلی بیوی کے ہاتھ میں پہلی تنخواہ لا کر رکھی۔ وہ روپے گنتے ہوئے بولی : باقی پیسے؟ کون سے باقی پیسے؟ تنخواہ تو یہی ملی ہے۔ بیوی شوہر کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔ مگر تمہاری امی نے تو میری امی سے کہا تھا کہ ۔۔۔ ہاں! ہاں! انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ اور تمہارے بہن تو کہہ رہی تھی کہ میرے بھیا کو۔۔۔ بھئی وہ بھی ٹھیک کہہ رہی تھی۔ بیوی نے تنخواہ کی رقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تو پھر یہ کیا ہے؟ ۔۔۔ بھئی یہ بھی ٹھیک ہے۔ شوہر سمجھانے کے انداز میں بولا۔ بھئی دیکھو! تنخواہ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتی ہے بنیادی تنخواہ، جو تمہارے ہاتھ میں ہے، یہ سب سے کم ہوتی ہے اور یہی اصل تنخواہ ہوتی ہے۔ جب اس تنخواہ میں مختلف الاؤنس کو جمع کر لیا جائے جو کٹوتی کی مد میں کٹ جاتی ہے تو تنخواہ کی رقم اتنی بڑھ جاتی ہے جتنی میری امی نے تمہاری امی کو تمہارا رشتہ مانگتے وقت بتلایا تھا۔ اور اگر سال بھر تک آجر کی طرف سے ملنے والی سہولتوں کو جمع کر کے اسے رقم میں تبدیل کر لیں اور حاصل ہونے والی فرضی رقم کو بارہ سے تقسیم کر کے تنخواہ اور الاؤنس میں جمع کر لیا جائے تو بننے والی تنخواہ وہ ہوتی ہے جو میری بہن نے تمہیں منگنی والے روز بتلائی تھی۔ یہ سب سے زیادہ تنخواہ ہوتی ہے۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی! میں پوچھتی ہوں آخر تمہارے گھر والوں نے میرے گھر والوں کو تمہاری صحیح تنخواہ کیوں نہیں بتلائی تھی۔ بھئی دیکھو! اول تو یہاں کچھ پوچھنا منع ہے۔ دوم یہ کہ تمہارے گھر والوں نے کب میرے گھر والوں کو تمہارے اصل عمر بتلائی تھی۔ 
سو پیارے قارئین! آپ میں سے اول الذکر کبھی موخر الذکر سے اس کی عمر اور موخر الذکر اول الذکر سے اس کی تنخواہ نہ پوچھے کہ اس سے امن و امان خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ اور جب امن و امان کو خطرہ لاحق ہو تو مارشل لاء آتا ہے اور جب مارشل لاء آتا ہے تو بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں اور جب بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں تو انقلاب آتا ہے اور جب انقلاب آتا ہے تو جمہوریت بحال ہوتی ہے اور جب جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امن و امان پھر سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اور جب امن و امان خطرے میں ہو تو ۔۔۔ آگے پوچھنا منع ہے۔ ویسے نہ پوچھنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں جنہیں نہ پوچھ کر ہی امن و امان برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی سیاسی پارٹی سے تو یہ پوچھنا یکسر منع ہے کہ اس کے پاس جلسے جلوس کے لئے اتنا سرمایہ کہاں سے آتا ہے۔ قرضدار سے قرضہ کی رقم کی واپسی کا پوچھنا تو صحت کے لئے بھی مضرو ہے۔ اسی طرح اپنی نصف بہتر کے سامنے کسی خاتون کا حال پوچھنا، کلاس روم میں استاد سے سوال پوچھنا، ڈرائیور سے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھنا، گرفتار شدگان کا اپنا جرم پوچھنا اور اخبار و جرائد سے اس کی تعداد اشاعت پوچھنا۔۔۔ مگر ٹھہریئے آخر میں ہم شاید کچھ زیادہ ہی غلط بات پوچھ بیٹھے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدیر محترم ہم سے ہمارے گھر کا پتہ پوچھ بیٹھیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ لوگ ہمیں اٹھائے ہمارے گھر کا رستہ پوچھتے نظر آئیں۔ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ۔۔۔ پوچھنا منع ہے۔ ہے نا؟ 


 
بات مولوی مدن کی
مولوی اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :

بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

مولوی مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔

کبھی مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔ لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارہ کرتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف ہے۔
ہم مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔



مولانا فضول کی سیاست
ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح مولانا فضول کو بھی یار لوگ رحمن کا فضل قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔

مولانا فضول ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ع کے قطعا قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔
مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی ذحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔

البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ انکی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔

کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی
مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی


اداکارہ، اداکاری اور کاری ادا
یہ ایک اداکارہ ہے۔ اداکاری کے پردے میں کاری ادا دکھانے اور کاری حملہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر وہیں بسیرا کر لیتی ہے۔ اور یوں دل اپنی من مانی کرنے پر اتر آتا ہے۔ ان کا حملہ ٹین ایجرز پر فوری اثر کرتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو بڑھاپے تک اس کا سحر قائم رہتا ہے۔

اداکارہ کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر مشہور و معروف اداکاراؤں نے گھر سے بھاگ کر ہی اپنی اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ گھریلو رشتے اداکارہ کی اداکاری کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہوتی ہے، جسے یہ پہلے ہی ہلے میں گرا دیتی ہے۔ کوئی شریف لڑکی اس وقت تک اداکارہ نہین بن سکتی جب تک وہ شرافت کا لبادہ اتار اور قدرتی رشتوں کو چھوڑ نہیں دیتی۔ ایک وقت تھا جب ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اداکاراؤں کی سپلائی صرف اور صرف طوائفوں کے کوچہ سے ہوا کرتی تھی مگر شیطان کی کرپا سے اب یہ محتاجی نہیں رہی۔ ایک فلم ساز جب ایک خوبرو طوائف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ بھولی طوائف بولی۔ یہاں بڑے بڑے لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ فلموں میں مجھے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ جب اللہ نے مجھے یہاں عزت دولت سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر میں فلموں میں کیوں جاؤں؟

فلم یا ڈرامہ کی مرکزی اداکارہ کو ہیروئین بھی کہتے ہیں۔ ان کا نشہ بھی پوست والے ہیروئین سے کم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر فلم بین کا برانڈ یعنی پسندیدہ ہیروئین جدا جدا ہوتی ہے۔ پرستار اپنی پسندیدہ ہیروئین کے نشہ میں دنیا و مافیہا سے بےگانہ ہو جاتے ہیں جبکہ اداکارہ کو خبر ہی نہین ہوتی کہ
کون مرتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک – ع
زیادہ سے زیادہ ہیرو کے ساتھ کام کرنے والی ہیروئین کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں یہ جتنے کم لوگوں سے وابستہ رہتی تھی، اس کی عزت و توقیر اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ سچ ہے، وقت اور اسکے اقدار بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بولڈ اینڈ بیوٹی کسی بھی اداکارہ کی دو بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔ اداکاراؤں کے حوالے سے بولڈنس نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے۔ قبل ازیں اسے بے شرمی کہا جاتا تھا۔ اداکاراؤں کے پیشے کی ابتدا ہی شرم و حیا کے لباس کو اتارنے سے ہوتی ہے۔ اور جوں جوں یہ آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے۔ لیکن میرا ایک دوست بالکل الٹ بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس تیزی سے ایک اداکارہ کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے، وہ اسی تیزی سے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لباس کے بارے میں اداکارائیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ لباس قدرتی لباس ہے۔ اس لباس میں ان کی اداکاری کی مانگ اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اداکارائیں شادی کو اپنے کیرئیر کی تباہی اور طلاق کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہیں۔ اسی لئے اداکارائیں شادی سے کم اور طلاق سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

کوئی اداکارہ اس وقت تک پرفیکٹ ایکٹریس نہیں کہلاتی جب تک وہ محبت کے مناظر کی عکاسی کروانے میں مہارت نہ حاصل کر لے۔ یعنی ایسے مکالمے و افعال جو ایک شریف زادی صرف اپنے بیڈ روم میں اور اپنے سر کے تاج کے سامنے، یا ایک طوائف زادی اپنے کوٹھے کی چہار دیواری کے اندر صرف اپنے گاہک کے سامنے انجام دیتے ہوئے بھی شرما جاتی ہے۔ اسے ایک اداکارہ چکاچوند روشنی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس خوبصورتی اور بولڈنس یعنی بے شرمی کے ساتھ ریکارڈ کرواتی ہے کہ اس کی ہر ادا، جسمانی خد و خال اور نشیب و فراز تمام باریکیوں کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر ان کے پرستار محظوظ اور ہیروئین کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔
ایک کامیاب اداکارہ صرف لوسین ہی نہیں بلکہ اینٹی لو سین میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ جہاں یہ بہ رضا و رغبت اپنے پورے جسم کو پیش کرنے میں رتی بھر بھی نہیں ہچکچاتی وہیں یہ ولن کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے تمام مراحل کو بڑی تفصیل سے پیش کرنے میں بھی یکساں مہارت رکتھی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو وہ اسے اپنے پالتو غنڈوں سے یا سرکاری اہلکاروں سے پٹوا دیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جسم فروش کواتین نے خود کو بیچنے کا آغاز ناچ گانے سے کیا تھا۔ پہلے یہ امراء کے لئے مجرا کیا کرتی تھیں۔ بعد ازاں عوام کی خاطر گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی۔ مجرا یا تو امراء کی کوٹھی پر ہوا کرتا تھا یا طوائف کے کوٹھے پر۔ عوام کے لئے گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے جب ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام کا آغاز کیا تو پہلے پروگرام کی بکنگ کے لئے وہ خود بہ نفس نفیس طوائفوں کے کوٹھے پر گئے تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان اس معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ ریڈیو سے تربیت یافتہ گلوکاراؤں کو ٹی وی اور فلم کے لئے ایکسپورٹ بھی کرنے لگا۔ آج پاکستان دنیا بھر کو بالعموم اور مڈل ایسٹ کو بالخصوص بولڈ اینڈ بیوٹی وافر تعداد و مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور خاصہ زرمبادلہ کماتا ہے۔

اداکارہ چھوٹی ہو یا بڑی، سب کی منزل ایک ہوتی ہے۔ قدآور اداکارہ وہ کہلاتی ہے جو اپنے قد و قامت اپنے کپڑوں سے باہر نکال سکے۔ اداکاراؤں کا کوئی دین، کوئی نظریہ یا کوئی کیریکٹر نہیں ہوتا سوائے فلمی کیریکٹر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اداکارہ ایک فلم میں جسے بھائی بناتی ہے، اگلے فلم میں اسے پریمی یا شوہر بناتے ہوئے کوئی عار نہیں ہوتا۔ ایک اداکارہ سین کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا اپنا دھرم اور ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ سین اس کے اپنے دین دھرم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اداکارہ پہلے مسلمان ہو ہندو ہو یا عیسائی، اداکاری کے شعبہ میں داخل ہونے کے بعد صرف اور صرف اداکارہ رہ جاتی ہے۔ لہذا کسی اداکارہ کے کسی بھی فعل کو کسی دین دھرم بالخصوص اسلام کے حوالے سے تو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جاوید شیخ نے کیا خوب کہا تھا کہ فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے آپ اسلام کی بات نہ کیا کریں۔ اسلام کا فلم سے یا فلم کا اسلام سے کیا تعلق۔
کہتے ہیں کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً وہاں اداکاری کرنے والی عورتوں ہی کی بہتات ہو گی۔ خواہ ایسی عورتیں ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کرتی رہی ہوں یا گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ اچھے وقتوں میں جب کوئی غلط کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا تھا تو لوگ خوش گمانی کے تحت کہا کرتے تھے کہ زیادہ اداکاری نہ کرو اور سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔ اب یہی اداکاری بولڈنس یعنی بے حیائی کے ساتھ ایک پیشہ بن چکی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو اداکارہ کی اداکاری اور اس کی کاری ادا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

پلیز اور سوری
پلیز اور سوری ایک ایسی گاڑی کے دو پہیے ہیں جن پر سوار ہو کر آپ ہر قسم کی گاڑیوں سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے پائیدان تک بھری ہوئی بس کو حسرت سے تکنے کی بجائے لپک کر قریب جائیے۔ بس سے باہر لٹکے ہوئے ایک جم غفیر کی گھورتی ہوئی نگاہوں سے خوف کھانے کے بجائے بلا تکلف ایک پاؤں پائیدان کی طرف اور ہاتھ ڈنڈے تک بڑھائیں اور لٹکے ہوئے حضرات کی طرف مسکراتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کچھ کھینچ کر جادو اثر لفظ پلیز ادا کیجئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کو پائیدان میں پاؤں رکھنے کیلئے اور ڈنڈے کو پکڑنے کیلئے جگہ مل جائے گی۔ اور بس فراٹے بھرتی ہوئی آپ کو آپ کی منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔

یہ پلیز بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کا اسٹاک ہر وقت اپنے پاس رکھیے۔ آپ کا اس پر کچھ زیادہ خرچ بھی نہیں آئے گا۔ پتہ نہیں کس وقت ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً آپ کہیں چلے جا رہے ہیں کہ اچانک آپ کو سامنے چند منچلے نظر آتے ہیں جنہوں نے سامنے سے گزرنے کا راستہ روک رکھا ہے۔ آپ راستہ تبدیل کرنے کے بجائے بلا دھڑک آگے بڑھتے چلے جائیے۔ اور قریب پہنچ کر ایک لمبی سی پلیز ان کے منہ پر دے ماریئے۔ گویا آپ نے بدتمیزی کے سمندر میں عصائے موسیٰ مار دیا۔ آپ کو فوراً راستہ مل جائے گا۔ یہ نسخہ کیمیا خواتین بھی اپنی ذمہ داری پر استعمال کر سکتی ہیں۔

اگر کسی کو پیشگی "زحمت" دینے کا ارادہ ہو تو پلیز کا قبل از زحمت استعمال سود مند رہتا ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ آپ کو پلیز کہنا یاد نہ رہا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ قبل اس کے کہ وہ جسے آپ زحمت میں مبتلا کر چکے ہیں آپ پر جوابی کاروائی کا سوچے، آپ فوراً لفظ "سوری" کا سہارہ لیں۔ وہ دل میں پیچ و تاب کھانے کے باوجود آپ سے صرف یہی کہنے پر اکتفا کرے گا کہ کوئی بات نہیں۔

اس نسخہ کے طریقہ استعمال کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔ آپ بھرے بازار میں چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ دانستہ یا نا دانستہ (جو بھی آپ پسند کریں) کسی ننگے پیر یا چپل (یا پھر سینڈل۔۔۔) پہنے ہوئے پاؤں کو اپنے جوتے سے کچلتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہین کہ صاحب ِ پاؤں یا اس کا کوئی "حمایتی" آپ کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ فرار کے مواقع کو مسدود پائیں تو خطرہ محسوس کرتے ہی فوراً پیچھے مڑ کر مذکورہ فرد کے منہ پر ایک زور دار سی "سوری" دے ماریں۔ اور قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھنے یا بولنے کی کوشش کرے آپ تیزی سے کسی بھی سمت کھسک جائیں۔

۔۔۔ یا پھر آپ حسب معمول کسی بھری ہوئی بس میں سفر کر رہے ہوں اور آپ کا پان کھانے کو جی چاہے تو بٖغیر کسی جھجک کے اپنی خواہش پوری کریں۔ ہاں جب پیک تھوکنے کا مسئلہ ہو تو اپنا ایک ہاتھ (واضح رہے کہ دوسرے ہاتھ سے آپ ڈنڈا پکڑے ہوں گے) دائیں بائیں یا آگے پیچھے بڑھائیں۔ آپ کا ہاتھ کسی نہ کسی جیب میں ضرور چلا جائے گا۔ بس بے دھڑک رومال نکال لیں۔ رومال میں پیک جذب کر لیں اور پہلے کی طرح کسی کی بھی جیب میں ڈال دیں۔ اگر خدانخواستہ رومال نکالتے یا ڈالتے وقت صاحبِ جیب یا رومال کی نظر آپ پر پڑ جائے تو قطعی فکر مند نہ ہوں۔ بس آہستگی سے منہ اوپر اتھا کر سوری کہہ دیں۔ اگر آپ نے مخاطب کی طرف منہ کر کے کچھ کہنے کی کوشش کی تو۔۔۔ تو ظاہر ہے مخاطب کے ساتھ ساتھ آس پاس والوں کے لباس بھی پیک کے خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہو جائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے آپ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ کیونکہ آخر آپ ایک باشعور شہری بھی تو ہیں۔
 
(باقی مضامین حصہ دوم میں ملاحظہ کیجئے)

No comments:

Post a Comment