Thursday 4 October 2012

زندگی اے زندگی


حسن نثار کے کالم مطبوعہ روزنامہ دنیا 5 اکتوبر 2012 سے انتخاب

Sunday 12 August 2012

مناسک حج

 مناسک حج اور اِن کی ترتیب 

فرائضِ حج:(۱) اِحرام۔مردوں کے لےے دو چادریںجبکہ عورتوں کے لےے معمول کا لباس۔ نیت کرنا اور تین بار تلبیہ پڑھنا۔(۲) وقوفِ عرفات۔(۳) طوافِ زیارت (خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا)
واجباتِ حج:۱۔ وقوفِ مزدلفہ ۲۔رمی (جمرات شیطان کو سات کنکریاں مارنا) ۳۔حج کی قربانی ۴۔بالوں کا حلق یا قصر ۵۔ صفا و مروا کی سعی (صفا پہاڑی سے مروا پہاڑی تک آنا اور جانا، کل سات مرتبہ) ۶۔ طوافِ وداع
۸ ذی الحجہ: ٭اپنی رہائش پر غسل یا وضو کرکے احرام باندھنا۔٭اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل نماز ادا کرنا۔٭ پھر حج کی نیت کرنا کہ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا کرتی ہوں، اس کو میرے لئے آسان فرما دیجئے اور قبول فرمائےے ۔(اَللّٰھُمَّ اِنّی اُریدُالحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی )٭ اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھنا۔ ٭ اب احرام کی پابندیاں شروع ہوگئیں۔ ٭اس کے بعدمکہ سے تین میل دور منیٰ کو روانگی جہاں دن اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا۔
۹ ذی الحجہ:٭ منیٰ سے طلوع آفتاب کے بعد ۶ میل دور عرفات کو روانگی۔٭غسل یا وضو کرکے زوال سے غروبِ آفتاب تک دوسرا فرض وقوفِ عرفات کرنا جوکھڑے ہوکر کرناافضل ہے ۔٭غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہونا۔٭ مزدلفہ پہنچنے کے بعد (رات جس وقت بھی پہنچیں) مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھنا۔٭ یہ مبارک رات ہے۔ اس رات ذکر اذکار، دعا اور آرام کرنا ہے۔
۰۱ ذی الحجہ:٭ مزدلفہ ہی میں نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب کے قریب تک وقوفِ مزدلفہ کرنا۔٭ رَمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھانا۔ ( احتیاطاََ ستّر ۰۸کنکریاں جمع کر لیں)۔٭طلوع آفتاب کے وقت مزدلفہ سے تین میل دور منیٰ روانہ ہونا۔٭زوال سے پہلے منیٰ میں جمرہ عقبہ کی رمی کرنا یعنی سات کنکر یاںمارنا۔ رمی کے دوران آپ کا رُخ اس طرح ہو کہ دائیں جانب منیٰ اور بائیں جانب مکہ ہو۔٭ جمرہ عقبہ کی رمی کے آغاز سے ہی تلبیہ بند کردینا۔٭ بطور شکرانہ حج کی قربانی کرنا جو عید الضحیٰ کی قربانی سے الگ ہے۔٭ قربانی کرنے کے بعدبالوں کاحلق (گنجا ہونا) یا قصر کرنا(کم از کم سر کے ایک چوتھائی بالوں کو انگلی کے ایک پور کے برابر کاٹنا)۔ خواتین تمام بالوں کے آخری سرے کو تقریباََ دو انچ تک کاٹیں۔٭ اب زوجین کے تعلقات کے علاوہ احرام کی جملہ پابندیاں ختم ہوگئیں۔٭ غسل یا وضو کے بعد احرام میں ہی یا پھر عام لباس پہن کر مکہ روانہ ہونا۔٭ تیسرا اور آخری فرض، طوافِ زیارت کی ادائیگی جو۰۱ تا ۲۱ ذی الحج کی جاسکتی ہے مگر۰۱ ذی الحج کو کرنا افضل ہے۔٭طوافِ زیارت کے بعد دو رکعت نمازِ طواف ادا کرنا۔ ٭ اگر ممکن ہو توملتزم پر دعا کرنا۔٭ زم زم کا پانی سیر ہوکر پینا۔٭ صفا و مروا کی سعی کرنا۔٭ جمرات کی رمی کے لئے منیٰ روانگی۔
۱۱ ذی الحجہ:٭بعد زوال اور غروبِ آفتاب سے قبل پہلے جمرہ اولیٰ پھر جمرہ وسطیٰ کی رَمی کرنا یعنی سات کنکریاں مارنا۔ اس کے بعد دعا کرنا کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے٭ آخر میںجمرہ وعقبہ کی رمی کرنا ۔ اس رَمی کے بعد کوئی دعا نہیں ہے۔
۲۱ ذی الحجہ:٭زوال اور غروبِ آفتاب کے درمیان تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرنا۔٭ منیٰ میں ہی قیام کریں یا مکہ روانہ ہو جائیں۔ ٭افضل یہی ہے کہ ۳۱ ذی الحجہ کو تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرکے ہی مکہ روانہ ہوں۔
۳۱ ذی الحجہ:٭اگر ۳۱ ذی الحجہ کی صبح منیٰ میں ہوگئی تو۳۱ ذی الحجہ کی رمی بھی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔
بیت اللہ کی کہانی، اللہ کی زبانی
پہلا وہ گھر خدا کا: بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوںکے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کُھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقام ِعبادت ہے۔ اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔(آلِ عمران....۷۹)

بیت اللہ کی جگہ اللہ نے تجویز کی: یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم ؑکے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔(سورة الحج....۰۳)

کعبہ مرکز اور امن کی جگہ ہے:اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اورلوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم ؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو، اور ابراہیم ؑاور اسماعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔(البقرة....۵۲۱)

ابتدائی تعمیرابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑ نے کی:اور یاد کرو، ابراہیم ؑاور اسمٰعیل ؑجب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: ”اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوںکو اپنا مسلم بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے“۔(البقرة....۹۲۱)

قیام کا ذریعہ ہے: اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہوجاﺅ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (المآئدة....۹۹)
مناسک حج سے متعلق قرآنی ہدایات
حج کی نیت: اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھر جاﺅ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اَسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکّے پہنچ جا ¶) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پُورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
حج کے ساتھ کاروبار کرنا:حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جا ¶، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جا ¶، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
حج کے بعد: پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئے۔ پھر جو کوئی جلدی کرکے دو ہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں۔اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے ۔(بقرة:۶۹۱ تا ۳۰۲)
حالت احرام میں شکار حلال نہیں:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدة....۱)
احرام میں شکارکا کفارہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا۔ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔(المآئدة....۵۹)
احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے:تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدة....۶۹)
دورانِ حج کی مختلف قیام گاہوں کا احوال
۱۔ ہوٹل یا رہائشی عمارت: یہاں حجاج کرام ایام حج سے پہلے اور بعد میں رہائش پذیرہوتے ہیں۔ چالیس روزہ حج ٹور کے دوران اس رہائش گاہ میںکم و بیش ایک ماہ کا قیام ہوتا ہے۔ عموماََیہاں صرف بستر وںکا انتظام ہوتا ہے۔ البتہ کہیں کہیں کچن اور فرج وغیرہ کی سہولیات بھی ہوتی ہےں۔ سامان کھانے پینے کے برتنوں سمیت بقیہ ضروریات کا تمام کا انتظام حجاج کرام کو خود کرنا پڑتا ہے۔اپنے ہوٹل یا رہائشی عمارت کا نام پتہ اور حدود اربعہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ بہتر ہے کہ اپنی جیبی ڈائری میں لکھ لیں ا ور موبائل فون میں بھی محفوظ کر لیں۔ ہوٹل کا نام پتہ کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ ہر حاجی یعنی مرد، عورت اور بچوں تک کے پاس ہر وقت ہونا چاہئے۔ تاکہ بچھڑنے یا راستہ بھولنے کی صورت میں کسی کو بھی پتہ دکھلا کر ہوٹل پہنچا جاسکے۔ اگرہوٹل کا بزنس کارڈ مل جائے تو باہر نکلتے وقت اسے ضرور اپنے ہمراہ رکھیں۔
۲۔ منیٰ کے خیمے :۔ ایام حج (۳۱۔۸ ذی الحجہ) کے پانچ چھ روزہ قیام کے لئے یہ ایک طرح سے بیس کیمپ ہوتا ہے۔ منیٰ کے انہی خیموں سے تمام کے تمام پچیس تیس لاکھ حاجی ایک ہی دن بعد نماز فجر تا دوپہر وقوف عرفت کے لئے میدانِ عرفات جاتے ہیں۔ حجاج کے ہر گروپ کے خواتین اور مردوں کے لئے علیحدہ مگر متصل الاٹ کردہ ایئر کنڈیشنڈ خیموں میں بستر موجود ہوتے ہیں۔ پچیس تیس افراد کے ہر خیمہ میںموبائل وغیرہ کی چارجنگ کے لئے بجلی کے چند ایک ہی ساکٹس ہوتے ہیں۔لہٰذا اپنے ساتھ کئی ساکٹوں والے کیبل ایکس ٹینشین اور موبائل چارجر ضرور لے جائیں۔ ان خیموں میںبعض گروپوں کی طرف سے کھانے کا انتظام ہوتا ہے اور خیمہ بستی سے ملحق بازار میں بھی کھانے پینے کی اشیاءبآسانی مل جاتی ہیں۔ خیمہ بستی مکتب نمبر اور خیمہ نمبر پر مشتمل ہوتی ہے، جو حجاج کے شناختی کارڈ پر بھی درج ہوتا ہے۔منیٰ میں بیشتر خیمے قبلہ رُخ نہیں ہے لہٰذا نماز کے لئے قبلہ کی درست سمت میں صفیں بنائیں۔
سامان برائےقیامِ منیٰ : تالے چابی والاایک بڑا بیگ اپنے ہمراہ لے کرجائیں، جس میں پانچ چھ روزہ قیام کے لئے ضرورت کی تمام بنیادی اشیاءموجود ہوں۔ خواتین اور مردوں کے بیگ الگ الگ ہوں۔البتہ منیٰ سے عرفات اور مزدلفہ جاتے وقت ہر حاجی اپنے ساتھ ایک مختصر سا کالج بیگ اپنے ہمراہ لے کر جائے اور بڑا بیگ یہیں چھوڑ جائے۔
۳۔ میدان عرفات: یہاں بھی ہر مکتب کے لئے الگ الگ قناتیں لگی ہوتی ہیں، جہاںمغرب تک قیام کرنا ہوتا ہے۔ یہاں کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا غیر ہموار فرش پر بیٹھنے ، لیٹنے اور نماز کے لئے چٹائی نما جائے نماز یا چادر اور ہوا بھرے تکیہ اپنے ہمراہ لے کرآئیں۔ گرمیوں میں دستی پنکھے بھی ساتھ لا سکتے ہیں۔اکثر مقامات پر مختلف اداروںکی طرف سے یہاں مفت لنچ پیک بھی مل جاتا ہے ۔ خطبہ حج : خطبہ حج ریڈیو ٹی وی سے براہ راست نشر کیا جاتا ہے کیونکہ بہت کم لوگوں کے لئے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ مسجدِ نمرہ میں جاکر خطبہ حج سن سکیں۔آپ کے گروپ لیڈرز کم از کم دو ایف ایم ریڈیو، اسپیکرز اور فاضل بیٹری سیل ضرور ساتھ لے جائیں تاکہ خواتین اور مرد الگ الگ خطبہ حج سننے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
۴۔ مزدلفہ : آفتاب غروب ہوتے ہی لاکھوں حجاج کرام ایک ساتھ مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جن گروپوں کو ٹرانسپورٹ نہیں ملتی وہ پیدل چلنے پر مجبو ر ہوتے ہیں۔ حج کا یہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے جو رات کے اندھیرے میں طے کرنا پڑتا ہے۔۔ مغرب و عشاءکی نماز مزدلفہ پہنچ کر اکٹھے پڑنی پڑتی ہے، خواہ آدھی رات کے بعد ہی مزدلفہ کیوں نہ پہنچیں۔ لاکھوں لوگوں کے رش کی وجہ سے گاڑیاں بھی سست رفتار سے رینگتی ہوئی چلتی ہیں۔کوشش کریں کہ آپ اپنے اہل خانہ اور گروپ کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سوار ہوں یا ایک ساتھ پیدل چلیں، اورہر وقت ساتھ ساتھ رہیں۔ میدان عرفات کی طرح مزدلفہ میں قیام کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ بس کھلے میدان میں جسے جہاں جگہ مل جائے، پڑاو ¿ ڈال دیتا ہے۔ اسی لئے اپنے گروپ کے ساتھ سفر کریں اور اپنے گروپ کے ساتھ ہی قیام کریں۔ یہاں پہنچتے ہی مغرب اور عشاءکی نماز اکٹھے ادا کی جاتی ہے۔ پھر وقت ملے تو فجر تک کھلے آسمان تلے آرام وقوف کرنا ہے۔ فجر کی نماز پڑھتے ہی لاکھوں حاجی ایک ساتھ َ منیٰ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ حج کا یہ دوسرا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن دن کی روشنی کی وجہ سے اور منیٰ پہنچنے کی جلدی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر عرفات سے مزدلفہ والے سفر کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ البتہ یہاں چلنا زیادہ پڑتا ہے۔
 منیٰ۔عرفات۔مزدلفہ۔منیٰ کا سفر: تقریباََ چوبیس گھنٹوں پر مشتمل حج کا سب سے مشکل اور مشقت سے بھرپور مرحلہ یہی ہوتا ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اس دوران ہر فرد کے پاس ایک مختصر سا بیگ ہو جسے اسکول بیگ کی طرح پشت پر بآسانی لٹکایا جائے۔ایک پانی کا تھرموس ہو۔ بیگ میں ایک اضافی احرام ( اورخواتین کے لئے اضافی جوڑا) اور ایک اضافی چپل موجود ہو تاکہ احرام ناپاک ہونے اور چپل گم ہونے کی صورت میں تبدیل کئے جاسکیں۔ کچھ خشک خوراک جیسے بسکٹ وغیرہ بھی ہو۔ اگر آپ بلڈ پریشر، ذیابطیس یا اور کسی مرض میں مبتلا ہوں تو کم از کم دو دن کی دوائی کی خوراک ہمراہ ضرورہو۔
 منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کے عوامی بیت الخلا : ان تنگ بیت الخلا کے اندر ہی غسل کے لےے شاور بھی نصب ہیں۔ لہٰذا یہاں دورانِ غسل ناپاک چھینٹوں سے بچنے کی خاص ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر خوشبو والے صابن کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں اور حمام میں احرام کو محفوظ رکھنے کے لئے پلاسٹک کے مضبوط شاپر بیگز اپنے ساتھ منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ کے بیت الخلا میںلے جانا سود مند رہتا ہے۔ مردانہ غسل خانوں کی دوسری طرف زنانہ غسل خانے ہوتے ہیں۔
 منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ میں قبلہ رُخ:۔ ان تینوں جگہوں پر قیام اور وقوف کے لےے کی گئیں حد بندیاں قبلہ رُخ نہیں ہیں۔ تاہم جگہ جگہ قبلہ نما کے نشانات آویزاں ہیں۔ انہیں دیکھ کر ہی نماز کے لئے اپنی صفیں بنائیں۔
 مزدلفہ اور کنکریاں: مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوںکے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ہر حاجی کو کل ۰۷ کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ احتیاطاََ ۰۸ کنکریاں فی حاجی چن لیں۔ یہاں پر جگہ جگہ کنکریوں کے پیکٹس بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اگر پیکٹس مل جائیں تو ٹھیک ورنہ خود ہی اپنے لئے اور اپنی خواتین و بچوں کے لئے کنکریاں چُن لیں۔
 بالوں کاحلق یا قصر:حج کا واجب رکن، جس کے بغیر حاجی احرام کی پابندیوں سے باہر نہیں آسکتا۔منیٰ میں بالعموم حلق یا قصر کا کوئی معقول انتظام نہیں ہوتا۔ گو کہ بعض خیموں میں حجام از خود پہنچ جاتے ہیں۔ جمرات کے قریب حجام کی چند دکانیں موجود ہیں ۔ لوگ یہاںاپنی مدد آپ کے تحت بھی ایک دوسرے کے بال مونڈتے نظر آتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس ریزر یا ہیئر ٹرمرمشین ہے تو ایک دوسرے کا حلق یا قصرکر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا وہی کر سکتا ہے، جس نے پہلے خود حلق یاقصر کروالیا ہو۔
صفا و مروا کی سعی: وھیل چیئر پر طواف وسعی کروانے کے لئے مزدوربھی مل جاتے ہیں۔ کوشش کیجئے کہ اپنے گروپ کے ضعیف مرد و خواتین کو وھیل چیئر پر خود سعی کروائیں۔ اور اگر مزدور لینا ہی ہو تو مزدوری کی رقم پر پہلے سے طے کرلیں ۔
 طوافِ زیارت کے لئے منیٰ سے بیت اللہ شریف جانے اور آنے کے لےے ٹرانسپورٹ کا انتظام کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرآپ کے گروپ کی طرف سے ایسا انتظام نہیں ہے تو آپ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لےے عین ممکن ہے کہ آپ کو میلوں پیدل بھی چلنا پڑے۔ اگر ٹرانسپورٹ میسر نہ آئے تو منیٰ تا بیت اللہ شریف پیدل بھی جایا جاسکتا ہے۔ اگر پیدل چلنا پڑے تو کسی ایسے گروپ کے ساتھ چلیں، جنہیں راستوں کا بخوبی علم ہو۔ جمرات سے دور مکاتب والوں کو بھی منیٰ والی اپنی قیام گاہ سے جمرات آنے جانے میں کافی پیدل چلناپڑتا ہے۔اب یہاں ٹرین سروس کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
 مسائل اور مناسک ِ حج پر ہدایاتِ نبوی ﷺ
حج کی فضیلیت: اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا کہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاسب سے افضل جہاد ”حجِ مقبول“ ہے۔سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ کے لےے حج کرے پھر حج کے دوران کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کرکے اس طرح بے گناہ واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے بے گناہ جنم دیاتھا۔سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اﷲ ﷺ سے کہا کہ یا رسول اﷲ! ﷺ اﷲ میرے ضعیف با پ پر حج فرض ہے مگر وہ سواری پر نہیں جم سکتے ۔ توکیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں کرلے۔( بخاری)
 حضرت علی مرتضیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اﷲ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ایسا اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :”اﷲ کے لئے بیت اﷲ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں“۔ (جامع ترمذی)
حج اور عمرہ پے در پے کرنا: حضرت عبداﷲ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقرو محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور رکردیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنا ر کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے ۔ اور ”حج مبرور “ کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔(جامع ترمذی، سنن نسائی) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو۔ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلا۔پھر راستہ ہی میں اس کو موت آگئی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے والوں کیلئے یاراہ جہاد کرنے والے کے لےے مقرر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)
مقاماتِ حج: سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ والوں کیلئے ذوالحلیفہ کو میقات قراردیا تھا اور شام والوں کیلئے جحفہ اور نجد والوں کیلئے قرن المنازل اوریمن والوں کیلئے یلملم۔ یہ مقامات یہاں کے رہنے والوں کیلئے بھی میقات ہیں۔ اور جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے غیر مقام کا رہنے والا ان مقامات کی طرف سے ہوکر آئے، اس کی بھی میقات ہیں پھر جو شخص ان مقامات سے مکہ کی طرف کا رہنے والا ہو تو وہ جہاں سے نکلے احرام باندھ لے اسی طرح مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔امیر المومنین عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو وادیِ عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج شب کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اس مبارک وادی یعنی عقیق میں نماز پڑھو اور کہو کہ ”میں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا“۔ایک اور روایت میںسیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو اخیر شب میں جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ میں تھے، وادیِ عقیق میں یہ خواب دکھایا گیا اور آپ ﷺ سے کہا گیا کہ اس وقت آپ ﷺ ایک مبارک وادی میں ہیں ۔واضح رہے کہ نبی ﷺ کے خواب بھی وحی میں شامل ہیں۔ (صحیح بخاری)
 آدابِ حرمین شریفین: حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ کے ”حرم“ ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ کے ”حرم“ قرار دیئے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں خوں ریزی کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیاراٹھایاجائے۔ جانوروں کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں۔ حضرت جابرؓ سے راوی ہےں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ (صحیح مسلم)
احرام: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہؓ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے، پھر آپ ﷺ نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپ ﷺ ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب مقامِ بیداءمیں پہنچے تو آپ ﷺ کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالے ۔ پھر آپ ﷺ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپ ﷺ نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپ ﷺ اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپ ﷺ ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپ ﷺ مکہ کی بلندی پر مقام حجوں کے پاس اترے اور آپ ﷺ حج کا احرام باندھے ہوئے تھے طواف کرنے کے بعد آپ کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہوگیا۔سیدنا یعلی بن امیہؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اورپوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہے، جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبی ﷺ نے کچھ دیر سکوت فرمایا پھر آپ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو خوشبو تجھے لگی ہوگی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔ (صحیح بخاری)
سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ جب حج کیلئے مکہ جانے کا ارادہ کرتے تو تیل لگاتے جس میں خوشبو نہ ہوتی تھی پھر ذوالحلیفہ کی مسجد میں آتے اور نماز پڑھتے اس کے بعد سوار ہوتے پھر جس وقت وہ سوار ہوتے اور سواری کھڑی ہوجاتی تو احرام باندھتے اس کے بعد کہتے کہ میں نے نبی ﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم حج کے مہینے میں حج کے احرام کے ساتھ مدینے سے نکلے پھر ہم مقامِ سرف میں اترے پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ چاہے کہ اس احرام سے عمرہ کرے تو وہ ایسا کرلے اور جس شخص کے ہمراہ جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ اُمُّ المو ¿منین عائشہ صدیقہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ہمراہ حجة الوداع کے سال مکہ کی طرف چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اﷲ ﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا یہاں تک کہ قربانی کا دن آگیا۔ اُمُّ المومنین حفصہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کرکے احرام سے باہر ہوگئے اور آپ ﷺ عمرہ کرکے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کرلوں احرام سے باہر نہیں آسکتا۔ (بخاری)
 مردوں اورعورتوں کے احرام کا فرق: حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے دریافت کیا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والاکیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ حالت احرام میں نہ تو قمیض پہنو اور نہ پاجامہ ۔ نہ ہی سر پر عمامہ پہنو اور نہ پاو ¿ں میں موزے پہنو۔ ایسا کوئی کپڑا بھی نہ پہنو جس کو زعفران یاخوشبو لگا ہو۔ (صحیح مسلم) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ راوی ہےں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور زعفران یا خوشبو لگے کپڑوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں۔ (سنن ابی داو ¿د)
احرام کھولنا: سیدنا ابنِ عمرؓ راوی ہیںکہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے حج میں سر کے بالوں کو منڈوا ڈالا تھا۔سیدنا ابنِ عمرؓ مزید کہتے ہیںکہ رسول اﷲ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ بال کتر وانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا کہ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت فرما۔ (بخاری)
تلبیہ پڑھنا: سیدنا ابنِ عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے احرام باندھتے ہی تلبیہ یعنی لبیک نہیں پکارا ۔ البتہ جب آپ ﷺ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب پہنچے تو تلبیہ پڑھی۔سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہؓ نبی ﷺ کے ہمر کاب تھے۔ پھر آپ ﷺ نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضلؓ بن ابی طالبؓ کو ہمرکاب کرلیا تھا۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ دونوں صحابیوں کا بیان ہے کہ نبی ﷺ برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جمرة العقبہ کی رمی کی۔سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا تلبیہ یہ تھا ” اے اﷲ میں تیرے دروازہ پر بار بار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔ (بخاری)
خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ: میرے پاس جبرئیل ؑ آئے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں۔ (موطا امام مالکؒ، جامع ترمذی، سنن ابی داو ¿د، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی): حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کا مو ¿من و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے ۔تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اﷲ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب احرام باندھ کر تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے(مسند شافعی)
 طوافِ کعبہ:اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میںنے عرض کیا کہ کعبہ کا دروازہ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہاری قوم نے اس لےے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہوگا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملادیتا ۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کردینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کردیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کردیتا اور اس کو زمین سے ملادیتا اور اس میں دروازے بناتا ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیم ؑ کی بنیاد کے موافق کردیتا۔سیدنا ابو ہریرہؓ نبی ﷺ سے راوی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کردے گا۔ ایک اور حدیث میںسیدنا ابن عباسؓ راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا، گویا کہ میں اس سیاہ فام شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔ (بخاری)
 طوافِ کعبہ میں رمل کرنا: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اور صحابہ جب حج کرنے مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایساگروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے پس اس بات کی اطلاع پاکر نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال چلیں ۔ تمام چکروں میں رمل نہ کر نے کے حکم سے یہ مقصود تھا کہ لوگوں پر سہولت ہو، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا جب آپ ﷺ مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجر اسود کا بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔ (بخاری) سیدنا ابن ِعمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جب پہلا طواف کرتے تھے تو اس کے تین چکروں میں رمل یعنی دوڑ کر چلا کرتے تھے اور اگلے چار چکروں میں مشی یعنی معمولی چال سے چلا کرتے تھے اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن المسیل میں سعی(دوڑا) کرتے تھے۔ (بخاری)
 حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا۔ پھر آپ نے داہنی طرف طواف شروع کیا۔ پہلے تین چکروں میں آپ ﷺنے رمل کیااور اس کے بعد چار چکروں میں آپ اپنی عام رفتار سے چلے۔ ( مسلم) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اﷲ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے۔ جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی کی بات کرے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی ، سنن دارمی)
حجرہ اسود اور رکن یمانی: امیر المومنین حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ طواف میں حجراسود کے پاس آئے پھر اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کو تیرا بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حجةالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا، اور لاٹھی سے آپ ﷺ نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ یعنی حجر اسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا۔ (بخاری)
 حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا۔ اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا۔ جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہوگیا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، سنن دارمی) حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺسے سنا کہ حجر اسود اور رکن یمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفار ہ کا ذریعہ ہے۔ جس نے اﷲ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیاتو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا۔ بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھ کر دوسرا قدم اٹھائے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا (ترمذی)
 حضرت عبداﷲ بن السائبؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو حالتِ طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّن ±یَا حَسَنَةً وَّفِی ال ±ا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (سنن ابی داو ¿د)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ: رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جوہر اس بندے کی دعا پر امین کہتے ہیں جو اسکے پاس یہ دعا کرے کہ : اَللّٰھُمَّ اِنِّی ± اَس ±ئَلُکَ اال ±عَف ±وَ وَال ±عَافِیَةَ فِی الدُّن ±یَا وَال ±ا خِٰرَةِ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّن ±یَا حَسَنَةً وَّفِی ال ±ا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (اے اﷲ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں۔ اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا!)۔ (سنن ابن ماجہ)
زم زم کا پانی :سیدنا ابنِ عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو زم زم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اس دن اونٹ پر سوار تھے۔(بخاری)
صفا و مروا کی سعی : اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ان کی بہن کے بیٹے عروہ بن زبیرؓ نے اﷲ تعالیٰ کے قول (ترجمہ) ”بے شک صفا اور مروہ دونوں اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے“ (بقرہ۔ ۸۵۱) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واﷲ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ صفاومروہ کی سعی نہ کرے؟ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہؓ نے جواب دیا کہ اے بھانجے! تم نے بہت بُرا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی (ترجمہ) بے شک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمان ہونے سے پہلے ”مناة“ بت کی پوجا کرتے تھے ۔یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ہم صفاومروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کو ترک کردے۔ (بخاری)
قیامِ منیٰ : سیدنا انس بن مالکؓ سے عبدالعزیز بن رفیع نے پوچھا کہ نبی ﷺ سے نے ظہر اور عصر کی نمازیں آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھیں؟ تو انہوں نے کہا ”منیٰ میں“ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نفر کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ”ابطح میں“ پھر سیدنا انسؓنے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔ (بخاری) عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کوفرماتے سنا: حج وقوف عرفہ ہے۔ جو حاجی مزدلفہ والی رات یعنی ۹اور۰۱ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پالیا اور اس کا حج ہوگیا۔منیٰ میں قیام کے تین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۱۱، ۲۱، ۳۱ ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی۱۱، ۲۱ ذی الحجہ کو رمی کرکے منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ ( ترمذی، ابی داو ¿د، نسائی، ابن ماجہ، سن)
یومِ عرفہ: سیدناعبداﷲبن عمرؓ نے عرفہ کے دن زوالِ آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آکر بلند آواز دی تو حجاج نے باہر نکل کر پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو تجھے اسی وقت وقوف کے لےے چلنا چاہیئے۔ حجاج نے عرض کیا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں۔ پھر حجاج نکلا تو چل پڑے ۔ اس موقع پر موجودسالم بن عبداﷲ نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداﷲ بن عمرؓ کی طرف دیکھنے لگا ۔جب عبداﷲ بن عمرنے کہا کہ سالم صحیح کہتے ہیں ۔سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اﷲ ﷺ حجةالوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے؟ تو سیدنا اسامہؓ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلنے لگتے۔ (بخاری)
 حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اﷲ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لئے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو۔ اس دن اﷲ تعالیٰ اپنی صفت ر حمت کے ساتھ عرفات میں جمع ہونے والے اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھتے ہو!میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں؟(صحیح مسلم) تابعی حضرت طلحہ بن عبید اﷲ کریز سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ: شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار، پھٹکارا ہوا اورجلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا وہ عرفہ کے دن دیکھا جاتا ہے۔ ایسا صرف اس لےے ہے کہ وہ اس دن رحمتِ الٰہی کوبرستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے دیکھتا ہے ۔(مو ¿طا امام مالک)
ضعیفوں کا وقوف مزدلفہ نہ کرنا: اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو اُمُّ المومنین سودہؓ نے نبی ﷺ سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک سست عورت تھیں تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت دیدی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر ہم رسول اﷲ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ کاش میں نے بھی رسول اﷲ ﷺ سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہؓ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔ (بخاری)
وقوف ِمزدلفہ: سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے اور ہم نے مغرب اور عشاءکی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں ۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹادی گئی ہیں مغرب اور عشائ۔ پس لوگوں کو چاہیئے کہ جب تک عشاءکا وقت نہ ہوجائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔ جب خوب سفیدی پھیل گئی تو عبداﷲ بن مسعودؓ نے کہا کہ اگر امیر المومنین عثمانؓ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے ۔چنانچہ امیر المومنین نے کوچ کردیا ۔ پھر سیدنا ابنِ مسعودؓ برابر تلبیہ کرتے رہے اور قربانی کے دن جمرةالعقبہ کو کنکریاں ماریں۔تب تلبیہ موقوف کردیا۔ امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے اس کے بعد فرمایا کہ مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کُوچ نہ کرتے تھے اورثبیر نامی پہاڑ سے کہا کرتے تھے کہ اے ثبیرآفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔بے شک نبی ﷺ نے ان کی مخالفت فرمائی تھی۔ اس کے بعد سیدنا عمرؓ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کردیا۔ (بخاری)
حج کی قربانی: سیدنا جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپ ﷺ اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام سے باہر آجاو ¿ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہوکر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آجائے تو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کردو تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس کو تمتع کردیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے۔ (بخاری)
سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے حجةالوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے آپ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبیﷺ کے ہمراہ عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبی ﷺ مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اُسے چاہیئے کہ کعبہ کا طواف اور صفامروہ کی سعی کر کے بال کتر والے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو کو صرف حج کا احرام باندھے ۔پھر حج کرے اور قربانی کرے۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔ (بخاری)
قربانی کے جانور: سیدنا ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک شخص کو قربانی کے جانور کو ہانکتے دیکھ کر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! یہ تو قربانی کا جانور ہے اس پرکیسے سوار ہوسکتا ہوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاو ¿۔سیدنا مسور بن مخرمة اور مروانؓ سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہؓ کے ہمراہ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی ﷺ نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور عمرہ کا احرام باندھا۔ایک اور روایت میں کہ آپ ﷺ بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کردیتے تھے اور حج پر نہ جانے کے باعث اپنے گھر میں بغیر احرام کے رہتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے قربانی کے جانوروں کے لےے ہار بنائے تھے۔(بخاری)
اونٹ کو کھڑا کرکے نحر کرنا:سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اونٹ کو نحر کرنے کے لےے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کرکے اس کا پیر باندھ دے پھر اس کو نحر کر کیونکہ یہی محمد ﷺ کی سنت ہے۔امیر المومنین سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑا رہوں اور ان کی بنوائی کی اجرت میں قصاب کو گوشت یا کھال وغیرہ نہ دوں۔سیدنا جابر بن عبداﷲ ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں ۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا کہ کھاو ¿ اور ساتھ لے جاو ¿۔ پس ہم نے کھایا بھی اور ساتھ بھی لے کرآئے۔ (بخاری)
یومِ نحر عظمت والا دن: حضرت عبداﷲ بن قرطؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر(۰۱ ذی الحجہ) ہے۔ اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر(۱۱ذی الحجہ) کا درجہ ہے۔ اس کے بعد (یعنی ۲۱ ذی الحجہ) اگر کی جائے تو ادا تو ہوجائے گی۔ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ کے لئے رسول اﷲ ﷺ کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا، تاکہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں۔ ( ابو داو ¿د)
طوافِ زیارت: حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے طواف زیارت کو دسویں ذی الحجہ کی رات تک مو ¿خر کرنے کی اجازت دی ۔(گو طوافِ زیارت ۰۱ ذی ا لحجہ کے دن افضل ہے تاہم اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی کیا جاسکتا ہے) ۔حضرت حارث ثقفیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اﷲ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو۔ (مسند احمد)
جمرات کی رمی کرنا:سیدنا ابن عمرؓ سے کسی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔پھر آپ ؓ نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور آفتاب ڈھل جا نے کے بعد کنکریاں مارتے۔سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبداﷲ ابن مسعودؓ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد کے رمی کرنے کی جگہ یہی ہے ۔سیدنا عبداﷲ مسعودؓ سے روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کرلیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح سے نبی ﷺ نے رمی کی ۔سیدنا ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آجاتے تھے اورکہتے تھے کہ میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری)حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ذکر اﷲ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں۔(جامع ترمذی، سنن دارمی)
طوافِ وداع :سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کا آخری وقت کعبہ کے ساتھ ہو یعنی مکہ سے واپسی کے وقت کعبہ کا طواف کرکے جائیں مگر حائضہ عورت کو یہ معاف کردیا گیا تھا۔سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جو عورت طوافِ زیارت کے بعد حائضہ ہوئی ہو اس کے لےے جائز ہے کہ وہ طوافِ وداع کےے بغیرمکہ سے چلی جائے۔ رسول اﷲ ﷺ کی طرف سے حائضہ عورتوں کوایسا کرنے کی اجازت تھی۔ (بخاری)
 مدینة النبی ﷺ:حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لاکر رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس کو قبول فرما کر اس طر ح دعا فرماتے : اے اﷲ! ہمارے پھلوں اور پیدا وار میں برکت دے، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیم ؑ تیرے خاص بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم)
ِمسجد نبوی ﷺ: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتا۔“ ( صحیح مسلم) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس نے مسجد نبوی میں مسلسل ۰۴ نمازیں پڑھیں اورایک نماز بھی فوت نہیں کی اس کے لئے دوزخ سے نجات اور نفاق سے برا ¿ت لکھ دی جائے گی۔(مسند احمد، معجم اوسط للطبرانی) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ۔ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ (صحیح مسلم)
 روضہ رسولﷺ: حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جس نے حج کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (شعب الایمان للبیہقی ، معجم کبیر و معجم اوسط للبطرانی)۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگی( ابن خزیمہ، سنن دار قطنی ، بیہقی)۔
مدینہ میں مرنے اور دفن ہونے کی فضیلت:حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو اس کی کوشش کرسکے کہ مدینہ میں اس کی موت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ مدینہ میں مرے۔ میں ان لوگوں کی ضرور شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مریں گے ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)یحییٰ بن سعید انصاری تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر رسول اﷲ ﷺ سے نقل کرتے ہیںکہ رسول اﷲ ﷺ کی موجودگی میںمدینہ کے قبرستان میںکسی میت کی قبر کھودی جارہی تھی۔ ایک صاحب نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسلمان کے لئے یہ اچھی آرام گاہ نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہاری زبان سے بہت بری بات نکلی۔ روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اپنی قبرکا ہونا مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (موطا امام مالک) ٭ ٭ ٭


بیوی نامہ، نئی دنیا میگزین



Saturday 23 June 2012

باتوں سے خوشبو آئے

ایک مثالی خاتونِ خانہ کی باتیں
 باتوں سے خوشبو آئے

 پھولوں میں ویسے تو گلاب اور موتیا اچھا لگتا ہے لیکن شاعرانہ انداز میں کنول کا پھول اچھا لگتا ہے کہ جو کیچڑ میں کھلنے کے باوجود خوبصورت ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ خوبصورتی ایسی جگہ بھی موجود ہوتی ہے جہاں ہماراگمان بھی نہ ہو۔ زندگی کا ایک طویل سفر طے کر لیا اور اب پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جن بچوں کو کل گود میں اٹھاتے تھے آج وہ شادی کے لائق ہو چکے ہیں۔ اب تو میرے ساس بننے کے دن آگئے ہیں۔ جب ہم بہو بن کر آتی ہیں تو اپنی ساس سے توقعات لگاتی ہیں کہ محبت کرنے والی ہوں زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور ہمیں اپنی بیٹی کی طرح سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ میری کوشش ہوگی کہ جو اُمیدیں میں اپنی ساس سے لگاتی تھی اب اپنی بہو کے لئے انہی امیدوں پر پوری اتروں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ساس میری سہیلی۔ میرے حق میں دعا کیجئے کہ میں اپنی پیاری ماں جیسی شفیق اور نرم خو ساس بنوں۔ یہ خوبصورت باتیں ایک ایسی گھریلو خاتون کی ہیں جن کی شادی میٹرک کے فوراََ بعد کردی گئی تھی۔ باقی علم و دانش انہوں نے کتابوں کے مطالعہ اور زندگی کے تجربات سے سیکھا۔ مختلف طبقہ ہائے فکرسے تعلق رکھنے والے درجنوں خواتین و حضرات کی موجودگی میں محترمہ میم جیم  کی آن لائن باتیں پڑھتے ہوئے ایسالگ رہا تھا جیسے ع

رنگ باتیں کرے اور باتوں سے خوشبو آئے

کئی دنوں تک جاری رہنے والے اس مکالمہ میں آپ نے علم و دانش کی بہت سی ایسی باتیں کیں جن سے نئی نسل بالخصوص نوجوان لڑکیوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آئیے محترمہ میم جیم  کی کہانی، انہی کی زبانی سنتے ہیں: بچپن ہی سے کم گو اور سنجیدہ ہوں ۔ جب پرائمری میں تھی تو پہلی اور آخری بار امی سے ایک جھوٹ بولا تھا جسے امی نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ آج جو بوئیں گے ، کل وہی کاٹیں گے ۔ اس لئے اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر آگے کے لئے اچھا سامان بھیجنا چاہیئے۔ کئی سال پہلے سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا ایک ناول ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی“ پڑھا تھا۔ اسے پڑھ کر بہت روئی تھی۔ الحمدللہ میں میوزک کا کوئی شوق نہیں رکھتی ، صرف نعتیں سننے کا شوق ہے۔ کسی قسم کی فلم نہیں دیکھتی اور نہ ایسا شوق ہے ، الحمدللہ۔ اللہ سب کو اس بُرے شوق سے بچائے آمین۔ کبھی کبھی ٹیلی ویژن کے ڈرامے دیکھ لیتی ہوں، حالانکہ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ مجھے گھریلو اور معاشرتی مسائل پر مبنی ڈرامے اچھے لگتے ہیں لیکن جو ڈرامے آج کل چل رہے ہیں ان میں سے تو شاید پانچ فیصدہی ڈرامے معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں دکھاتے ہوں گے ۔ ہمارے ڈرامے اسلامی ثقافت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ ان میں فحاشی ، عریانی اور دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے ڈرامے دیکھ کر معاشرے کے برے کرداروں کو تحریک ملتی ہے اور ان کے اندر جتنی خباثتیں ہوتی ہیں، وہ ظاہر ہوکر باہر ٓآجاتی ہیں۔ اللہ ہم سب کو نفس ا ور شیطان کے شر سے بچائے ۔ آمین۔ شاعری سے کافی لگاؤ ہے۔ اچھی شاعری مجھے متاثر بھی کرتی ہے اور اچھے شاعروں کا کلام پڑھ کر دل خوش بھی ہوتا ہے۔ دوست بنانے میں ہمیشہ کنجوسی کی ، کیونکہ میں بچپن ہی سے کم گو ، سنجیدہ اور بہت لئے دیئے رہنے والی تھی ۔ اسکول کے زمانے میں جو دوست تھیں وہی آج بھی ہیں۔
 ماشاءاللہ میری شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ میرے شوہر بہت محبت کرنے والے اور اپنی فیملی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے ہر وقت میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف یا کمی نہیں ہونے دی الحمدللہ۔ البتہ میں شاید اس انداز سے ان کا خیال نہ رکھ سکی ہوں۔ ازدواجی زندگی میں جب کسی ایک فریق کو کسی بھی بات پرغصہ آجائے تو دوسرے فریق کو مکمل خاموشی اختیار کرلینی چاہئے۔ چاہے اُس کی غلطی ہو یا نہ ہو۔ ہر صورت میں مکمل خاموشی بڑے سے بڑے طوفان کو ٹال دیتی ہے۔ اگر ایک بات کو دونوں ہی انا کا مسئلہ بنالیں تو بات ختم ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلوں میں گنجائش ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ من صمت فقد نجا یعنی جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا (سنن ترمذی۔۱۰۵۲)۔ بالخصوص عورت کو حتی الامکان خلاف مرضی بات پر بھی اپنے شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرکے سب کچھ رب کریم کے سپرد کرکے خاموشی اختیا کرنا چاہئے۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے اپنے مسلمان عورت ہونے پر بہت بہت فخر ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ کسی اورمذہب نے ایسا مقام عورت کو دیا ہی نہیں۔ اور دوسری باعث فخر بات یہ ہے کہ ماں کو جو بلند مقام ملا ہے اس کی وجہ سے بھی مجھے عورت ہونے پر فخر ہے ۔ میرا رواں رواں رب کریم کا شکر گزار ہے کہ اس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔ ہم ساری زندگی اس رب ذوالجلال کے حضور سجدے میں گزار دیں تب بھی اس کا شکر ادا نہ کرسکیں گے۔ الحمدللہ رب العالمین
 
جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے بہت سی روایات اور لوگوں کی عادات بدلتی جاتی ہیں جو کل تھیں وہ آج ناپید ہیں اور جو آج رائج ہیں وہ شاید کل نہ ہونگی۔ یہی ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور شاید صدیوں تک چلتی رہے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے گذرے کل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمارے کل میں زندہ رہیں۔ ہمارے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے ماضی کی طرح زندگی گزاریں۔ لیکن ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھرجب ہمارے بچوں کا دور آتا ہے تو ہم ڈکٹیٹر بن کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی ویسا ہی کریں جیسا ہمارے ماضی میں ہوتا تھا۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر ہم ایسی توقعات کیوں لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں لچک رکھنی چاہئے تاکہ زندگی پرسکون رہے اور ہمارے بچے بھی ہم سے خوش رہیں۔ لہٰذا میں ایسی امیدیں نہیں لگاتی جو کبھی پوری نہ ہوں۔ زندگی کا توازن بھی اسی بات میں ہے کہ ماضی کے بجائے حال میں زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
آپ لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میں نے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ! میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے۔ میں فیصلہ کرنے میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب بھی ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل معاونت حاصل رہی ۔ عید بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے اُن کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن اُن کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ مجھے خریداری کا بالکل بھی شوق نہیں ہے۔ کوئی اگر مجھ سے بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔

 عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ۔ مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا، چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے۔  کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔
 
میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے، اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔ مجھے میرے رب کریم نے اتنا نوازا ہے کہ اب تو دامن بھی تنگ پڑ گیا ہے۔ بے شک میری ہی جھولی تنگ ہے، اللہ کے ہاں کمی نہیں۔ انسان خواہشات کا غلام ہے ، جتنی بھی پوری ہو جائیں پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ یہ نہیں ملا، وہ نہیں ملا۔ ایک قول ہے کہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہوں کی بھی باقی رہتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خواہشات نہیں پالیں اور ہمیشہ اطمینان قلب حاصل رہا الحمدللہ۔ بس پایا ہی پایا ہی کچھ نہیں کھویا۔ ہاں ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزار دی اور اللہ کی بندگی کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکی۔ پتہ نہیں میں رب کریم کو راضی بھی کر سکی ہوں کہ نہیں اور آخرت میں میرا کیا ہوگا۔ جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گی تو میرے اعمال کے پیش نظر جو ہوگا وہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہوں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔ ماضی کو یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے ۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
 
عورتوں پر مردوں کے تشدد کے تو خلاف ہوں لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے پچانوے فیصد واقعات میں کہیں نہ کہیں عورتوں کا قصور ضرور ہوتا ہے ۔ اس بات سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں شتر بے مہار مَردوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہوں۔ مرد کو اللہ نے حاکمیت بخشی ہے تو اس کی حدود بھی مقرر فرمادی ہیں۔ اسی طرح عورتوں کو اگر کمزور بنایا ہے تو ان کے لئے بھی بہت سی رعایتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ شوہر کی اطاعت اور خوشنودی کو ہم پر واجب قرار دیا ہے۔ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کے سواجس کام میں شوہرکی خوشنودی ہو، اس کو کرنا ہم پر واجب اور جس میں ناراضگی ہواس سے بچنا لازم ہے۔ لیکن اکثر ہوتا کچھ یوں ہے کہ کہیں ہماری انا ، کہیں ہمارے والدین کی انا اس کام میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے اور یوں پھر پہلے ایک سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور ہوتے ہوتے یہ جنگ توتکار میں بدل جاتی ہے۔یہ سب مرد کی انا پر کاری ضرب لگاتی ہیں اور پھر یہ سارا لاوا ابل پڑتا ہے۔ مرد اپنی طاقت کے بل پر عورت کو دبانا چاہتا ہے تو عورت اسے اپنی توہین سمجھ کر اپنی صفائیاں دیتی ہے جو مرد برداشت نہیں کرتا ۔ نتیجہ پھر ذہنی جسمانی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم صرف مرد کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ اگر عورت اپنی انا کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے اور شوہر کی خوشنودی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو شوہر کو ہاتھ اٹھانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا ۔ اس طرح صرف خاموشی ہی سے اس تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے اور دوسرا راستہ تو تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ آزمائشوں کی بھٹی میں پک کر ہی کندن بنا جاسکتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے بھی یہی ایک راستہ ہے۔ آج کی تکلیفیں کل کی راحتوں میں بدل جائیں گی انشا ءاللہ
 
مجھے درس و تدریس کا بہت شوق تھا ۔ خیال تھا کہ اسی شعبہ کو اختیار کروںگی لیکن پھر میٹرک کے فوراً بعد ہی شادی ہوگئی۔ مجھے اپنی پیاری امی کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا اور تا زندگی ان کی شخصیت کا عکس میرے دل پر نقش رہے گا۔ کراچی میں تو مجھے بس اپنا گوشئہ عافیت اپنا پیارا گھر سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ساحل سمندر بہت اچھا لگتا ہے ۔ اپنا ملک پاکستان بڑا ہی خوبصورت ہے لیکن ابھی تک اس کی سیر کا ٹھیک سے موقع نہیں ملا ۔ بہت مختصر قیام لاہور، ملتان اور حیدرآباد میں رہا۔ لیکن کراچی تو کراچی ہے اس کے علاوہ کہیں دل نہیں لگتا۔ میرے بچے ماشاءاللہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انکی مطالعہ کی عادت مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اچھائی اور برائی اس دنیا میں موجود ایسی حقیقتیں ہیں کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ہماری آزمائشیں ہیں کہیں ہم اس میں پورے اترتے ہیں اور کہیں ہم شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ہر خاندان میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں ، پہلے کے مقابلے میں اس وقت برائی کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے یا پہلے لوگ ڈھکے چھپے برے کام کرتے تھے اب کھلم کھلا کرتے ہیں۔ بہرحال شیطان کا مکرو فریب تو صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک کے لئے اس کو اللہ نے چھوٹ بھی دی ہے اور طاقت و قوت بھی۔ لیکن جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ اسکے بہکاوے میں نہیں آتے۔ جہاں تک رشتہ داریوں میں دراڑیں ڈالنے والی بات ہے تو شیطان کا محبوب مشغلہ ہی قریبی عزیزوں میں جدائی ڈالنا ہے۔ اور اس کے آلہ کار یہ کام ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں اور خاندانی سیاست کا بازار ہر جگہ گرم رہتا ہے۔ کبھی کوئی اسکا نشانہ بنتا ہے تو کبھی کوئی۔ ہمارا مذہب ہمیں آپس کے میل جول کی تعلیم دیتا ہے اور بنیادی طور پر ہمیں گناہ سے نفرت کا درس دیتا ہے گناہ گار سے نہیں۔ اس لئے ملنا جلنا بھی بہت ضروری ہے۔ لیکن لوگوں سے ملنے ملانے میں احتیاط لازم ہے اور اپنا رویہ بالکل لئے دیئے رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ ہماری کمزوریوں کو پکڑ کر ہمیں بلیک میل نہ کر سکے اور ہماری خامیاں کسی اور کو بتا کر ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے ۔
 
میرا خیال ہے کہ لڑکیوں کو بلا ضرورت ملازمت نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی مجبوری ہو یا معاشی طور پر تنگی ہو تب ایسا کرنا ٹھیک ہے لیکن اگر معاشی الجھنیں نہ ہوں اور بظاہر کوئی مجبوری بھی نہ ہو تو پھر بلاوجہ گھر سے باہر نکل کر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے کیا حاصل ہے؟ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے ، چاہے وہ ماں باپ کا گھر ہو یا شوہر کا ، اسی پر توجہ دینا ہماری زندگی کا نصب العین ہے ۔ شوقیہ ملازمت اختیار کرکے ہم اپنے سر دوہری ذمہ داریاں ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم مردوں سے کسی طور کم تھوڑی ہیں۔ یہی زعم تو معاشرتی بگاڑ کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر لڑکی یا عورت اس زعم میں مبتلا نہیں ہوتی  لیکن اکثریت اس نظریے کی یا تو حامی ہوتی ہے یا پھر یہ معاشرہ اس کو باغی کردیتا ہے تو وہ ایسا سوچنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے لگتی ہے۔ بہرحال کچھ مثبت سوچ کی حامل لڑکیاں اور عورتیں اب بھی ہیں مگر ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ پیشہ ورانہ شعبہ کا چناؤ اور شادی کے معاملات میں بچوں کی رائے اور مرضی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ تاہم اپنے بچوں کو صحیح رہنمائی دینا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ بچے عمر کے جس حصے میں ہوتے ہیں وہاں جذبات زیادہ اور عقل کااستعمال کم ہوتا ہے۔ لہٰذابچوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھا کرانہیں ان کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ آگے جو ان کا نصیب۔ البتہ کچھ جگہ پر بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ حتی الا امکان انہیں سمجھانا ہی چاہئے ۔ والدین نے ایک طویل عمر گزاری ہوتی ہے اور اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جو بھی اپنے بچوں کو سمجھائیں گے، وہ غلط نہیں ہوگا۔ اب یہ بچوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے فیصلوں سے استفادہ کرتے ہیں یا نہیں۔
 
مجھے صبح کا وقت اچھا لگتا ہے اس لئے کہ اس وقت تازگی کا احساس بہت ہوتا ہے۔ جب بہت بوریت ہورہی ہوتی ہے تو کبھی کبھار کوئی سا بھی چینل لگا لیتی ہوں۔ جب سیاستدانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں دیکھوں تو طبیعت اور مکدر ہو جاتی ہے ۔ پھر کسی کتاب کا مطالعہ کرکے یا نیٹ کھول کر اپنا دھیان بٹاتی ہوں۔ ویسے ٹاک شوزمیں سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ہی میں  مصروف ہوتے ہیں۔ قوم کو کیا مسائل درپیش ہیں اس کا تو انہیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ نہ جاننے کا تو ایک ہی دکھ ہے، پر آگہی کے ہزار دکھ ہیں۔ میں کوکنگ شوز شوق سے دیکھتی ہوں اور جو ترکیب اچھی لگے وہ لکھ لیتی ہوں۔ پھراسے آزما کر داد بھی وصول کرتی ہوں۔
 کراچی کے حالات ہوں یا پورے ملک کے، اب ان میں سدھار آنا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ہم دن بدن اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر شخص خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھنے لگا ہے۔ حق لینا تو جانتے ہیں لیکن دینا نہیں۔ ہر برائی کی جڑجھوٹ اوربددیانتی ہے ، جومعاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے۔ اپنے دین کے اصولوں کی خلاف ورزی نے ہمیں کمزور اور رو بہ زوال کر دیا ہے۔ بس اب تو صرف ربِ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ آہ و زاری کی ضرورت ہے کہ وہی ہمیں ان پستیوں سے نکال سکتا ہے۔ عام خواتین ہوں یا مرد ہم سب ایک ہی جیسے تعصب میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے سوا سب کو غلط سمجھتی ہیں۔ یہی عمومی رویہ ہے جو بد امنی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان میں بھی آپس کی محبتیں اور اتفاق سرے سے کہیں نظر نہیں آتا اور چھوٹی چھوٹی باتیں رنجشوں کا سبب بن جاتی ہیں اور پھر مدتوں تک ہم اپنے دل میں عداوتوں کو پالتے رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین
 

موجودہ پود بہت ذہین و فطین ہے۔ میں اپنی نسل سے نئی نسل کا مقابلہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس عمر میں تو ہم بالکل بدھو اور احمق تھے۔ جس عمر میں ہمارے بچے ہم سے دس گنا زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں اور بہتر طریقے سے چیزوں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں ہم تو آج اس عمر میں بھی کورے کے کورے ہی ہیں۔ ویسے ہماری نسل میں سادگی بہت تھی لیکن آج کا زمانہ بہت نمائشی ہو گیا ہے۔ معیارِ زندگی بہت زیادہ بلند ہو گیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس اور خوبصورتی ختم ہو گئی ہے ۔ ہمارے زمانے میں بے شک اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں لیکن رشتوں میں خلوص اور محبت تھی۔ اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کی آسائشیں تو مل گئیں لیکن اخلاص رخصت ہو گیا۔ بھئی کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں زمانے کے چال چلن بہت بدل گئے ہیں اور ایسا تو ہوتا ہی رہے گا ۔ جب تم لوگ ہماری عمروں کو پہنچو گے تو اپنے بچوں سے ایسے ہی کہوگے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اور وہ کہیں گے کہ آپ کا زمانہ اور تھا ہمارا زمانہ اور ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے یہ اسی طرح بدلتی رہے گی جسے لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں ۔ ہماری نسل کے لوگ اس کو اپنی اقدار سے دوری کہتے ہیں۔ پتہ نہیں ہم صحیح ہیں یا ہمارے بچے؟
 
زیادہ بولنے سے صحت پرتو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن خود ہم اپنے الفاظ کے پھیر میں اکثر پھنس جاتے ہیں۔ جب کھانا پکانا نہیں آتا تھا تو بورنگ لگتا تھا لیکن جب سنجیدگی سے سیکھا تو یہی کام اچھا لگنے لگاہے۔ پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادت ہے۔ اصل میں چیزیں سنبھال کر رکھنے سے ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کی یادوں میں رہنا چاہتے ہیں اور پرانی چیزیں ہمیں ماضی کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ جب ہم کئی سال پرانی چیزیں دیکھتے ہیں تو اس سے جڑی کئی خوشگوار باتیں ایک عجیب سی خوشی کا احساس دلاتی ہیں۔ شادی بیاہ میں ایسی کوئی خاص رسم یا چیز نہیں ہے جو نہ ہو تو کوئی بد شگونی کہلائے ۔ اس لئے کہ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں کہ یہ ہو ، وہ نہ ہو۔ جتنی فضول رسموں سے بچیں اتنا ہی اچھا ہے تاکہ کسی پر بلاوجہ کا بار نہ ہو اور کوئی ہماری بے جا خواہشات سے تنگی کا شکار نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں میں آسانیاں بانٹنی چاہئیں تاکہ اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے۔ صفائی والی سے کام کرانے کا گر یہ ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے رہو اور اس کے کاموں پر کڑی نظر رکھو۔  نرمی اور سختی دونوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے اگر صرف نرمی سے کام لیں گے تو وہ آہستہ آہستہ کاموں سے غافل ہوتی جائے گی اور اگر صرف سختی ہی کرتے رہیں تو وہ گھبرا کے کام چھوڑ کر چلی جائے گی لہٰذا کبھی نرم اور کبھی گرم۔
 
شادی جیسے مذہبی فریضہ کو ادا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے۔ قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی۔ عورت چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہوتے ہوئے بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہی کیوں نہ ہو، تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ۔ میری یہ بات آزادی حقوقِ نسواں کی تنظیموں کو بُری لگے گی اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو ان کے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے۔ ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے۔ جیسے  گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ دنیا کی کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے ۔
 
میرے خیال میں لڑکیوں کی شادی کے لئے بہترین عمر بیس سے پچیس کے درمیان ہوتی ہے ۔ اِس عمر سے چھوٹی لڑکیاں ذہنی طور پر ناپختہ ہوتی ہیں تو سسرال کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پاتیں۔ اور قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب کہ بیس تا پچیس برس کی لڑکیوں میں ذہنی طور پر پختگی آجاتی ہے اور وہ سسرال کے معاملات کو اچھے طریقے سے سمجھ لیتی ہیں اور پھر سمجھداری سے اپنے گھر کو چلاتی ہیں۔ ویسے سمجھداری کا تعلق صرف عمر سے نہیں ہوتا بلکہ تعلیم و تربیت بھی اس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم تو ہمیشہ ہی بہت ضروری رہی ہے لیکن آج کے دور میں تو بے حد اہم ہے۔ کم از کم بی اے تو ضرورکرنا چاہئے اور اگر ایم اے کر لیں تو اور بھی اچھا ہے۔ اگر تو لڑکی کی تعلیم ادھوری رہ جائے تو بعد میں اس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اگر دوران تعلیم کوئی اچھا رشتہ آجائے تو باہمی مشاورت سے اس بات پر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تعلیم مکمل ہوجائے یا شادی کے بعد لڑکی اپنی تعلیم مکمل کرلے ۔ لڑکی کی خود اعتمادی کے لئے تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہی ہو، جیسے، طب، انجینئرنگ یا قانون وغیرہ تو میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی اسی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے۔ پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔ اسپیشلائزیشن ، پریکٹس یا کیرئیر میں قدم جماتے جماتے لڑکی کی عمر اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ کبھی قسمت ہی سے کوئی اچھا رشتہ آتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پھر آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اچھے رشتوں کواسپیشلائزیشن یا پریکٹس وغیرہ کا بہانہ بنا کر انکارنہ کیا جائے۔ اللہ کا نام لے کر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہے ۔ البتہ جن لڑکیوں کی کسی بھی وجہ سے شادی نہ ہوسکے توایسی لڑکیوں اور عورتوں کو سماجی بہبود کے کاموں میں تن من دھن سے مشغول ہوجانا چاہئے کہ یہ ہماری زندگی کا بہترین مصرف بھی ہے اور کسی کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ جانا بذاتِ خود بہت بڑی نیکی بھی ہے ۔ ویسے تومعاشرے کے تمام افراد کو بقدرِ استطاعت فلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے لیکن چونکہ شادی شدہ افراد اپنے گھر گرہستی میں جڑ جاتے ہیں تو وہ ذمہ داریاں ان کی پہلی ترجیح بن جاتی ہیں ۔ اس لئے غیر شادی شدہ لوگ اس کام کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں تو اس میں وقت کا زیاں بھی نہیں ہے اور دین و دنیا میں فلاح کا باعث بھی ہے۔
 ( http://www.urduweb.org/mehfil/forumبہ شکریہ ۔ )