Tuesday 21 February 2012

قرآن اورمسلمانوں کا عروج و زوال

قرآن اورمسلمانوں کا عروج و زوال

مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی زبانی کیا خوب بیان کی ہے کہ ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ؛ اور تم خوارہوئے ، تارکِ قرآں ہو کر ۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر من حیث القوم عمل پیرا رہے ، وہ نہ صرف سیاسی طور پردنیا میں عروج پر رہے بلکہ عصری علوم و فنون میں بھی دنیا کے امام بنے اور دنیا کی دیگر اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگا ہوں کا اسی طرح رُخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کے اس عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ مغرب اور یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ’تاریک دور‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہواجب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے ۔ اس کے برعکس تاریخ ہمیں یہ دلچسپ صور تحال بھی بتلاتی ہے کہ مغربی اقوام اُس وقت تک تاریکی میں ڈوبی رہیں جب تک ان کا اپنے مذہب سے تعلق استوار رہا ۔ بعد ازاں مغرب نے اسٹیٹ کے معاملات کوچرچ سے علیحدہ کیا اور اپنے مذہبی معاملات کو چرچ تک محدود کیا تو اُن پر دُنیوی ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔
ماہرینِ دینیات اس بات کو یوں واضح کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے ۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں ۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں ، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ ’ پیغامِ قرآن و حدیث‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ مسلمان ہونے کے دعویدار خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، قرآن و حدیث کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں ۔ وہ ان سے قلبی لگاؤ تورکھتے ہیں مگر بوجوہ انہیں پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ ’پیغامِ قرآن‘ اور ’پیغامِ حدیث‘ کا مجموعہ ’پیغامِ قرآن و حدیث‘ کی صورت میں اس لئے شائع کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عام پڑھا لکھا مسلمان بھی ایک متفقہ و مصدقہ کتاب کے ذریعہ اسلام کی اصل روح سے آگاہ ہو سکے ۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کے مکمل پیغام کو سمونے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کو بحیثیت مجموعی پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہمار ی کامیابی کا دارومدارکتاب و سنت پر عمل کرنے ہی میں ہے ۔
 
دین اسلام بنیادی طور پر صرف کتاب و سنت یعنی قرآن اور حدیث کے مجموعہ کا نام ہے ۔ رسولِ ا کرم ﷺ کے علاوہ دنیا میں کوئی شخصیت ایسی نہیں ہے جس کی ہر بات تسلیم کی جاسکتی ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ائمہ و محدثین نے بھی ہدایت کے اسی چشمہ سے فیض پایا۔ عموماً یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کو براہِ راست سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ یہ بات اللہ کے اس قول کے سراسر خلاف ہے کہ بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنا دیا ہے، پھر ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ (القمر۔ ۱۷)۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو بطورِ خاص ساری انسانیت کے لیے ’’معلم‘‘ بنا کر بھیجا۔ اور آپﷺ ہی سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سارا دین سیکھا۔ لہٰذا ہم بھی قرآن و حدیث سے دین کو براہِ راست سیکھ سکتے ہیں ۔ البتہ اگرکوئی بات سمجھنے میں دقت محسوس ہو تو اصحاب علم سے رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ائمہ اربعہ نے بھی صرف اتباعِ قرآن و حدیث ہی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے ۔

امام ابو حنیفہ
رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۸۰ ھ کوفہ، وفات ۱۵۰ ھ): اگر میری کوئی بات قرآن، حدیث یا قولِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ہو تو میری بات چھوڑدو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۵۰)۔ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے ۔ (درّ المخطار جلد۔ ۱، صفحہ:۶۸) کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ ہمارے قول کے مطابق فتویٰ دے، جب تک اسے معلوم نہ ہو کہ ہمارے قول کا ماخذ کیا ہے ؟(ا لا نتقار فی فضائل ا لثلاثہ و ا لا ئمہ ا لفقہاء لا بن عبد ا لبر، صفحہ: ۱۴۵)
 
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (ولادت۹۳ ھ مدینہ، وفات ۱۷۹ ھ): سر ور کائنات ﷺ کے سوا باقی ہر انسان کی بات کو قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رَد بھی۔ (ارشاد السالک لا بن عبد الہادی۔ جلد۔ ۱، صفحہ۔ ۲۲۷) میری بات غلط بھی ہو سکتی ہے اور صحیح بھی۔ لہٰذا میری رائے کو دیکھ لیا کرو۔ جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے لے لو اور جو کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو اسے ترک کر دو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۷۲)
 
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت۱۵۰ھ غزہ فلسطین، وفات۲۰۴ ھ): جب میری کسی بھی بات کے خلاف رسول اللہ ﷺ کی صحیح ثابت ہو تو حدیث کا مقام زیادہ ہے اور میری تقلید نہ کرو۔ (آدابِ الشافعی و منا قبہ لا بن ابی حاتم الرازی، صفحہ۔ ۹۳)
 
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (ولادت۱۶۴ھ بغداد، وفات۲۴۱ ھ): نہ میری تقلید کرو نہ کسی اور کی بلکہ جہاں سے انہوں نے دین لیا ہے، تم بھی وہاں (یعنی قرآن و حدیث) سے دین حاصل کرو۔ (ایقاظ ھمم اولی ا لا بصار،صفحہ:۱۱۳)۔ دین کے معاملے میں لوگوں کی تقلید کرنا انسان کی کم فہمی کی علامت ہے ۔ (اعلام المواقعین لا بن قیم رحمۃ اللہ علیہ جلد۔ ۲، صفحہ۔ ۱۷۸)
( پیغام قرآن و حدیث کا اداریہ) )

No comments:

Post a Comment