سچ کی صلیب
پہلی کتاب کی اشاعت کو کسی بھی ادیب کی زندگی کا ایک اہم واقعہ قرار دیا
جاتا ہے۔ مثلاً اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہمارا شمار محض "اہل کتاب" میں
ہوتا تھا۔ آج کے بعد سے ہمارا تعارف "صاحب کتاب" کہہ کر کرایا جائے گا۔
گزشتہ دو عشروں کے دوران شائع ہونے والی بہت سی تحریروں میں سے چند منتخب
تحریروں کا انتخاب "یوسف کابکا جانا" کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔
کتاب کا نام دیکھ کر ایک خاتون فرمانے لگیں: مانا کہ آپ کی جملہ تحریریں آپ
کی بکواس ہی کی مانند ہیں۔ مگر اس امر کا برملا اعتراف کرنے کیا ضرورت
تھی۔ اگر میری عزت کا پاس نہیں تو کچھ بچوں ہی کا خیال کیا ہوتا۔ صحافتی
دنیا سے تعلق رکھنے رکھنے والے ہمارے ایک دوست تو بہت دور کی کوڑی لائے۔
کتاب کا سرورق دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمانے لگے : کتاب کا نام آپ نے بہت اچھا
اور معنی خیز رکھا ہے "یوسف کا بکا جانا"۔ مستقبل میں ایسے "واقعات" کی
روک تھام کی غرض سے ہمیں سرورق پر کتاب کے نام کے ساتھ میرتقی میر کے اس
شعر کا حوالہ بھی دینا پڑا' جس سے استفادہ کرتے ہوئے ہم نے اس کتاب کا نام
رکھا ہے۔ کچھ ایسا ہی مسئلہ کتاب کی پروف ریڈنگ
کے دوران ہمارے ایک شاعر دوست کو بھی پیش آیا۔ انہوں نے متن میں ایسے بے
شمار "اغلاط" کی نشاندہی کی، جن کا تعلق "اعراب" وغیرہ سے ہے۔ سو ایسے تمام
قارئین سے پیشگی معذرت جنہیں اب بھی ایسی "اغلاط" کتاب میں جابجا نظر آئیں
گی۔ کیوں کہ کہ کتاب جس کمپیوٹر پر کمپوز ہوئی ہے، اس میں اعراب اور ہمزہ
وغیرہ کی مطلوبہ سہولت موجود نہیں۔
صحافیوں
کے مقابلہ میں ادیبوں کو سچ لکھنے کی نسبتاً زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے ۔
ادب و صحافت کا بیک وقت طالب علم ہونے کے ناطے مجھے سچ لکھنے کی ہمیشہ سے
سہولت حاصل رہی ہے۔ چنانچہ "خبر نویسی" کے دوران نوک قلم سے سرزد ہونے والے
"گناہوں" کا "کفارہ" دیگر اصناف سخن کے ذریعہ کرتا رہا ہوں۔ اس کتاب کے
مندرجات یقیناً میرے اس دعویٰ کی صداقت کی گواہی دیں گے۔
میں اس کتاب کا آغاز اپنی ایک نظم "سچ کی صلیب" سے کرنا چاہوں گا، جو میں کوئی ایک عشرہ قبل کہی تھی۔
سچ کی صلیب
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
یا پھر تم ہی سچے ہوتے
ہم تم میں یہ فرق نہ ہوتا
جھوٹ کی ارضی جنت نہ ہوتی
سچ کی صلیب پہ دنیا نہ چڑھتی
کاش کہ میں بھی جھوتا ہوتا
================
اس جنت سے گو صلیب بھلی ہے
مجھ کو کب یہ تاب ملی ہے
پھر میں کیسے منۃ کو کھولوں
میں جو بولوں، کیسے بولوں
ہمہ تن گوش کیاں کر رہوں میں
کانوں کو جو بند کروں میں
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
================
یارب! یا پھر ایسا ہوتا
گونگا ہوتا، بہرا ہوتا
نہ جھوٹ کی جنت میں جینا ہوتا
نہ سچ کی صلیب پہ مرنا ہوتا
کاش میں گونگا، بہرا ہوتا
==============
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
یا پھر تم ہی سچے ہوتے
ہم تم میں یہ فرق نہ ہوتا
جھوٹ کی ارضی جنت نہ ہوتی
سچ کی صلیب پہ دنیا نہ چڑھتی
کاش کہ میں بھی جھوتا ہوتا
================
اس جنت سے گو صلیب بھلی ہے
مجھ کو کب یہ تاب ملی ہے
پھر میں کیسے منۃ کو کھولوں
میں جو بولوں، کیسے بولوں
ہمہ تن گوش کیاں کر رہوں میں
کانوں کو جو بند کروں میں
کاش کہ میں بھی جھوٹا ہوتا
================
یارب! یا پھر ایسا ہوتا
گونگا ہوتا، بہرا ہوتا
نہ جھوٹ کی جنت میں جینا ہوتا
نہ سچ کی صلیب پہ مرنا ہوتا
کاش میں گونگا، بہرا ہوتا
==============
یوسف کا بکا جانا
غیب
سے مضامین تو ہمارے خیال میں بھی آتے رہتے ہیں جسے ہم قرطاس پر منتقل کر
کے قارئین کے استفادہ کے لئے رسائل و جرائد میں بھیج دیا کرتے ہیں اور پھر
سے خالی الذہن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مضامین کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔
اسی خاطر ہم نے اپنے خیال میں خیال یار کو بھی کم کم ہی جگہ دی ہے چنانچہ
ہمارا ذہن اکثر خالی خالی سا ہی رہتا ہے اور یار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ
ہم کسی کے خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک
درست ہے۔
لیکن
جب کبھی ہم نے نالے کو پابند نے کرنے کی کوشش کی تو ذہن و قلم دونوں نے
ایک ساتھ، ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ امتحانی سوالات کے لگے بندھے اور
خطوط کے رسمی جوابات دینا، نالے کو پابند نے کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ جی
ہاں! کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمیں اس وقت بھی درپیش ہے کہ خواتین میں مقبول،
ماہنامہ "قبول" کی مدیرہ مسئول "مادام سین" کا خط ہمارے سامنے پڑا ہے اور
ہمارے ذہن و قلم کا یہ حال ہے کہ ع
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
بات مولوی مدن کی
مولوی
اور داڑھی لازم و ملزوم ہیں۔ ہر مولوی داڑھی والا ضرور ہوتا ہے حالانکہ ہر
داڑھی والا مولوی نہیں ہوتا۔ مثلاً سکھ اور شیخ صاحب داڑھی ہونے کے باوجود
مولوی نہیں ہوتے کیوں کہ :
بڑھائی شیخ نے داڑھی، گرچہ سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
مولوی
مدن ہوں یا مولوی عبد القدوس، ہمیں تو بس ایک عدد مولوی درکار ہے، جس پر
خاکہ لکھا جا سکے یا بالفاظ دیگر خاکہ اڑایا جا سکے۔ مولوی اور حلوہ دونوں
ایک دوسرے کی وجہ شہرت ہیں۔ مشہور ہے کہ ایک مولوی صاحب کسی کے گھر اس کے
بچے کو قائدہ پڑھاتے ہوئے بولے : ح سے حلوہ۔۔ ہلوہ نہیں حلوہ۔۔ آواز حلق سے
نکالو۔۔۔ حلوہ۔۔۔ اندر زنان خانے سے آواز آئی، مولبی صاب، اب بچے کے حلق
سے تو حلوہ نہ نکالو۔ میں آپ کے لئے اور حلوہ بھجواتی ہوں۔
کبھی
مولوی علم و فضل کی شان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل یہ محض مولانا فضل الرحمن
گردانا جاتا ہے۔ یہ پروفیشنلزم کا دور ہے۔ اس دور میں مولوی وہ واحد
پروفیشنل ہے۔ جو بہت کم پیسوں میں تیار ہو جاتا ہے۔ البتہ ایک مولوی کو
مارنے پر بڑا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ شنید ہے کہ ایک ایک مولوی کو مارنے کے لئے
لاکھوں روپے کی سپاری دی جاتی ہے۔ مولوی جب زیر تربیت ہوتا ہے تو پیسے پیسے
کو محتاج ہوتا ہے لیکن جب یہ کسی مسجد مکتب کی بنیاد رکھتا ہے تو اس پر
پیسہ ہن کی طرح برسنے لگتا ہے۔اور پھر جب یہ پیسوں سے بے نیاز ہو کر اپنے
اصل کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یار لوگ پیسہ خرچ کر کے اسے خرچ کرنے کی
منصوبہ بندی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر ایک مولوی کو مارو تو دس مولوی اور
پیدا ہو جاتے ہیں۔ مولوی کے دشمن کتنے احمق ہیں کہ ایک مولوی کو مار کر دس
مولوی بھی پیدا کرتے ہیں، اپنی عاقبت بھی خراب کرتے ہیں اور مولوی کو مفت
میں شہادت کی سعادت سے بھی نواز دیتے ہیں۔
ہمارے
ہاں کی ریت ہے کہ جب کوئی ناکارہ طالب علم کچھ نہ بن پائے تو استاد بن
جاتا ہے کہ : روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر ع، اسی طرح جب کوئی اولاد
کسی قابل نظر نہ آئے تو والدین اسے مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تاکہ
یہ ازخود کچھ کھا کما سکے۔ حالانکہ تربیتی مدارس میں اسے کھانے کو برائے
نام ہی ملتا ہے لیکن جب مولوی اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو کھانا اس کی
کمزوری بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولوی کی صحت کبھی کمزور نہیں ہوتی ۔ وہ
کھانے کے بعد میٹھا کھانا کبھی نہیں بھولتا، نتیجہ کے طور پر خوب پھلتا
پھولتا ہے۔ ایک اچھا مولوی کھانے کے ذکر سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتا حتیٰ کہ
گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتا۔
ہمارے
معاشرے میں جتنی گالی مولویوں کو دی جاتی ہے اتنی تو شاید شیطان کو بھی
نہی دیجاتی۔ مولوی بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کا جینا اور مرنا سب کھانے سے
منسلک ہوتا ہے۔ یعنی حلوہ اور گالی کھا کر جیتے ہیں تو گولی کھا کر مرتے
ہیں۔ مولوی ہمارے معاشرے کے لئے بڑی رحمت ہیں۔ ناکارہ اولاد کو کھپانا ہو
تو مولوی بنا دو۔ کھانا فالتو ہو تو مولوی کی دعوت کر دو۔ جب کوئی خوف تنگ
کرنے لگے تو صدقہ و خیرات کے نام پر مولوی اور اس کے اداروں کو نواز دو۔
لیکن جب یہی مولوی ہم سے دین کے راستے پر چلنے کا تقاضہ کرنے لگے تو ہم
انہیں گالیاں دینے لگتے ہیں اور مولوی کا اسلام نامنظور کا نعرہ لگاتے ہیں۔
حالانکہ ان بے چاروں کے پاس اتنی صلاحیت کہاں ہوتی ہے کہ اپنا دین وضع کر
سکیں۔ یہ تو بس قال اللہ اور قال رسول اللہ ﷺ کے سہارے گذارہ کرتے ہیں۔ ذرا
سوچیں اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو کیا ہم نعوذ باللہ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ
کو گالیاں دیتے۔ مولوی لاکھ برا سہی لیکن وہ بلاتا تو ہمیں شریعت ہی کی طرف
ہے۔
ہم
مولوی کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مولوی ہمارا۔ بچے کی پیدائش کی
خوشخبری سنتے ہی ہم لڈو کے ساتھ ایک عدد مولوی کا بھی آرڈر دے دیتے ہیں
تاکہ بچے کے کان میں اذان تو دی جا سکے، ہم تو اس کے بھی اہل نہیں۔ کسی
مولوی کی مدد کے بغیر دلہا، سیج تک اور مردہ اپنی قبر تک نہیں پہنچ سکتا کہ
نکاح اور جنازہ پڑھانا صرف ایک مولوی ہی کو آتا ہے۔ اور تو اور صدر مملکت
کی تقریر ہو یا ناچ گانے کا ثقافتی پروگرام، افتتاحی تقریب میں تلاوت کلام
پاک کے لئے کسی مولوی ہی کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ فرمان خداوندی کو ادا کرنے
کا ذمہ دار بھی مولوی ہی قرار پائے اور ہم اس سے مطلقاً بری الذمہ ہوں۔ یا
اللہ اگر ہمارے درمیان مولوی نہ ہوتا ہمارا کیا حشر ہوتا۔ ہم کیسے پیدا
ہوتے اور کیسے مرتے۔ کیا ہمارا آغاز و انجام بھی، ہماری زندگی کے بقیہ عرصہ
حیات کی طرح ملحدانہ ہی ہوتا۔ شکر ہے کہ ابھی ہمارے معاشرے میں مولوی کی
نعمت موجود ہے۔ شکریہ مولوی صاحب بہت بہت شکریہ۔
اداکارہ، اداکاری اور کاری ادا
یہ
ایک اداکارہ ہے۔ اداکاری کے پردے میں کاری ادا دکھانے اور کاری حملہ کرنے
میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر وہیں بسیرا کر
لیتی ہے۔ اور یوں دل اپنی من مانی کرنے پر اتر آتا ہے۔ ان کا حملہ ٹین
ایجرز پر فوری اثر کرتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو بڑھاپے تک اس
کا سحر قائم رہتا ہے۔
اداکارہ
کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر مشہور و معروف
اداکاراؤں نے گھر سے بھاگ کر ہی اپنی اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ
گھریلو رشتے اداکارہ کی اداکاری کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہوتی ہے، جسے
یہ پہلے ہی ہلے میں گرا دیتی ہے۔ کوئی شریف لڑکی اس وقت تک اداکارہ نہین بن
سکتی جب تک وہ شرافت کا لبادہ اتار اور قدرتی رشتوں کو چھوڑ نہیں دیتی۔
ایک وقت تھا جب ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اداکاراؤں کی سپلائی صرف اور
صرف طوائفوں کے کوچہ سے ہوا کرتی تھی مگر شیطان کی کرپا سے اب یہ محتاجی
نہیں رہی۔ ایک فلم ساز جب ایک خوبرو طوائف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو
اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ بھولی طوائف بولی۔ یہاں بڑے
بڑے لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ فلموں میں مجھے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پیچھے
بھاگنا پڑے گا۔ جب اللہ نے مجھے یہاں عزت دولت سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر
میں فلموں میں کیوں جاؤں؟
فلم
یا ڈرامہ کی مرکزی اداکارہ کو ہیروئین بھی کہتے ہیں۔ ان کا نشہ بھی پوست
والے ہیروئین سے کم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر فلم بین کا برانڈ یعنی پسندیدہ
ہیروئین جدا جدا ہوتی ہے۔ پرستار اپنی پسندیدہ ہیروئین کے نشہ میں دنیا و
مافیہا سے بےگانہ ہو جاتے ہیں جبکہ اداکارہ کو خبر ہی نہین ہوتی کہ
کون مرتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک – ع
زیادہ
سے زیادہ ہیرو کے ساتھ کام کرنے والی ہیروئین کی زیادہ سے زیادہ عزت کی
جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں یہ جتنے کم لوگوں سے وابستہ
رہتی تھی، اس کی عزت و توقیر اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ سچ ہے، وقت اور
اسکے اقدار بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بولڈ اینڈ بیوٹی کسی بھی اداکارہ کی دو
بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔ اداکاراؤں کے حوالے سے بولڈنس نسبتاً ایک نئی
اصطلاح ہے۔ قبل ازیں اسے بے شرمی کہا جاتا تھا۔ اداکاراؤں کے پیشے کی ابتدا
ہی شرم و حیا کے لباس کو اتارنے سے ہوتی ہے۔ اور جوں جوں یہ آگے بڑھتی
جاتی ہے، اس کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا
ہے۔ لیکن میرا ایک دوست بالکل الٹ بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس تیزی سے
ایک اداکارہ کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا
ہے، وہ اسی تیزی سے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لباس کے بارے میں اداکارائیں
بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ لباس قدرتی لباس ہے۔ اس لباس میں ان کی
اداکاری کی مانگ اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اداکارائیں شادی کو اپنے
کیرئیر کی تباہی اور طلاق کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہیں۔ اسی لئے اداکارائیں
شادی سے کم اور طلاق سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔
کوئی
اداکارہ اس وقت تک پرفیکٹ ایکٹریس نہیں کہلاتی جب تک وہ محبت کے مناظر کی
عکاسی کروانے میں مہارت نہ حاصل کر لے۔ یعنی ایسے مکالمے و افعال جو ایک
شریف زادی صرف اپنے بیڈ روم میں اور اپنے سر کے تاج کے سامنے، یا ایک طوائف
زادی اپنے کوٹھے کی چہار دیواری کے اندر صرف اپنے گاہک کے سامنے انجام
دیتے ہوئے بھی شرما جاتی ہے۔ اسے ایک اداکارہ چکاچوند روشنی میں بہت سے
لوگوں کی موجودگی میں اس خوبصورتی اور بولڈنس یعنی بے شرمی کے ساتھ ریکارڈ
کرواتی ہے کہ اس کی ہر ادا، جسمانی خد و خال اور نشیب و فراز تمام باریکیوں
کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر ان کے پرستار محظوظ اور
ہیروئین کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔
ایک
کامیاب اداکارہ صرف لوسین ہی نہیں بلکہ اینٹی لو سین میں بھی مہارت رکھتی
ہے۔ جہاں یہ بہ رضا و رغبت اپنے پورے جسم کو پیش کرنے میں رتی بھر بھی نہیں
ہچکچاتی وہیں یہ ولن کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے تمام مراحل کو بڑی
تفصیل سے پیش کرنے میں بھی یکساں مہارت رکتھی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں اپنے
پرانے پیشے میں کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو وہ اسے اپنے پالتو غنڈوں سے
یا سرکاری اہلکاروں سے پٹوا دیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جسم فروش کواتین نے
خود کو بیچنے کا آغاز ناچ گانے سے کیا تھا۔ پہلے یہ امراء کے لئے مجرا کیا
کرتی تھیں۔ بعد ازاں عوام کی خاطر گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی۔ مجرا یا
تو امراء کی کوٹھی پر ہوا کرتا تھا یا طوائف کے کوٹھے پر۔ عوام کے لئے
گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے
بخاری نے جب ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام کا آغاز کیا تو پہلے پروگرام کی
بکنگ کے لئے وہ خود بہ نفس نفیس طوائفوں کے کوٹھے پر گئے تھے۔ بعد ازاں
ریڈیو پاکستان اس معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ ریڈیو سے تربیت
یافتہ گلوکاراؤں کو ٹی وی اور فلم کے لئے ایکسپورٹ بھی کرنے لگا۔ آج
پاکستان دنیا بھر کو بالعموم اور مڈل ایسٹ کو بالخصوص بولڈ اینڈ بیوٹی وافر
تعداد و مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور خاصہ زرمبادلہ کماتا ہے۔
اداکارہ
چھوٹی ہو یا بڑی، سب کی منزل ایک ہوتی ہے۔ قدآور اداکارہ وہ کہلاتی ہے جو
اپنے قد و قامت اپنے کپڑوں سے باہر نکال سکے۔ اداکاراؤں کا کوئی دین، کوئی
نظریہ یا کوئی کیریکٹر نہیں ہوتا سوائے فلمی کیریکٹر کے۔ یہی وجہ ہے کہ
اداکارہ ایک فلم میں جسے بھائی بناتی ہے، اگلے فلم میں اسے پریمی یا شوہر
بناتے ہوئے کوئی عار نہیں ہوتا۔ ایک اداکارہ سین کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا
اپنا دھرم اور ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ سین اس کے اپنے دین دھرم کے خلاف
ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اداکارہ پہلے مسلمان ہو ہندو ہو یا
عیسائی، اداکاری کے شعبہ میں داخل ہونے کے بعد صرف اور صرف اداکارہ رہ جاتی
ہے۔ لہذا کسی اداکارہ کے کسی بھی فعل کو کسی دین دھرم بالخصوص اسلام کے
حوالے سے تو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جاوید شیخ نے کیا
خوب کہا تھا کہ فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے آپ اسلام کی بات نہ کیا کریں۔
اسلام کا فلم سے یا فلم کا اسلام سے کیا تعلق۔
کہتے ہیں کہ جہنم میں عورتوں
کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً وہاں اداکاری کرنے والی
عورتوں ہی کی بہتات ہو گی۔ خواہ ایسی عورتیں ڈراموں اور فلموں میں اداکاری
کرتی رہی ہوں یا گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ اچھے وقتوں میں جب کوئی
غلط کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا تھا تو لوگ خوش گمانی کے تحت کہا کرتے
تھے کہ زیادہ اداکاری نہ کرو اور سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔ اب یہی اداکاری
بولڈنس یعنی بے حیائی کے ساتھ ایک پیشہ بن چکی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو
اداکارہ کی اداکاری اور اس کی کاری ادا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(باقی مضامین حصہ دوم میں ملاحظہ کیجئے)
No comments:
Post a Comment