پہلا کالم
قارئین
کے پُرزور اصرار پر – زور کس پر ہوا "اصرار" پر۔ اور اصرار کس بات پر ہے
یہ ہم بتلانے سے سختی سے انکار کرتے ہیں۔ ہاں تو قارئین کے پُرزور اصرار پر
ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بھی اب باقاعدگی سے کالم لکھا کریں گے۔ اور
ہماری تحریروں کے جملہ حقوق ہمارے ہی نام محفوظ ہونگے۔ اس میں ہمارے علاوہ
کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت صرف اسی حد تک ہو گی جس حد تک وہ ہمارے لئے
سود مند ہو۔ مثلاً مدیر محترم کو ہمارے اس کالم سے استفادہ کرنے کی اجازت
صرف اس لئے ہو گی کہ وہ اسے "او کے" کر سکیں۔ کاتب صاحب صرف اس بنیاد پر
اسے ہاتھ لگا سکیں گے کہ ہاتھ لگائے بغیر وہ کتابت جو نہیں کر سکتے۔ پروف
ریڈر صاحب اپنی عینک کی اوٹ سے محض اس بنا پر ہمارے کالم پر نظر عنایت
فرمانے کے اہل ہوں گے کہ وہ اس کی نوک پلک درست یا غلط (حسب ضرورت و حسب
منشاء) کر سکیں۔ اس کے علاوہ کسی اور کو ہمارے اس کالم میں دخل در معقولات و
نامعقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ ہاں بلا اجازت وہ سب کچھ کر سکتے
ہیں۔
قارئیں
کرام! کالم لکھنے کی ذمہ داری تو ہمارے قلم ناتواں پر ہو گی، لیکن پڑھنا
آپ کا کام ہو گا یعنی لکھے عیسیٰ پڑھے موسیٰ – ہاں! اس سلسلے میں نہ آپ کو
مجھ سے پوچھنے کی اجازت ہو گی کہ میں یہ کالم کس سے لکھواتا ہوں، نہ ہی میں
آپ سے یہ دریافت کرنے کی جرات کروں گا کہ آپ کالم کس سے پڑھوا کر سنتے
ہیں۔ البتہ جب کبھی ہمارا دل لکھتے لکھتے اکتانے لگے (یا بالفاظ دیگر کالم
لکھ کر دینے والا بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر کبھی کالم لکھ کر دینے سے
انکار کر دے) اور آپ کالم دیکھ کر ہی بوریت محسوس کرنے لگیں (مطلب یہ کہ
کالم پڑھ کر سنانے والا پڑھنے کے بعد بوجوہ سنانے سے انکار کر دے) تو ہم
اپنے فرائض آپس میں بدل بھی سکتے ہیں۔ ہم بلا تکلف اسے اپنے نام نامی اسم
گرامی کے ساتھ اس کالم میں شائع کر کے پڑھ یا پڑھوا لیا کریں گے۔
قبل
اس کے کہ ہمارا کالم منظر عام آ کر دنیائے علم و ادب پر چھا جائے، ہم
ضروری سمجھتے ہیں کہ چند باتیں کالم سے متعلق، متعلقین سے کرتے چلیں۔ سب سے
پہلے ہم کاتب محترم سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہم کراماً کاتبین کے بعد
انہین سے ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہی کی برادری کی شوخئی طبع کے باعث ہمارے ساتھ
اکثر ع
ہم دعا (غیر منقوط) لکھتے رہے وہ دغا (منقوط) پڑھتے رہے
کا
سا معاملہ رہا ہے۔ کاتب محترم سے ہماری دو گزارشات ہیں اول تو یہ کہ وہ
گھر سے دفترجانے سے کچھ دیر پہلے ہمارا کالم تحریر کرنے سے گریز فرمایا
کریں۔ کیونکہ قلم قبیلہ والے بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسا کرنے سے کالم پر
درون خانہ کے سیاسی حالات کی چھاپ پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اور ہم سیاست سے
ویسے ہی دور بھاگتے ہیں جیسے بی سیاست بی شرافت سے دور بھاگتی ہے۔ دوسری
بات یہ کہ ہمارے تحریر کردہ لفظوں بلکہ نقطوں تک کے ہیر پھیر سے گریز کیجیے
گا۔ کیونکہ ع
نقطوں کے ہیر پھیر سے خدا بھی ہوتا ہے جدا
ہم
تو کسی شمار قطار میں بھی نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ذرا سھی بھول سے
یوسف ثانی یوسف آنجہانی ہو جائے۔ نتیجتاً آپ کے پاس تعزیتی پیغامات کی
بھرمار ہو جائے جسے کتابت کرتے کرتے خود آپ کے اپنے تئیں تعزیت کرنے کی
نوبت آن پہنچے۔ علاوہ ازیں کالم کے لفظوں اور سطور کے درمیان ہمیشہ مناسب
جگہ چھوڑا کیجئے گا کہ ہم بین السطور بھی بہت کچھ کہنے کے عادی ہیں۔ ایسا
نہو ہو کہ ہم بین السطور کچھ کہنا چاہیں اور آپ سطور کے درمیان کچھ کہنے کے
لئے جگہ ہی نہ چھوڑیں۔
پروف
ریڈر صاحبان سے بس اتنا کہنا ہے کہ اس کالم کی کتابت کے لئے ہدایت نامہ
کتابت کروا کر ہم کاتب محترم کے حوالے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آپ کتابت شدہ
مواد کی اصلاح کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا۔ اگر کوئی جملہ یا لفظ مہمل نظر
آئے یا آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ زیر نظر تحریر تجریدی
ادب کا نمونہ ہے۔ عنقریب آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارا ہر کالم
تجریدی ادب کا شاہکار ہوتا ہے۔ اگر آپ کے وسائل اجازت دیں تو آپ اپنے خرچ
پر ہمارے تجریدی کالم پر مذاکرہ یا سیمینار وغیرہ منعقد کروا کر علم و ادب
کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی خدمت بھی کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو
گا۔ یہ پیش کش لامحدود مدت کے لئے اور سب کے لئے ہے۔ آخر میں ایک بات ہم آپ
کو چپکے سے بتاتے چلیں کہ یہ ساری باتیں ہم نے آپ سے نہیں بلکہ کسی اور سے
کہی ہیں۔ بھئی دیکھیں نا! اگر ہم ان سے یہ باتیں براہ راست کہیں تو پھر
ہمارا کالم کون چھاپے گا۔
اللہ
نہ کرے کبھی سنسر بورڈ کی نظر ہمارے کالم پر پڑے تاہم حفظ ماتقدم کے طور
پر ہم سنسر بورڈ کے معزز ارکان سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کالم کی روز
افزوں مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر اگر حکام بالا ہمارے کالم کو سنسر کرنے کا
خیال ظاہر کریں تو بورڈ ہمیں اردو لغت کی ضخیم سی جلد (جس میں قابل اعتراض
لفظوں کو سنسر کر دیا گیا ہو) پیشگی ارسال کرے۔ آئندہ ہم اپنا کالم اسی جلد
کے سنسر شدہ الفاظ سے تحریر کیا کریں گے۔ اس طرح آپ پڑھنے کی زحمت سے بھی
بچ جائیں گے اور کالم سنسر (یعنی سیلف سنسر) بھی ہو جایا کرے گا۔ سیاست تو
خیر ہمارا موضوع ہے ہی نہیں۔ البتہ ہم آپ سے یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ ہمارا
کالم فحاشی سے بھی پاک ہو گا۔ ہم "دلبرداشتہ" جیسے الفاظ کو ہمیشہ واوین
بلکہ خطوط وحدانی کے اندر لکھا کریں گے تاکہ آپ غلطی سے بھی ایسے الفاظ کے
بیچ وقف کر کے اسے فحش نہ قرار دے بیٹھیں۔
چلتے
چلتے ہم مشتہرین حضرات کو بھی مطلع کرتے چلیں کہ وہ ہمارے کالم کی مقبولیت
سے جائز و ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے کالم کے بیچ یا آس پاس اپنے
اشتہارات شائع کروانے سے گریز کریں۔ اور اگر اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے
ایسا ناگزیر ہو تو شعبہ اشتہارات کے بعد ہم سے بھی رجوع کریں تاکہ حسب
ضرورت ان کی جیب ہلکی اور اپنی جیب بھاری کر کے ملکی اقتصادی توازن کو
برقرار رکھا جا سکے۔
لب چھڑی
یہ
کیا ہے؟ یہ لب چھڑی ہے۔ اسے لب چھڑی کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے کہ یہ لب چھڑی
ہے۔ اسے عرف عام میں جی ہاں انگریزی زبان میں لپ اسٹک کہتے ہیں۔ یہ
اسم بامسمی صرف اس حد تک ہے کہ اگر ممی کا پرس گڈو پپو کے ہاتھ لگ جائے تو
وہ پرس میں موجود درجن بھر لب چھڑیوں کو ریل کے ڈبوں کی طرح جوڑ کر ایک
چھڑی کی صورت دینےمیں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لب
چھڑیوں کی مارکیٹ ویلیو اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہ
مکمل طور پر اسم بامسمی بن جائے گی۔ یہ ایک کارآمد شے ہے۔ بقول شاعر،
خواتین اسے اپنے نازک ہونٹوں کو گلاب جیسا بنانے کے لئے استعمال کرتی ہیں
جب کہ مرد حضرات اس سے بچوں کی کاپیاں چیک کرنے کا کام لیتےہیں۔ آخر خواتین
بھی تو شیونگ بلیڈ سے پنسلیں بنانے کا کام لیتے ہیں۔
آثار
قدیمہ کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ابتدا میں لب چھڑی صرف سرخ یا گلابی
رنگ کی ہوا کرتی تھی۔ ثبوت کے طور پر وہ مقبرہ کتب (جسے کتب خانہ بھی کہا
جاتا ہے) میں مدفون کتابوں کے وہ بوسیدہ اوراق پیش کرتے ہیں جن کے بیشتر
اشعار میں ہونٹوں کو (غلطی سے ہی سہی) گلاب وغیرہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مگر
آج کے سائنٹیفک دور میں یہ ہر رنگ میں دستیاب ہے اس سے خواتین کو بڑی سہولت
ہو گئی ہے۔ درس گاہ ہو یا بازار گھر ہو یا موٹرکار خواتین ضرورت کے مطابق
سرخ، سبز یا زرد رنگ کے شید استعمال کر سکتی ہیں۔ اور آج کے موٹر گاڑیوں کے
اس دور میں کون ایسا بھولا ہے جو ان رنگوں کا "مفہوم" نہ سمجھتا ہو۔
بعض
رجعت پسند حضرات (خواتین نہیں) لب چھڑی کا شمار سامان تعیش میں کرتے ہیں،
مگر اس سے متفق نہیں۔ ہمارے خیال میں یہ خواتین کی بنیادی ضرورتوں میں سے
ایک ہے۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہنے کی جرات کریں گے کہ لب چھڑی کے بغیر صنف
نازک کی پہچان تک مشکل ہے۔ اب آپ ہی دیکھئے۔ دور حاضر میں تراش خراش (زلف و
لباس دونوں) چال ڈھال اور شکل و صورت کے لحاظ سے تو دونوں اصناف میں کوئی
فرق نہیں رہا۔ لب چھڑی ہی وہ واحد چھڑی ہے جس کا استعمال، تا دم تحریر صنف
قوی نہیں کرتی۔ ہم لب چھڑی کے موجد کی روح کو دعا دیتے ہیں کہ اس نے لب
چھڑی ایجاد کر کے ہمیں ایک بڑی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ آج ہم بلیک اینڈ
وہائٹ اور کلرڈ ہونٹ دیکھ کر ہی اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جس ہستی
سے ہم محو گفتگو ہیں اس کا تعلق کس صنف سے ہے۔
اگر
مضمون ہذا کی اشاعت کے بعد خواتین لب چھڑی کا استعمال ترک بھی کر دیں تو
اس سے اس کی افادیت اور مانگ میں کمی نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس صورت میں بھی
سادہ اور رنگین لب دونوں اصناف کے درمیان وجہ امتیاز بنے رہیں گے۔ فرق صرف
یہ ہو گا کہ رنگین لب کے تصور سے ہمارے ذہنوں میں صنف قوی کا خیال آیا کرے
گا۔
ابھی
ہم رنگ برنگ لپ اسٹکس کے تراکیب استعمال پر غور و فکر کرتے ہوئے مندرجہ
بالا سطور لکھ ہی پائے تھے کہ لب چھڑی سے متعلق ایک اہم خبر درآمد ہوئی، جس
نے متذکرہ بالا تراکیب کو بیک خبر کالعدم کر دیا۔ سات سمندر پار سے خبر
موصول ہوئی ہے کہ سائنس دان ایک ایسی لب چھڑی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے
ہیں جو انسانی (مطلب یہ کہ نسوانی) جذبات کی عکاسی کیا کرے گی۔
ہم
جب مختلف قسم کے جذباتی قسم کیفیات سے گزرتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہمارا
دوران خون گھٹتا بڑھتا ہے بلکہ ہمارے جسم کی بیرونی جلد پر مخصوص کیمیاوی
تبدیلیا بھی واقع ہوتی ہیں۔ انہی کیمیاوی تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس دانوں نے جدید لپ اسٹکس میں ایسی کیمیاوی اشیاء
شامل کر دی ہیں جو جلدی کیمیاوی تبدیلیوں کے زیر اثر اپنا رنگ تبدیل کر
لیتی ہیں۔ اور رنگوں کی یہ تبدیلی مستقل نہیں بلکہ گرگٹ کی طرح تغیر پذیر
ہوتی ہے۔ یعنی اب ہمیں خاتون خانہ کے موڈ کو سمجھنے کے لئے فقط ان کے
ہونٹوں کا رنگ دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ رنگ ڈھنگ دیکھنے کی قطعی ضرورت نہیں
پڑے گی۔
ابھی
تو یہ لپ اسٹکس تجرباتی بنیاد پر تیار کی گئی ہے جب یہ تجارتی بنیادوں پر
تیار ہو کر گھر گھر پہنچ جائے گی تو کیا صورت حال پیش آئے گی۔ ملاحظہ
فرمائیں : صاحب خانہ گھر میں داخل ہوتے ہیں کہ گڈو "ابو آ گئے! ابو آ گئے!"
کہتا ہوا لپٹ جاتا ہے۔ "بیٹے! آپ کی امی کہاں ہیں؟"۔۔۔ "ابو ابو آج گھر
میں کچھ ہونے والا ہے۔ صبح سے امی کے ہونٹوں کا رنگ مستقل بدل رہا ہے۔" ممی
کی آہٹ سن کر ابو کی گود میں چڑھتے ہوئے۔ "ابو مجھ تو ڈر لگ
رہا ہے "۔۔۔ " ارے آپ؟ کب آئے؟ اور یہ گڈو جوتوں سمیت آپکی گود میں۔۔۔؟
"۔۔۔ بھئی تمہارے ہونٹوں کا رنگ تو بڑا خوشگوار ہے، گڈو تو بڑا سہما ہوا
تھا۔ کہہ رہا تھا کہ صبح سے ممی کے ہونٹوں کا رنگ۔۔۔" "۔۔۔ اس گڈو کے بچے
کو تو ۔۔۔ بس ۔۔۔ بیگم ۔۔۔ بس۔۔۔ دیکھو!۔۔۔ دیکھو! پھر تمہارے ہونٹوں
کا رنگ۔۔۔
قربانی کے بکرے
ان سے ملئے یہ ہیں قربانی کے بکرے۔ معاف کیجئے گا آپ غلط سمجھے۔
یہ
محاورے والے بکرے نہیں ہیں، بلکہ سچ مچ کے قربانی کے بکرے ہیں۔ اسی لئے تو
یہ ہشاش بشاش نظر آ رہے ہیں۔ یوں تو یہ سارا سال انسانی ضرورتوں کی قربان
گاہ پر قربان ہونے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر عید قربان پر ان کی شان ہی کچھ
اور ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے دام یوں آسمان سے باتیں کرنے لگتے
ہیں جیسے یہ زمینی مخلوق نہ ہوں بلکہ آسمانی مخلوق ہوں بلکہ دیکھا جائے تو
یہ ایک طرح سے آسمانی مخلوق ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی راہ میں قربان ہونے کے
فوراً بعد ان کی حیثیت آسمانی ٕمخلوق سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
اب
ان سے ملئیے۔ جی ہاں یہ بھی قربانی کے بکرے ہی ہیں۔ معاف کیجئے گا آپ پھر
غلط سمجھے۔ یہاں میری مراد محاورے والے بکروں سے ہے۔ مگر یہ کسی طرح بھی
اصلی بکروں سے کم نہیں ہوتے بلکہ دیکھا جائے تو کسی حد تک ان کی حیثیت اصلی
بکروں سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات دنیا کے بازار میں ان
کی قیمت ایک بکرے سے بھی کم لگائی جاتی ہے۔
آج
کل تو بازار مصر شہر شہر قریہ قریہ لگا ہوا ہے۔ سماج کے ان نام نہاد
بازاروں میں راقم جیسے نہ جانے کتنے یوسف قربانی کے بکروں کی مانند، بلکہ
بکروں سے بھی سستے بک رہے ہیں، کوئی اف تک کرنے والا نہیں۔ قربانی کے ایک
بکرے (اصلی والے) سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ بھئی کیوں قربان ہوتے ہو تو
موصوف پہلے تو مسکرائے پھر گویا ہوئے ہم تو ہیں ہی قربانی کے بکرے۔ ہم اگر
قربان نہ ہوں گے تو کیا حضرت انسان خود اپنے آپ کو قربان کرے گا؟ ہم تو
حضرت انسان کو قربانی سے بچانے کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیتے ہی مگر یہ
ناقدرے پھر بھی ہماری قربانی کو خاطر میں نہیں لاتے اور چند ٹکے خرچ کر کے
یہی کہتے پھرتے ہیں کہ قربانی تو ہم نے دی ہے۔
قربانی
کے بکرے کی یہ بات سن کر صاحب بکرا یعنی محاورے والے بکرے۔۔۔ حضرت انسان
برہم ہو گئے۔ کہنے لگے صاحب! قربانی کے اصل بکرے تو ہم ہیں جو گود سے گور
تک قسطوں میں خود کو قربان کرتے رہتے ہیں۔ یہ چار پاؤں والے بکرے تو زندگی
میں صرف ایک مرتبہ قربان ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ مگر دیکھئے نا ہمیں ہر
لمحہ کسی نہ کسی چیز کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ہر آن قربان ہوتے رہتے ہیں۔
سماج کی قربان گاہ پر ہمیں ہر لمحہ مار کر دوسرے لمحہ زندہ کر دیا جاتا ہے
تاکہ تیسرے لمحہ پھر مارا جا سکے۔ مارنے اور جلانے کا یہ سلسلہ جاری رہتا
ہے تاوقتیکہ فرشتہ اجل تقدیر کی قربان گاہ پر ہمیں قربان کرنے چلا آتا ہے۔
اب آپ ہی بتائیں کہ قربانی کا اصل بکرا کون ہے؟ چار ٹانگوں والا بے زبان
بکرا یا یہ دو ٹانگوں پر چلنے والا حیوان ناطق۔
باتوں ہی باتوں میں
دو
افراد باتوں ہی باتوں میں ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ ایک نے غصہ میں آ کر
دوسرے سے کہا کہ تم تو بلکل گدھے ہو۔ دوسرے نے کہا گدھے تو تم ہو۔ بس پھر
کیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گدھا ثابت کرنے کے لئے گدھے پن کا ثبوت
دینا شروع کر دیا۔ پہلا فرد غصہ کو کم کرتا ہوا بولا چلو ایسا کرتے ہیں کہ
ووٹنگ کرا لیتے ہیں۔ جسے زیادہ ووٹ ملے گا اصل میں وہی گدھا ہو گا۔ دوسرا
بولا کرا لو ووٹنگ ابھی فیصلہ ہوا جاتا ہے کہ کون گدھا ہے۔ پہلا گویا ہوا
تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں "گدھے ہونے" کے امیدوار ہیں۔ اور جسے زیادہ ووٹ
ملے وہی گدھا ہو گا، تمہیں منظور ہے نا؟ دوسرے فرد کے اقرار پر پہلے شخص
نے جلدی سے کہا تو پھر ٹھیک ہے میں اس مقابلے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اب تم
بلا مقابلہ گدھے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ رفوچکر ہو گیا۔
دیکھا
آپ نے ووٹنگ کا کمال یعنی اس میں بڑے بڑے گدھے بھی منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ
بلا مقابلہ منتخب ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر بڑے بڑے ۔۔۔ ۔۔۔
ہر دم انتخابات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ وہ بھی منتخب ہو جائیں۔
گدھے کے تذکرے پر یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جا
رہا تھا۔ صاحب بہادر نہ جانے کسی بات پر مسلسل انکار کئے جا رہے تھے اور
میں انہیں منانے کی کوششیں کر رہا تھا۔ آخرکار میں نے ترپ کا پتہ پھینکتے
ہوئے کہا۔ تم میری اتنی سی بات بھی نہیں مانتے حالانکہ میں تو تمہیں اپنے
بھائیوں کے برابر عزیز رکھتا ہوں۔ موصوف تقریباً رضامند ہوتے ہوئے بولے :
واہ صاحب! یہ اچھی رہی۔ جب تمہیں کوئی بات منوانی ہو تو فوراً بھائی بنا
لیتے ہو۔ میں نے کہا میرے بھائی! لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بھی بنا
لیتے ہیں۔ میں نے تو صرف بھائی بنایا ہے۔ بس موصوف دوبارہ ناراض ہو گئے اور
اب تک ناراض ہیں۔ پتہ نہیں کیوں؟
ویسے
ناراض ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی ہے۔ لوگ تو ذرا ذرا سے بات پر ناراض ہو
جاتے ہیں۔ اب پچھلی عید کی بات ہے ہم نے سوچا چلو کچھ نہیں تو جوتے ہی سہی۔
چنانچہ ایک جوتے کی دکان پر پہنچ گئے۔ سیلزمین نے کئی خوبصورت جوتے دکھائے
جو قیمت معلوم ہوتے ہی ہمیں ناپسند آنے لگتے۔ جوتوں کا ڈھیر لگ گیا مگر
ہمیں کوئی جوتا پسند ہی نہیں آ رہا تھا کہ پسندیدگی کے لئے جیب کی پیشگی
اجازت ضروری تھی۔ چنانچہ ہم جب بکھرے ہوئے لاتعداد جوتوں پر ناپسندیدگی کا
اظہار کرتے ہوئے اٹھنے لگے تو سیلزمین گویا جوتے مارتے ہوئے بولا، صاحب!
اتنے جوتے پڑے ہیں لیکن آپ اب بھی مطمئن نہیں۔ ہم نے فوراً خود کو سنبھالا
اور سیلزمین کی دیکھتے ہوئے خوبصورت سے بارہ سو روپے والے جوتے پہن لئے۔
سیلزمین اپنی اس کامیابی پر مسرور نظر آنے لگا۔ ہم نے جیب سے بٹوا اور بٹوے
سے پانچ سو روپے کا اکلوتا نوٹ نکالتے ہوئے کہا۔ یہ پانچ سو روپے لیتے ہو
یا اتاروں جوتا؟
آگے
کا احوال کیا بیان کریں۔۔۔ جی ہاں مجبوراً مجھے جوتا۔۔۔ اب دیکھیں نا! جنگ
محبت اور مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے نا؟ آپ محبت سے مجبور ہوں یا
مجبوراً محبت کر رہے ہوں ہر دو صورتوں میں نتیجہ عموماً ایک ہی نکلتا ہے۔
مثلاً اس محفل ہی کو لے لیجیے جس میں ایک شمع محفل ہیروں کے زیورات سے سجی
دیگر تمام خواتین و حضرات کی نگاہوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔ ایک خاتون تو
اپنے شوہر کے سر ہو گئیں کہ مجھے بھی ایسا ہی سیٹ لا کر دو۔ شوہر نے
سمجھایا اری نیک بخت پاگل ہوئی ہے کیا؟ تمہیں کچھ اندازہ ہے یہ کتنا قیتی
ہے؟ بیوی بولی مجھے کیا پتہ؟ اچھا چلو اس سے پوچھ لو کہ کتنے میں خریدا ہے؟
شوہر نے لاکھ سمجھایا کہ یہ آداب محفل کے خلاف ہے، لوگ کیا کہیں گے۔ مگر
خاتون نہ مانیں۔ مجبوراً صاحب بہادر مذکورہ خاتون کے قریب پہنچے۔ سب کی
نظریں ادھر ہی جم گئیں کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ صاحب بہادر نے خاتون کے
قریب جا کر کہا ایکسکیوزمی پلیز! کیا آپ یہ بتانا پسند کریں گے کہ یہ سیٹ
آپ نے کتنے میں خریدا ہے؟ پہلے تو خاتون نے اسے سر تا پا گھور کر دیکھا مگر
محفل کا رنگ انہماک دیکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا "نیویارک سے
خریدا ہے ڈھائی ہزار ڈالر میں آیا تھا" قیمت سن کر صاحب بہادر کے ہوش اڑنے
ہی والے تھے کہ انہوں نے خود کو سہارا دیا اور یہ کہتے ہوئے پلٹ پڑے کہ مگر
اتنے میں تو نیا سیٹ مل جاتا ہے۔
***
کرفیو اور اہل کراچی
اہل
کراچی اب کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء
سے۔ اگر ہمارے پاکستانی بھائی تھوڑا عرصہ بھی مارشل لاء کی چھتری سے باہر
گزار لیں تو ان کی طبعیت ناساز ہو جاتی ہے۔ اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتے
مارشل لاء کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے اگر حالات یہی
رہے تو نئے مارشل لاء کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری طرف سے تسلی دی
جاتی ہے کہ نہیں فی الحال مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں۔ اور تیسرے ہی دن یہ
اطلاع آتی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے ملک میں
مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔
بات
ہم کرفیو کی کر رہے تھے کہ یہ مارشل لاء نہ جانے کہاں سے ٹپک پرا۔ ویسے
بھی مارشل لاء عموماً ٹپک ہی پڑتا ہے۔ یہ کبھی "تھرو پراپر چینل" نہیں آتا
لہذا سطور بالا میں اس کے اس طرح ٹپک پڑنے کو اس کی عادٹ ثانیہ جانتے ہوئے
ہم درگزر کرتے ہیں۔ اور اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہاں اب تو اہل کراچی
کرفیو سے اس طرح مانوس ہو گئے ہیں جیسے۔۔۔۔ ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اب اہل
کراچی کرفیو سے ذرا بھی نہیں گھبراتے بلکہ اسے "معمولات" میں تصور کر کے
اپنے معمولات زندگی میں مصروف رہتے ہیں۔ حالانکہ کرفیو تو پھر کرفیو ہے۔
کسی زمانے میں محض مارشل لاء کی بھی بڑی "قدر" ہوا کرتی تھی۔ ہمارے ہاں جب
مارشل لاء نیا نیا آیا تھا تو مائیں اپنے بچوں کو باہر گلی میں کھیلنے سے
منع کرتے ہوئے کہتی تھیں بیٹے باہر مت جانا۔ مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ پھر جب
یہی مائیں اور بچے مارشل لاء سے مانوس ہو گئے تو ایک مارشل لاء سے دوسرے
مارشل لاء تک کے درمیاں وقفے میں مائیں بچوں بلکہ بڑوں تک سے کہنے لگیں ذرا
دیکھ بھال کر باہر جانا اب مارشل لاء نہیں ہے نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔
قارئین
کرام! آپ نے دیکھاہم تذکرہ مارشل لاء سے اپنے کالم کے دام کو جتنا بچانے
کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اس تذکرے میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح
جس طرح ہم اپنے ملک کو جتنا مارشل لاء سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ
اتنا ہی مارشل لاء سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ خدا ہمارے ملک کو مارشل لاء
سے اور ہمارے کالم کو تذکرہ مارشل لاء کے اثرات بد سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم
آمین۔ مگر اس سلسلہ میں ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ہم جس قدر کسی کو کسی
چیز سے دور رکھنے کی کوشش کریں گے وہ اسی قدر ہی اس چیز سے قریب ہونے کی
سعی کرے گا۔ اس قسم کے ماہرین اپنے بیان کی وضاحت میں عموماً یہ کہتے ہوئے
پائے جاتے ہیں کہ جہاں "تھوکنا منع ہے" لکھا ہوتا ہے ماسوائے تھوک کے اور
کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح اگر آپ کسی فٹ پاتھ پر چلے جا رہے ہیں اور آپ کو
یکایک ناگوار سی بو محسوس ہونے لگے تو سمجھ لیجیئے کہ یہیں کہیں آس پاس
لکھا ہو گا ۔۔۔ ۔ کرنا منع ہے۔ نو پارکنگ کے بورڈ کے آس پاس گاڑیوں کا ہجوم
نہیں تو چند گاڑیاں ضرور کھڑی ہوئی ملیں گی۔ بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آن
پہنچ ہے کہ جہاں کسی گوشے میں چند گاڑیاں پارک نظر آئیں پولیس کے سپاہی
وہاں نو پارکنگ کا پور ٹیبل بورڈ نصب کر کے گاڑیوں کے مالکان کا انتظار
شروع کر دیتے ہیں۔
اس
سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی سنتے جائے۔ ماضی کی ایک حکومت کے دور میں
حزب اختلاف کے ایک رکن اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے اسمبلی کی بلڈنگ
پہنچے تو ان کی نسبتاً پرانی گاڑی کا سیکورٹی کے عملے نے شایان شان اور
پرتپاک خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے فوراً ایک بیان داغ دیا کہ ان
جیسے غریب ارکان اسمبلی کا سرکاری کارندے مناسب طور پر استقبال نہیں کرتے۔
لہذا وہ کل احتجاجاً گدھا گاڑی پر سوار ہو کر اسمبلی ہال پہنچیں گے۔ چنانچہ
موصوف اگلے روز بدست خود گدھا گاڑی "ڈرائیو" کرتے ہوئے اسمبلی پہنچے۔
سیکورٹی کے عملے نے احتیاطاً ان کے ساتھ کسی کا کوئی سلوک نہیں کیا۔ چنانچہ
انہوں نے قریب ہی ایک پول سے گدھا گاڑی کو باندھا اور اجلاس میں شرکت کرنے
کے لیے اندر چلے گئے۔ واضح رہے کہ انہوں نے جس "پول" سے گدھا گاڑی کو
باندھا تھا وہ دراصل "نو پارکنگ" کا بورڈ تھا اور اس منظر کو ہمارے تمام
قومی اخبارات نے اپنے صفحے کی زینت بنایا تھا۔
ابھی
ابھی آپ یہ پڑھ رہے تھے کہ جب مذکورہ رکن اسمبلی کو ان کی منشاء کے مطابق
"ٹریٹ" نہیں کیا گیا تو انہوں نے جھٹ ایک بیان داغ دیا کہ "غریب ارکان
اسمبلی کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے"۔ اسی بیان پو ایک واقعہ یاد آ رہا
ہے۔ آپ اسے لطیفہ سمجھتے ہوئے سن لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمارے ایک سماجی
کارکن کو بیان سینے کا بہت شوق تھا۔ انہیں روزانہ کے معمولات میں جو بھی
پریشانی ہوتی وہ اسے عوام کی پریشانی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف بیان داغ
دیتے۔ علاوہ ازیں متعلقہ احکام کو بھی ٹیلی فون کر دیتے کہ صاحب آپ فوراً
اس مسلہ کو حل کروائیں' عوام بہت پریشان ہیں۔ یہ آخری جمہ تو ان کا تکیہ
کلام بن گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی بیگم شاپنگ کرنے گئیں تو ان کئ واپسی سے
قبل کرفیو لگ گا۔ چنانچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچ سکیں۔ موصوف نے شام تک ہر
ممکن جگہ انہیں تلاش کیا مگر ناکامی ہوئی چنانچہ انہوں نے اپنے علاقے کے
تھانیدار کو ٹیلی فون کیا کہ صاحب! میری بیوی صبح شاپنگ کرنے گئی تھی۔ ابھی
تک ان کا کوئی پتہ نہیں۔ آپ فوراَ ان کی تلاش کے لیے سپاہی بھیجیں' عوام
بہت پریشان ہے۔
موصوف
کی بیگم تو کرفیو میں گم ہو گئی تھیں مگر ان کے دوران کرفیو گم ہونے کے
تذکرے پر ہمیں ہمارا گم شدہ موضوع "کرفیو" مل گیا ہے۔ اگر آپ کی یاداشت
قابل اعتبار ہے تو یقیناً آپ کو یاد ہو گا کہ ہم نے کرفیو سے اپنی گفتگو کا
آغاز کیا تھا مگر الفاظ و واقعات کی بھول بھلیوں میں اس طرح گم ہو گئے کہ
اپنا موضوع تک گم کر بیٹھے جو ابھی ابھی ملا ہے۔ سو ہم تانے سے بانا ملاتے
ہوئے اب تک کی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ اہل
کراچی کرفیو سے اسی چرح مانوس ہو چکے ہیں جیسے اہل پاکستان مارشل لاء سے۔
مارشل لاء کے ذکر پر ہم نے کہا تھا کہ ہم جتنا اس ذکر سے دامن چھڑانا چاہتے
ہیں یہ اتنا ہی ہم سے چمٹ جاتا ہے۔ کیونکہ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے
کہ۔۔۔۔ ۔ اور ماہرین نفسیات کے بیان کے ثبوت میں جب ہم گدھا گاڑی کی
ڈرائیونگ اور پارکنگ والے مقام تک پہنچے تو ہمیں ایک سماجی کارکن کا واقعہ
یاد آگیا جن کی بیوی دوران کرفیو گم ہو جاتی ہیں۔ اور اسی گمشدگی کے نتیجے
میں ہمیں ہمارا گمشدہ موضوع "کرفیو" ابھی ابھی ملا ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال
ہے کہ اب ہمیں اصل موضوع پر لکھنا شروع کر دینا چاہیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
No comments:
Post a Comment