Sunday, 8 April 2012

صحافی سیاستدان یا سیاستدان صحافی

ہفت روزہ تکبیر کراچی میں خاکہ نگاری کے نام پر جب معززین شہر پر خاک اُڑتے دیکھی تو سوچا کیوں نہ صاحبِ تکبیر پر بھی خاک اُڑائی جائے۔ میرے منہ میں خاک، میرا مطلب ہے کہ خاکہ اُڑایا جائے۔ سو اب جگر تھام کے بیٹھو کہ "تمہاری" باری آئی ع ۔ کوئی اٹھارہ سالہ پرانی تحریر
×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××

صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نزدیک نَر صحافی۔ نتیجتا" موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص بُو پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی خُو ۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت ؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلہ میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہئیے کہ وہ ان اسپانسرز کی "پریشانی" دور کردیں ۔ ان کی اپنی مالی پریشانیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔

شنید ہے کہ حضرت بہت پہلے معلمی کیا کرتے تھے اور غیر معروف بچے بچیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اب بذریعہ صحافت معروف، بالخصوص سیاستدان مرد و زن کو پڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کوشش اس لئے کہ "پٹی" جو غیر معروف بچے بچیوں کو بھی آسانی سے پڑھائی جاسکتی ہے، وہ معروف مرد و زن میں سے ہر دو کو پڑھانا خاصا مشکل کام ہے۔ اور جو لوگ، بالخصوص مؤخر الذکر کے ضمن میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اُن کے خلاف عموما" حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ ہی قائم ہوتا ہے۔ الحمد اللہ ہمارے ممدوح ربع صدی سے زائد کی کوششوں کے باوجود آج تک کسی مشہور یعنی سیاسی مرد یا زن کو کچھ پڑھانے میں ناکام ہی رہے ہیں۔ گو کوششیں ہر دو اصناف پر اِ ن کی آج بھی جاری ہیں۔ دیکھیں کیا گزرے ہے، ہر دو کا حشر ہونے تک ع

ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے، جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جاسکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام کل بھی جاری تھا اور غالبا" کل بھی جاری رہے گا۔ عوام الناس اِ نہیں "جماعتی" سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ "جماعتی" اِنہیں جماعتی سمجھتے تو تھے، مگر اَب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو اُنہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی "پیدائشی مسلم لیگی" کہتے ہیں تو کبھی "الجماعت" ۔ جس کا وجود ع ہر چند کہ کہیں ہے، نہیں ہے ، کی طرح متنازعہ ہی ہے ۔ کا رکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ "جماعت" سے "متفق" ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہ جماعت میں "متفقین" ہی کی تعداد سب سے زائد ہے۔ اور اس جمہوری دور میں لوگ عموما" اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ یا پھر شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ موصوف کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر "متفقین جماعت" ہی سے ہے۔

جماعت اسلامی اور مسلم لیگ دونوں سے بیک وقت "تعلق" رکھنے کا دعویٰ موصوف کے ممدوح ضیاء الحق شہید کے فرزند ارجمند اعجاز الحق کو بھی ہے۔ جو خود کو عملی طور پر مسلم لیگی اور ذہنی طور پر جماعتی کہتے ہیں۔ وہ تو عملی طور پر اتنے زیادہ مسلم لیگی ہیں کہ مسلم لیگ کی حکومت میں وزیر بنتے ہیں تو اپنے والد کی شہادت کو قصہ پارینہ مجھ کر بھول جاتے ہیں اور حکومت ختم ہوتے ہی سانحہ بھاولپور کی از سر نوَ فوری تحقیقات کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے ممدوح حکومت مسل لیگ کی ہو یا غیر مسلم لیگ کی، ہر دَور میں نہ صرف یہ کہ اس سانحہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں بلکہ اس "شہادت" کی ہر "برسی" پراپنے پرچہ کا خصوصی ضمیمہ بھی شائع کرتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے ہر قومی "سانحہ"کی ہر "برسی" پر اسی طرح خصوصی ضمیمہ نکالنا شروع کردیا تو وہ دن دور نہیں جب تکبیر کا ہر شمارہ خصوصی شمارہ کی صورت میں قارئین کو ہر ہفتہ ایک نئے سانحہ سے "دوچار" کیا کرے گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں نہ صرف یہ کہ سانحے تواتر سے رونما ہوتے ہیں بلکہ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ع


حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
صلاح الدین صاحب "دُھن" کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں، اُسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں، خواہ حکومت اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ "اپنوں" کی حکومت میں گھر اور دفتر "جلواکر" سرکاری امداد ببانگِ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر "راس" نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے " بُرے " صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کرکے بھی " اچھے" ہی رہے اور یہ نہ حاصل کرکے بھی " بُرے کے بُرے "۔ گو تکبیر کا آغاز " مجھے ہے حکمِ اذاں" سے کرتے ہیں۔ مگر بد خواہوں بالخصوص "جماعتیوں" کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور " اگرچہ بُت ہیں "جماعت" کی آستینوں میں" کہنا چاہتے ہیں۔ غالبا" اسی "عقیدہ" کی بنیاد پر جماعت میں " بُت " ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شِکنی" کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ "الزام" بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطا" موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اُٹھا کر بہت دور لے گئے ہیں۔

ہمارے بعض علمائے کرام "دین" میں "سیاست" کے داخل ہونے میں حائل ہیں تو موصوف سیاست میں دین کو داخل کرنے کے قائل۔ اپنے نام کے پہلے حصہ پر ہمہ وقت عمل پیرا رہتے ہیں، مگر دعویٰ دوسرے حصہ پر عمل پیرا رہنے کا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر اچھے بُرے، ملنے اور نہ ملنے والے کو مسلسل صلاح مشورہ سے نوازتے رہتے ہیں، ما سِوائے نواز شریف کے۔ کیونکہ بقول اِن کے، نواز شریف کو تو خود خدا نواز رہا ہے۔ جس شخص کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں، اسے ملک سے بھگا کر چھوڑتے ہیں، جیسے قائدِ تحریک اور جو بھاگ نہ پائے، سمجھ لیجئیے کہ یہ ان کے پیچھے تو ہیں، مگر ہاتھ دھو کر نہیں، جیسے مرزا اسلم بیگ۔

صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کے " تَن" کو "قید" رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید" پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں، اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کیا ہوتا تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لِٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اِرد گِرد ادیبوں اور ادیباؤں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس، عورتیں تو اپنے "پی" کو کوستی ہیں، یہ پی، پی کو کوستے رہے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ خود بھی "بند" ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے جسارت کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے "بھولے" ہیں کہ کسی دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے اور نہ پکڑنے والے سے۔ چنانچہ بالآخر جسارت سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو" ہوکر تِرے کوچہ سے ہم نکلے ۔

جس کی حمایت کرتے ہیں اُسے شہید کا درجہ دلواکر رپتے ہیں مثلا" ضیاء الحق شہید۔ اور جس کی مخافت کرتے ہیں، اُسے پھانسی پر لٹکواکر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نوازشریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ جماعت سے گو "متفق" ہیں مگر جماعتیوں سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گُڑ تو پسند ہے، مگر گلگلوں سے پرہیز ہے۔ گُل بہار (بانو نہیں) سے خای اُنسیت ہے۔ لیکن جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف، اسے دوبارہ "گولی مار" بنانے پر تُل گئے ہیں، طبیعت یہاں سے کچھ اُچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کے "سیل " میں ہوتے تھے تو سیل کے باہر پولس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادا موصوف سیل سے باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ گُل بہار میں ہوتے تھے توگھر کے باہر پولس کا پہرا ہوتا تھا کہ مبادا اِرد گِرد موجود اَن گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والے بسوں منی بسوں کے کنڈکٹروں کی صدا ۔ " گولی مار، گولی مار " پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔

سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی حادثہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ لمحہ بہ لمحہ کی تفصیلی روداد، ہلاک و زخمی شدگان کی مکمل شناکت کے ساتھ۔ خفیہ اجلاسوں کا "آنکھوں دیکھا" حال اس طرح قلم بند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کارِ خیر" کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہوپاتی، درمیان میں "ایجنسیاں" جو حائل ہوجاتی ہیں۔ موصوف کے بہی خواہ انہیں مولانا ظفر علی خان کے روپ میں اور بدخواہ میر خلیل الرحمٰن کے بہروپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

راوی کی روایت ہے، چنانچہ دروغ بر گردنِ راوی ہے کہ ایک بڑے اخبار کے مالک مدیر نے محترم طاہر مسعود کو اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی دعوت دی گویا کہا، " آ بیل سینگ مار" دوچار کالموں کی اشاعت کے بعد جب اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے طاہر مسعود کو اپنے دفتر میں بُلواکر کہا کہ اب میرے پاس دو ہی راستے بچے ہیں۔ یا تو اپنا اخبار بند کردوں یا آپ کا کالم۔ طاہر مسعود فورا" بول اُٹھے : آپ ایسا کریں کہ اخبار ہی بند کردیں تاکہ میرے کالم بند ہونے کا کوئی معقول جواز تو پیدا ہوسکے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اخبار دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ جبکہ طاہر مسعود نے کالم نویسی سے توبہ کرلی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے انتقاما" کالم نویوں کی فوج تیار کرنے کے لئے صحافت کی معلمی کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔

ہمارے ممدوح بھی اس واقعہ سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہین کہ اُن کا پرچہ مذکورہ اخبار کی طرح دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کرے تو وہ اپنے پرچہ میں اپنا کالم شائع کرنا بند کردیں۔ بلکہ ہر وہ کالم بند کردیں جو اُن کے کالم کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ اُن کا پرچہ کم از کم اُن کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کرسکے جو ہر ہفتہ نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اور یہ کوئی اَنہونی بات نہ ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آج بھی ایسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورہ پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے تعلیمی نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچہ کو شامل نصاب کرنے پر محکمہ تعلیم کو خوشی محسوس ہوگی۔ اور یوں موصوف کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے کہیں آگے نکل جائے گا۔


×××

 

No comments:

Post a Comment