Wednesday, 2 November 2022

پہلی کمائی ڈھائی روپے

 پہلی کمائی ڈھائی روپے   

میری پہلی کمائی مبلغ ڈھائی روپے تھی۔ یہ یک ہندسی رقم چھ ہندسی رقم کو بھی کیسے بہت پیچھے چھوڑ گئی، یہ جاننے کے لئے اس دلچسپ مضمون کو آخر تک پڑھئے اور اپنی موجودہ قلیل آمدن سے نالاں رہنے کی بجائے لگن، محنت اور منصوبہ بندی سے آگے بڑھتے جائیے۔ تاکہ ایک دن آپ بھی ان شاء اللہ یہ کہنے کے قابل ہوجائیں کہ میری پہلی کمائی تو بہت قلیل تھی مگر الحمد آج قابل رشک ہے۔ 

سوشیل میڈیا پر جب اپنی اپنی پہلی کمائی یا پہلی تنخواہ بتانے کا سلسلہ چلا تو راقم نے بھی لکھا کہ میری پہلی کمائی مبلغ ڈھائی روپے (دوگنے جس کے پورے پانچ روپے سکہ رائج الوقت بنتے ہیں) نصف ماہ کی ٹیوشن فیس کے طور پر 1972ء میں مجھے اس وقت ملی تھی جب میں خود نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ تب پاک بحریہ کراچی کے ایک اسکول میں میری ماہانہ فیس صرف چھ روپے تھی۔ گویا ٹیوشن پڑھانے کے عوض میری پہلی ماہانہ تنخواہ میٹرک میں میرے پڑھنے کی ماہانہ فیس کے لگ بھگ مساوی ہی تھی۔ ٹیوشن سے کمائی کا یہ سلسلہ ایم ایس سی کی تعلیم (1980ء) تک جاری رہا۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھا پڑھا کر حاصل شدہ آمدن سے خود پڑھتا بھی رہا اور گھر کے اخراجات میں معاونت بھی کرتا رہا۔ اپنی آمدنی دوسروں پر خرچ کرنے کا یہ سلسلہ آخری آمدنی تک جاری رہا۔ یوں میری آمدنی میں محاورتاََ نہیں بلکہ حقیقتاََدن میں دوگنا اور رات میں چوگنا اضافہ ہوتا رہا، الحمدللہ۔ یاد رکھئے! اگر آپ اپنی کمائی صرف اپنے آپ پر خرچ کریں گے تو آپ کی آمدنی میں نہ قابل ذکر اضافہ ہوگا اور نہ ہی اس میں کوئی برکت ہوگی۔پڑھنے اور پڑھانے یعنی ٹیوشن اور تعلیم کا یہ سلسلہ 1981ء میں اچانک اس وقت چھوٹ گیا جب مجھے کراچی سے بہت دور سندھ کے آخری اسٹیشن، آخری شہر ڈھرکی میں ایک امریکن کثیر القومی ادارہ میں پہلی باقاعدہ ملازمت ملی۔ یہاں مجھے پہلی باقاعدہ تنخواہ مبلغ چھ سو چالیس روپے ملی تھی۔ انٹر نیٹ کے گوگل سرچ انجن نے بتلایا ہے کہ تب اتنے پیسوں میں تین اعشاریہ نو گرام سونا مل جایا کرتا تھا۔ آج اتنا ہی سونا تقریباََ نصف لاکھ روپے میں ملتا ہے۔

اردو کے بیشتر بڑے قومی اخبارات و جرائد میں بطور فری لانس رائٹر لکھنے لکھانے کا سلسلہ تو آج سے تقریباََنصف صدی قبل کالج کی تعلیم کے دوران ہی شروع کردیا تھا۔ چونکہ پاکستان میں فری لانس رائٹر کا مطلب بالعموم مفت میں لکھنے والا لیا جاتا ہے اس لئے کسی اخبار یا جریدہ نے ہمارے کسی مطبوعہ مضمون کا کوئی معاوضہ دینے کا کبھی نہیں سوچا۔ البتہ ریڈیو پاکستان کراچی کے بزم طلباء پروگرام میں پانچ منٹ دورانیہ کے اپنے ہی تحریر کردہ مزاحیہ مضمون کو اپنی ہی زبانی پیش کرنے پر ہمیں مبلغ بیس روپے کا چیک ملا کرتا تھا جو اکثر تاخیر سے ہی ملتا تھا۔ اس تاخیر کا ایک فائدہ آج تک یاد ہے کہ 1979ء میں ایک مرتبہ جب بیس بیس روپے کے پانچ چیک یعنی ایک ساتھ ایک سو روپے ملے تو محاورہ کے ساتھ ساتھ حقیقت میں بھی ہماری عید ہوگئی تھی کہ یہ سارے چیک رمضان کے مہینے میں ملے تھے اور ہم نے دل کھول کر عید کی شاپنگ کی تھی۔ اخبارات و جرائد میں چھپنے والے مضامین کی پہلی کمائی کوئی دس برس قبل ایک جریدہ سے مبلغ تین سو روپے بذریعہ منی آرڈر ملی تھی، جو اس نوعیت کی اب تک کی آخری کمائی بھی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں اخبارات و جرائد میں لکھنے کا معاوضہ تبھی ملتا ہے جب آپ پیشگی معاہدہ کرکے کسی اخبار یا رسالے میں لکھیں۔ ہمارے بہت سے لکھاری ایسا معاہدہ کرکے اچھا خاصاکماتے ہیں۔ ہمارے ایک سینئر ساتھی لکھاری تو بیک وقت تیس پینتیس جریدوں میں معاہدہ کے تحت لکھا کرتے تھے اور اچھا خاصا کماتے تھے۔

باقاعدہ صحافت کی پہلی کمائی ایک نیوز ہفت روزہ میں 1985ء میں مبلغ آٹھ سو روپے ملی تھی۔ صحافت کی اس پہلی تنخواہ سے تب ہم نے ایک سفاری سوٹ سلوایا تھا۔ اس کے بعد اس ہفت روزہ میں دوسری کوئی تنخواہ نہ ملی تو بغیر تنخواہ کے ایک دوسرے ہفت روزہ میگزین میں کام کرنے لگا۔ جہاں کئی سال تک شوق صحافت میں رپورٹنگ، سب ایڈیٹنگ، اداریہ نویسی، کالم نویسی پروف ریڈنگ حتی کہ کاپی پیسٹنگ میں معاونت تک "مفت تنخواہ" پرانجام دیتا رہا۔پی پی آئی نیوز ایجنسی میں بطور جزوقتی سب ایڈیٹر کی پہلی تنخواہ 1988ء میں مبلغ بارہ سو روپے اور 1994ء کے وسط میں کراچی کے ایک بڑے معروف اردو اخبار کے لندن ڈیسک پر کل وقتی سب ایڈیٹر کی پہلی تنخواہ ساڑھے پانچ ہزار روپے ملی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ ادارہ کی پہلی تحریری پیشکش پانچ ہزار روپے ماہانہ کی ملی تواس پیشکش کو بوجوہ مسترد کردیا تھا۔تب دوسری تحریری پیشکش ساڑھے پانچ ہزار روپے کی ملی جسے قبول کرلیا تھا۔ اخبارات کی ملازمت کے شرائط سے شاکی اخبار نویسوں کے لئے شاید یہ ایک انوکھا اور ناقابل یقین واقعہ ہو، مگر حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا۔کراچی کے شام کے ایک قومی اخبار میں کوئی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ اس لئے کہ وہاں بعد از جوائننگ کام کرنے کے دوران کوئی خاص لفٹ یا توجہ نہ ملنے پر پہلے ماہ ہی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ تب تک اس بات سے آگہی نہ تھی کہ جہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے مئے خانہ ہی نہیں بلکہ صحافت کا خانہ بھی کہتے ہیں۔ لاہور کے ایک معروف اخبار کے کراچی ایڈیشن اور عرب نیوز اردو کے کراچی ڈیسک پر یکے بعد دیگرے منتخب ہونے کے باوجود کسی پہلی تنخواہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس لئے کہ انتظامیہ اور اس احقر کے درمیان ابتدا ہی میں ایک چھوٹا سا "تنازعہ" پیدا ہوگیا تھا۔ انتظامیہ کا اصرار تھا کہ آپ کام شروع کردیں، اپوائنٹ منٹ لیٹر لاہور اور سعودیہ سے بعد میں آتا رہے گا۔ جبکہ میرا کہنا تھا کہ پہلے اپوائنٹ منٹ لیٹر منگوا لیجئے۔ کام تو پھر ہوتا ہی رہے گا۔ تب تک مجھے صحافتی اداروں میں بلا اپوائنٹ منٹ لیٹر کام کروانے کی روایت سے بخوبی آگہی ہوچکی تھی۔

انگریزی روزنامہ ڈان کے اردو اخبار حریت میں ہماری رہائشی کالونی کے بارے میں ایک مکمل صفحہ کا  فیچر اس احقر کے تصویری ذکر خیر کے ساتھ چھپا تو فیچر کا مرکزی کردار ہونے کی وجہ سے اخبار کی انتظامیہ نے میرے لئے تین سو کاپیاں بھیج دیں۔ چنانچہ پہلے قرض لے کر اخبار لانے والے کو ادائیگی کی اور پھر سائکل پر دن بھر میں سارا اخبار بیچ ڈالا۔ یوں ساٹھ پیسے میں ہول سیل پر خریدا گیا اخبار ایک ایک روپے میں فروخت کرکے ایک سو بیس روپے خالص منافع کمایا۔ اسے اخبار فروشی یا ذاتی بزنس کی پہلی کمائی سمجھ لیجئے۔جب بطور پبلشر ایڈیٹر علمی و ادبی خبروں کے فروغ کے لئے اخباری سائز پر" اخبار ادب" شائع کرنا شروع کیا تو یہ اخبار مقدس بھاری پتھر جیسا لگا، چنانچہ اسے چوم کر چھوڑ دیا۔ کیونکہ جلد ہی یہ احساس ہوگیا تھا کہ اخبار ادب سے علم و ادب کا فروغ ہو یا نہ ہو لیکن یہ ہمارے بچوں کے حصہ کا رزق ضرور کھاجائے گا۔یہ ہمارے اس درست فیصلہ ہی کا نتیجہ تھا کہ ہمارے چاروں بچے شہر کے بہترین جامعات سے انجینئرنگ، میڈیسن اور فائنانس میں گریجویٹ ہونے کے ساتھ ہی شہر کے پوش علاقوں میں اپنی اپنی ذاتی الگ الگ رہائش حاصل کرکے عملی زندگی میں شامل ہوپائے اور ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر عمل کرنے میں اپنی استطاعت کی حد تک کامیاب رہے کہ اپنی اولاد کو محتاج اور تنگ دست چھوڑ جانے سے بہتر ہے کہ انہیں معاشی طور پرخوشحال بنا دیا جائے۔ صحافتی زندگی میں بظاہر ہم نے کمایا کم اور گنوایا زیادہ لیکن اس دشت کی سیاحی میں قلم چلانے کا جو ہنر ملا، اسی ہنر نے ادب و صحافت کی دو کتب کے علاوہ قرآن و سنت پر مبنی سات کتب تالیف کرنے اور شائع کرنے میں ہماری بھر پور مدد کی۔ان دینی کتب کی درجن بھر سے زائد ایڈیشن کا یہ صدقہ جاریہ ان شاء اللہ ہمارے لئے توشہ آخرت بنے گا۔ الحمد للہ ہم اپنی اسی" اصل کمائی" کو کرنسیوں والی ذیل کی قابل رشک کمائیوں سے بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں۔ 

کراچی کے ایک سرکاری ادارہ میں بطور سرکاری افسر 1986ء کے وسط میں پہلی تنخواہ غالبا سترہ سو روپے ملی تو سرکاری افسری والی کرسی پر جھولا جھولتے ہوئے اس نئے نئے سرکاری افسر نے بڑی شان بے نیازی سے کہا تھا:

دو پشت سے ہے پیشہ آباء کلرکی 

کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے 

 اس افسری والی نوکری کے لئے میں نے اس سے تقریبا دوگنی تنخواہ والی ایک برطانوی کمپنی کی غیر افسری کی نوکری چھوڑ دی تھی اور یہ فیصلہ میرے کیریئر میں بعد ازاں بہت مفید ثابت ہوا تھا۔ گو کہ نوکری چھوڑتے وقت ادارہ کے (دو) بڑے بڑے افسروں نے مجھے چھوٹا موٹا افسر بنانے کی زبانی حامی بھر لی تھی۔ تاہم میرا اصرار تھا کہ تحریری پیشکش جائے تو کچھ بات بنے۔ سرکاری افسری والی نوکری میں میرے ماتحت سرکاری ملازمین کی تعداد ماشاء اللہ چھبیس کے قریب تھی۔ یہاں میرے متعدد ماتحت موٹر سائکل پر اپنی مرضی سے جبکہ میں عوامی بس میں بے بس ہو کر ڈیوٹی پر آیا کرتا تھا۔تقریباََچار دہائیوں پر مشتمل دو قومی اور چھ کثیر القومی صنعتی اداروں میں بطور کیمیا دان (کیمیکل سائنٹسٹ) کام کرتے رہنے کے بعد اس شعبہ سے تین سال قبل ہی ریٹائرڈ ہوا ہوں۔ اسی دوران احقر کو بیرون ملک بھی کام کرنے کا موقع ملا تو 1990ء کے اواخر میں سعودی آرامکو میں میری پہلی تنخواہ تین ہزار ریال (آج کے پونے دو لاکھ روپے سے زائد) تھی۔

گو کہ یہ سلسلہ پہلی کمائی یا پہلی تنخواہ کے ذکر کا ہے۔لیکن چونکہ مجھے متعدد اور متنوع پہلی تنخواہیں ملتی رہی ہیں، اس لئے ان سب کا الگ الگ ذکر کر دیا ہے تاکہ ریکارڈ پر رہے اور بوقت ضرورت، ضرورت مند قارئین کے کام آسکے۔ واضح رہے کہ اس تحریر کا میں خود بھی ایک قاری ہوں۔چونکہ میری تنخواہوں کا سلسلہ اختتام پذیر ہوچکا ہے، اس لئے اس سلسلہ کے آخر میں آخری تنخواہ کا ذکر کرنا یقینا قارئین کے لئے دلچسپی کا حامل ہوگا۔ جس رقم کا آغاز کوئی نصف صدی قبل سنگل ہندسہ یعنی پانچ روپے ماہانہ سے ہوا تھا، 2019ء کے وسط تک بوقت ریٹائرمنٹ یہ رقم چھ ہندسوں کو واضح طور پر عبور کرچکی تھی۔ لیکن ٹھہرئیے! چھ ہندسوں پر مبنی یہ رقم تنخواہ ضرور تھی لیکن میری نہیں بلکہ انکم ٹیکس محکمہ کے اس سرکاری اہلکار کیلئے تھی، جو وہ میری تنخواہ سے بطور انکم ٹیکس ہر ماہ پیشگی کاٹ لیا کرتا تھا۔ یوں محض ڈھائی روپے کی پہلی کمائی سے شروع ہونے والا میرا سینتالیس سالہ کمائی کا یہ سفر مقروض مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی خزانہ کو ماہانہ سوا لاکھ روپے تک کی مستقل ادائیگی کرتے رہنے پر اختتام پذیر ہوا، شکر الحمدللہ۔ 

دنیا میں ہر فرد کمانا بلکہ زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا ہے۔ بیشتر لوگ اسی لئے رسمی تعلیم، اعلی تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ معمول کی تعلیم کے بعد بھی پیشہ ورانہ کورسز اور تربیت کے حصول کیلئے کوشاں رہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کماسکیں۔ گو زیادہ سے زیادہ کمانے کی کاوش کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں کمانے سے زیادہ اہم خرچ کرنے کا ہنر آنا چاہئے۔کیونکہ عام طور سے لوگ کمانا تو سیکھ ہی لیتے ہیں لیکن خرچ کرنے کے آرٹ اور ہنر سے یکسرناواقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بہت زیادہ کمالینے کے باوجود آخری عمر میں مفلسی کی زندگی گزارنے والے دوسروں پر الزام دھرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے ایک کثیر القومی بنک کی لندن برانچ میں منیجر کی سطح تک کام کرکے کمانے والی ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون آخری عمر میں بے گھر ہوکر ایک معمولی پرانی کار کے اندر زندگی کے روز و شب گزارنے پر مجبور ہو گئی تھی۔ انہوں نے کمانا بلکہ بہترین تو سیکھ لیا تھا لیکن اپنی کمائی کو خرچ کرنے کے آرٹ سے ناواقف ہونے کے سبب ہی اس خستہ حالی کو پہنچیں۔ میں نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ آپ کی تجوری میں موجود روپیہ اور بنک بیلنس کی وقعت کاغذی ٹکڑوں اور چند ہندسوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ "دولت" اس وقت بنتے ہیں، جب آپ انہیں کسی مادی چیز جیسے سونے جواہرات، جائیداد، فیکٹریز، دکان یا کاروبار وغیرہ میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ مثلاََ ایک صاحب کو ریٹائرمنٹ پر ایکس ملین روپے ملے تو انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی بھی کی، دو تین سال تک کھاتے پیتے بھی پیتے رہے۔ اس کے باوجود اس وقت ان کے پاس ایکس پلس ملین مالیت کی "دولت" موجود ہے۔ کیونکہ انہوں نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم کو کاغذی ٹکڑوں یا بنک بیلنس کے ہندسوں میں "غیر محفوظ" کرکے نہیں رکھا تھا۔

 میرے احباب اکثر پوچھتے رہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کر رہے ہیں؟ جواباََکہتا ہوں کہ کچھ بھی تو نہیں۔ کیونکہ اب تو میرا بیشتر وقت صرف کاغذ قلم سے یا کی بورڈ اور اسکرین سے لکھنے پڑھنے، تصنیف و تالیف میں گزرتا ہے۔ اور جس کام سے روپے پیسے کی مد میں کوئی آمدنی نہ ہورہی ہو، اسے دوست احباب کام ہی نہیں سمجھتے۔ چنانچہ آج کل "ویلا" ہوں اور زندگی کا" ویلا پن" خوب خوب انجوائے کررہا ہوں، شکر الحمد للہ۔

***


Wednesday, 5 October 2022

قرآن و حدیث میں وضو کا حکم صرف نماز کیلئے ہے۔




قرآن و حدیث میں وضو کا حکم صرف نماز کیلئے ہے۔


قرآن میں وضو کا حکم اور طریقہ بیان کرنے سے قبل اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب تم نماز کیلئے (کسی اور کام کے لئے نہیں) کھڑے ہو تب وضو کرلیا کرو۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا قُمْتُـمْ اِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِـرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ(المائدہ:6)

اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لو اور اپنے سروں پر مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھو لو۔

وضو کے حکم کی نبوی تصدیق 

أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيَّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ طَعَامٌ فَقَالُوا أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ فَقَالَ إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول  ﷺ  بیت الخلا سے باہر تشریف لائے اور آپ کو کھانا پیش کیا گیا ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے وضو کا پانی نہ لائیں؟  آپ نے فرمایا ’’مجھے وضو کا حکم صرف اس وقت ہے جب میں نماز کے لئے اٹھوں‘‘ (نسائی: 132)

طواف کعبہ مثل نماز ہے 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَتَكَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ   . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَاوُسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَذْكُرُ اللَّهَ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِنَ الْعِلْمِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو۔ (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے)  تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے“۔ (ترمذی:960)۔


وضاحت: چونکہ طواف کعبہ مثل نماز ہے اور نماز کیلئے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ نے وضو کا حکم دیا ہے، اس لئے طواف کعبہ کیلئے بھی وضو فرض ہے۔ جبکہ صفا و مروا کی سعی سمیت کسی بھی دیگر ارکان عمرہ و حج کیلئے وضو فرض نہیں ہے۔


حائضہ کا مسجد جانا جائز ہے 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ثابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ لِي عَائِشَةُ:‏‏‏‏ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ    قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي حَائِضٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏  إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ  . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ بِأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْحَائِضُ شَيْئًا مِنَ الْمَسْجِدِ

 حضرت عائشہ مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مسجد سے مجھے جائے نماز اٹھا کر دو“۔ میں نے عرض کیا: میں تو حائضہ ہوں، آپ نے فرمایا: ”تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے“۔ (ترمذی:134)


تلاوت قرآن بلا وضو جائز ہے۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ (موطائ امام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت)

محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے۔ پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے۔ ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضو کے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے۔ کیا مسیلمہ نے کہا؟ 

وضاحت: مسیلمہ کذاب وہ شخص ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔


حضرت سلمان فارسی کا خیال کہ قرآن چھونے کیلئے وضو ضروری ہے 

مسند حاکم  میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ایک مکالمہ موجود ہے کہ آپ ایک سفر میں تھے۔ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو واپسی پر پانی نہ ہونے کی وجہ سے وضو نہ فرمایا۔ ساتھی کہنے لگے کہ کاش آپ وضو کرلیتے تو ہم قرآن سے متعلق آپ سے کچھ سوال کرسکتے۔ آپ نے فرمایا کہ سوال کرو۔ میں نے کون سا قرآن کو چھونا ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ پڑھی۔ لایمسہ الا المطھرون۔

٣٧٨٢ - أخْبَرَنا أبُو زَكَرِيّا العَنْبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّلامِ، ثنا إسْحاقُ، أنْبَأ جَرِيرٌ، عَنِ الأعْمَشِ، عَنْ إبْراهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قالَ: كُنّا مَعَ سَلْمانَ  فانْطَلَقَ إلى حاجَةٍ فَتَوارى عَنّا، ثُمَّ خَرَجَ إلَيْنا ولَيْسَ بَيْنَنا وبَيْنَهُ ماءٌ قالَ: فَقُلْنا لَهُ: يا أبا عَبْدِ اللَّهِ، لَوْ تَوَضَّأْتَ فَسَألْناكَ عَنْ أشْياءَ مِنَ القُرْآنِ. قالَ: فَقالَ: «سَلُوا، فَإنِّي لَسْتُ أمَسُّهُ». فَقالَ: " إنَّما يَمَسُّهُ المُطَهَّرُونَ، ثُمَّ تَلا ﴿إنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ لا يَمَسُّهُ إلّا المُطَهَّرُونَ﴾ [الواقعة ٧٨] «هَذا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ولَمْ يُخَرِّجاهُ» [التعليق- من تلخيص الذهبي] ٣٧٨٢ - على شرط البخاري ومسلم۔

وضاحت: یہ حضرت سلمان فارسی رض کا اپنا ذاتی خیال ہے۔ کیونکہ اس واقعہ میں قرآن چھونے کیلئے وضو کی شرط کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا گیا ہے۔


مؤطا امام مالک کی حدیث کہ قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے۔

(*) باب لا يمس القرآن إلا طاهر ما جاء في الطهر من قراءة القرآن

٢٣٤ - حَدَّثَنا أبُو مُصْعَبٍ، قالَ: حَدَّثَنا مالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أبِي بَكْرِ بن محمد بن عمرو بْنِ حَزْمٍ، أنَّ فِي الكِتابِ الَّذِي كَتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ: أنْ لا يَمَسَّ القُرْآنَ إلّا طاهِرٌ

 نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو خط لکھا اس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ "قرآن کو طاہر کے سوا کوئی بھی نہ چھوئے"۔

وضاحت: اس حدیث میں قرآن چھونے کیلئے "با وضو ہونے" کی شرط نہیں بلکہ "طاہر" ہونے کی شرط لگائی گئی ہے۔ دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن ہر حال میں (حتی کہ جنبی حالت میں بھی) "طاہر" ہی ہوتا ہے۔ جبکہ غیر طاہر یعنی نجس و ناپاک تو "غیر مومن" ہوتا ہے۔


قرآن چھونے کیلئے وضو کی عدم فرضیت کے دلائل 

۔1۔ قرآن کو چھونے کے لئے اگر وضو فرض ہوتا تو اس فرضیت کا وضو کے ذکر کے ساتھ واضح ثبوت قرآن و سنت میں اسی طرح موجود ہوتا جیسا کہ نماز (اور طواف کعبہ) کیلئے موجود ہے(المائدہ۔6، نسائی:132 اور ترمذی: 960)۔ ایسے کسی واضح حکم کی عدم موجودگی ہی بلا وضو قرآن کو چھونا جائز قرار پاتا ہے۔ 


۔2۔  دور رسالت ﷺ بلکہ ادوار شیخین ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم تک میں "مصحف قرآن" کتابی شکل میں موجود ہی نہ تھا کہ اسے چھوننے کیلئے وضو کا حکم دیا جاتا۔ ہمارے پاس موجود کتابی قرآن پہلی مرتبہ دور عثمانی رضی اللہ عنہ میں مدون مصحف ہی کا عکس ہے۔ مصحف عثمانی چمڑے پر لکھا ہوا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے۔ جسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تیار کروایا تھا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسی نسخہ پر تلاوت کیا کرتے تھے۔ یہ نسخہ تاشقند، ازبکستان کے میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔ یہ نسخہ خط کوفی میں لکھا گیا تھا۔ جب حضرت عثمان غنی کو شہید کیا گیا تو آپ اس وقت اسی نسخہ سے قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپ کے خون مبارک کے نشانات ابھی بھی اس نسخہ پر موجود ہیں (مآخذ: وکی پیڈیا)


کافر و مشرک نجس جبکہ مومن طاہر ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـذَا. (التوبه، 9 : 28)

 اے ایمان والو ! مشرک نرے نجس ہیں، تو اس سال (سن 9 ھ) کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں 

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ وَهُوَ جُنُبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏    أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَهَبْتَ ؟   ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ:‏‏‏‏    إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ   . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ. قال أبو عيسى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي:‏‏‏‏ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا

(ترمذی:121): ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ان سے ملے اور وہ جنبی تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں آنکھ بچا کر نکل گیا اور جا کر میں نے غسل کیا پھر خدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا: تم کہاں چلے گئے تھے۔ میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔ آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں (بلکہ طاہر) ہوتا ہے۔


۔3۔ سورۃ الواقعۃ:اِنَّهٝ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْـمٌ (77)فِىْ كِتَابٍ مَّكْـنُـوْنٍ (78)لَّا يَمَسُّهٝٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (79)۔ بے شک یہ قرآن بڑی شان والا ہے۔ یہ ایک پوشیدہ کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے۔ جسے طاہروں کے سوا کوئی اور نہیں چھوتا۔ بالعموم سورہ واقعہ کی آیت۔79 سے قرآن چھونے کے لئے وضو کی فرضیت مراد لی جاتی ہے جو مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے درست نہیں ۔

۔(الف)۔ اس آیت میں وضو کا لفظ ہی موجود نہیں ہے۔ جبکہ نماز کیلئے وضو کی فرضیت کے قرآنی حکم میں وضو کا مکمل طریقہ اور حدیث میں وضو کا لفظ موجود ہے۔

۔(ب)۔ اس آیت میں لفظ مطھرون (واحد طاہر) آیا ہے۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ فی نفسہ مومن نجس نہیں بلکہ طاہر ہوتا ہے، خواہ جنبی ہی کیوں نہ ہو۔ طاہر فرشتوں کو بھی کہتے ہیں۔ طاہر بمعنی "باوضو مسلمان" کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔

۔(ج)۔ سورت واقعہ ایک مکی سورت ہے جبکہ وضو مدینہ میں فرض ہوا۔سورہ مائدہ ایک مدنی سورت ہے، جس میں آیت وضو نازل ہوئی۔


۔4۔ جب وضو فرض ہوا تو حدیث میں لفظ وضو کے ذکر کے ساتھ واضح طور پر بتلا دیا گیا کہ (الف) مجھے صرف نماز کیلئے وضو کا حکم دیا گیا ہے (ب) اور طواف کعبہ بھی مثل نماز ہی ہے (ج) کسی تیسرے کام یا عبادت کیلئے وضو کی وضاحت کے ساتھ کوئی حکم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ 


۔5۔ قرآن "سینہ گزٹ" کے ذریعہ نازل ہوا تھا۔ قرآن سب سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سینے سے حضرت محمد ﷺ کے سینے میں منتقل ہوا اور پھر آپ ﷺ کے ذریعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں کو منتقل ہوا۔ حفاظ کرام کا یہی سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے۔ تسلسل سے جاری یہ عمل ہمیں بتلاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ و معنی اہم ترین ہیں۔ اس کا لکھا ہوا مصحف کی شکل میں مرتب ہونا "ثانوی درجہ" رکھتا ہے۔ یعنی قرآن اس لئے نازل ہوا کہ (الف) اسے تا قیامت پڑھا جاتا رہے۔خواہ منہ زبانی پڑھا جائے یا لکھا ہوا دیکھ کر پڑھا جائے۔ پڑھنا اہم ہے، طریقہ نہیں۔(ب) اسے پڑھ کر سمجھا جائے (ج) اور اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا کہ مس مصحف قرآن کے لئے شارع سے ہٹ کر از خود پروٹوکول بنادیا جائے کہ پہلے لازمی وضو کرو۔ اس کے لئے غلاف بنادیا جائے کہ بلا وضو بلکہ بلا غسل حائضہ طالبات اور خواتین مدرسین غلاف /کپڑے کی مدد سے تو قرآن چھو سکیں مگر کپڑے کے بغیر نہیں۔ 


سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کے بنیادی مقصد یعنی تلاوت تو بلا وضو بلکہ بلا غسل بھی جائز ہو اور قرآن چھونے کیلئے وضو فرض ہو جبکہ "قرآن چھونا" سرے سے کوئی بنیادی مقصد یا ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ تلاوت قرآن زبانی بھی کی جاسکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زبانی ہی تلاوت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے مصحف قرآن کے چھونے نہ چھونے کو کبھی دینی مسئلہ نہیں بنایا تھا۔

(واللہ اعلم بالصواب)

Friday, 18 July 2014

جنت کا داخلہ امتحان

ارسلان نے شعبۂ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ تعلیم پانے کے لیے این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی‘ کراچی کا انتخاب کیا۔ لہٰذا اُسے ایف ایس سی کے پرچے ختم ہوتے ہی پیشہ ورانہ اداروں میں داخلے کی اہلیت کے امتحان المعروف ’’انٹری ٹیسٹ‘‘ کی تیاری کے لیے شہر کے مشہور کوچنگ سنٹر کا رخ کرنا پڑا۔ دو گھنٹوں پر محیط یہ داخلہ امتحان متعلقہ نصاب کے اہم مضامین سے تیار کیے گئے MCQsپر مبنی ہوتا ہے یعنی ہر سوال کے کئی جوابات میں سے درست جواب کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ جامعہ این ای ڈی کے انٹری ٹیسٹ میں پچاس فیصد نمبر حاصل کرنے والا طالب علم ہی اگلے مرحلے میں میرٹ لسٹ کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ یونیورسٹی میں پہلی میرٹ لسٹ صرف ایف ایس سی کے نمبروں کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے یعنی اس میں داخلہ ٹیسٹ کے نمبر شامل نہیں ہوتے۔
ارسلان کی بہن عائشہ کو ڈاکٹر بننے کے لیے ڈائو میڈیکل یونیورسٹی میں داخل ہونا تھا۔ ہمارے ہاں انجینئرنگ کی نسبت میڈیکل کالجوں میں داخلہ ٹیسٹ کا معیار جدا اور نسبتاً مشکل ہے۔ گو وہاں بھی داخلہ ٹیسٹ ایم سی کیوز پر مبنی ہوتے ہیں‘ لیکن منفی مارکنگ بھی کی جاتی ہے یعنی اگر طالب علم نے کسی سوال کا درست جواب دیا تو اسے ایک نمبر ملے گا۔ اگر غلط جواب دیا تو اسے منفی ایک چوتھائی نمبر ملے گا۔ گویا پرچے کے کل ایک سو سوالوں میں سے کسی طالب علم نے ساٹھ سوالوں کے درست اور چالیس کے غلط جواب دیے‘ تو حاصل کردہ ساٹھ نمبروں میں سے چالیس غلط جوابات کے دس نمبر منہا بھی ہوں گے۔ یوں اُسے عملاً پچاس نمبر ملتے ہیں۔
میڈیکل کالجوں میں داخلے کی میرٹ لسٹ میں انٹری ٹیسٹ کے نمبروں کا پچاس فیصد‘ ایف ایس سی کے صرف چار مضامین یعنی انگریزی‘ طبیعات‘ کیمیا اور حیاتیات کے کل حاصل کردہ نمبروں کا چالیس فیصد اور میٹرک کے حاصل کردہ نمبروں کا دس فیصد شامل کیا جاتا ہے۔ گویا انجینئرنگ کے مقابلے میں میڈیکل کالج میں داخلے کا معیار مزید سخت ہے۔ اسی لیے عائشہ نے اپنے بھائی سے بھی زیادہ محنت و لگن سے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کی۔ دونوں نے مشق کی خاطر دیگر کالجوں اور جامعات میں بھی انٹری ٹیسٹ دیے۔ الحمدللہ دونوں کی محنت رنگ لائی اور وہ جامعہ این ای ڈی اور ڈائو یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ واضح رہے کہ ایف ایس سی میں ساٹھ فیصد سے کم نمبر پانے والے طالب علموں کو انجینئرنگ اور میڈیکل کی میرٹ دوڑ سے پہلے ہی خارج کر دیا جاتا ہے۔
بڑے بہن بھائیوں کے برعکس فرقان کو بزنس ایڈمنسٹریشن کا شوق تھا۔ اس کی نگاہِ انتخاب مشہور تعلیمی ادارے‘ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘ آئی بی اے پر تھی۔ آئی بی اے کے لیے درکار تعلیمی قابلیت کے مطابق کم از کم 65فیصد نمبر ہونے ضروری ہیں۔ اس ادارے کا انٹری ٹیسٹ پیچیدہ اور مشکل ترین سمجھا جاتا ہے۔ انٹری ٹیسٹ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ تحریری حصے میں تین ذیلی پرچے ہوتے ہیں۔ تینوں پرچوں میں الگ الگ کامیاب ہونے کے علاوہ تینوں پرچوں کے مجموعی نمبر بھی مطلوبہ نمبروں کے برابر ہونا لازم ہے۔ گروپ ڈسکشن میں گروہ کے ہر رکن کو دیے گئے عنوان پر مقررہ وقت کے اندر اندر فی البدیہہ تقریر کرنا پڑتی ہے۔ پھر سارے ارکان مل کر اس موضوع پر اجتماعی بحث مباحثہ کرتے ہیں۔
اس سارے عمل کو ایک ممتحن مسلسل جانچتا اور ہر رکن کو انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر نمبر دیتا ہے۔ آئی بی اے والے انٹری ٹیسٹ کے تیسرے مرحلے میں ہر طالب علم کا پینل انٹرویو لیا جاتا ہے۔ جب طالب علم تینوں مرحلوں اورہر مرحلے کے تمام ذیلی شعبوں میں علیحدہ علیحدہ کامیابی حاصل کر لے‘ تبھی آئی بی اے میں داخلے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ فرقان نے آئی بی اے کا یہ پیچیدہ اور مشکل ترین داخلہ امتحان پاس کر لیا۔ ارسلان‘ عائشہ اور فرقان کی مختلف داخلہ امتحانوں میں کامیابی نے ساتویں جماعت میں زیرتعلیم سب سے چھوٹے بھائی عدنان کو ابھی سے اس مخمصے میں مبتلا کر دیا کہ چند برسوں بعد اسے بھی کوئی انٹری ٹیسٹ پاس کرنا ہو گا۔ عدنان فی الوقت اپنی تمام تر ذہانت اور قابلیت کے باوجود ’’نمبروں‘ کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘ کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔
…٭…
دنیا میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے میں مشہور و معروف تعلیمی ادارے اہم اور بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان اداروں میں داخلہ کے لیے درکار تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ داخلہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اولین شرط ہے۔ عموماً جب بچے انٹر پاس کر لیں‘ تب اِن کے والدین پوچھتے ہیں کہ بیٹا آگے کیا پڑھنا ہے؟ بچہ حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر جواب دیتا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے یا کیا کر سکتا ہے۔ ممتاز بھارتی ماہر تعلیم‘ ڈاکٹر مبارک کاپڑیا کا کہنا ہے کہ والدین کا یہ رویہ سراسر غلط ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ والدین کو پہلے ہی باہم مشورہ کر کے یہ طے کر لینا چاہیے کہ بچہ انٹر کس مقصد کے تحت کرنا چاہتا ہے۔نیز انٹر کے بعد اسے کس شعبے یا تعلیمی ادارے میں داخل ہونا ہے اور وہاں انٹری ٹیسٹ کے قواعد و ضوابط کیا ہیں۔ ارسلان‘ عائشہ اور فرقان کے معاملے میں ایسا ہی کیا گیا‘ چناںچہ انھوں نے مشہور تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ میں احسن طریقہ سے کامیابی حاصل کر لی۔
عموماً ہم سب یہ حقیقت مانتے ہیں کہ معروف تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ میں کامیابی دنیا میں ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ لیکن کم ہی لوگ اس جانب توجہ دیتے ہیں کہ اوسطاً پچاس ساٹھ سالہ دنیوی کیرئیر کے اختتام پر ہم سب کو ایک اور انٹری ٹیسٹ… جنت داخلہ امتحان کا بھی سامنا کرنا ہوتا ہے۔ کامیاب ترین دنیوی زندگی کے اختتام پر ہمارے سامنے ایک اور نئی خوبصورت دنیا موجود ہوتی ہے‘ جسے ’’جنت‘‘ کہتے ہیں۔
جنت کا عیش و آرام دنیوی عیش و آرام سے بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں کامیاب ترین‘ امیرترین اور بلند ترین منصب تک پہنچنے والے فرد کی کہانی زیادہ سے زیادہ ایک صدی پر محیط ہوتی ہے۔ جب کہ مرنے کے بعد آنے والی دنیا کی زندگی لامتناہی یعنی نہ ختم ہونے والی ہے اوراس اُخروی زندگی کا سارا عیش و آرام اور مزہ جنت میں رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن جنت میں داخلے کے لیے بھی انٹری ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اس داخلہ امتحان میں ناکام رہیں گے ‘ وہ نہ صرف جنت کے آرام و عیش سے محروم رہیں گے بلکہ محرومی کی صورت میں انھیں لازماً جہنم میں داخل ہونا پڑے گا۔
جہنم کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہاں جنت کے برعکس ماحول پایا جاتا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی فرد جہنم میں داخل ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ جہنم میں داخل نہ ہونے کے خواہشمند افراد بھی جنت کے داخلہ امتحان کی تیاری کرنا تو درکنار پرچوں اور قواعد و ضوابط تک سے ناآشنا ہیں۔ ابھی ہم نے میڈیکل‘ انجینئرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے اہم ترین تعلیمی اداروں کے انٹری ٹیسٹ کے طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو کی تاکہ داخلے کے خواہشمند طالب علم نہ صرف قواعد و ضوابط سے آگاہ ہو جائیں بلکہ ذہنی طور پر بھی خود کو تیار کر لیں انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہو کر ہی وہ دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔
آئیے اب جنت کے انٹری ٹیسٹ کی بات کرتے ہیں تاکہ جب عمر کی نقدی ختم ہو اور جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کا پروانہ‘ نامہ اعمال کی صورت ہمارے ہاتھ میں آئے‘ تو ہم اس دنیا سے دوسری دنیا میں منتقل ہوتے ہی جنت کی سہولتوں سے استفادہ کر سکیں۔ جنت انٹری ٹیسٹ کے متعلق سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ بے شک تمام انسان خسارے میں ہیں‘ سوائے اُن لوگوں کے جو چار باتوں یعنی ایمان‘ عمل صالح‘ حق کی تلقین اور صبر پر عمل پیرا رہے۔ یہ چار باتیں درحقیقت جنت انٹری ٹیسٹ کے چار الگ پرچے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے ان چاروں پرچوں میں الگ الگ کامیابی حاصل کرنا لازمی ہے۔
ایمان کے پرچے میں اللہ اور اُس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی تمام باتوں پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے۔ اعمال صالحہ یعنی نیک اعمال والے پرچے میں وہ سب کچھ لازماً کرنا ہے جن کا قرآن پاک اور حدیث میں‘ امربالمعروف کے ضمن میں حکم ملا اور ان تمام باتوں سے لازماً رُکنا ہے جن کا ذکر نہی عن المنکر کے ضمن میں کیا گیا۔اگر ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیں تو کم و بیش تمام مسلمان کسی نہ کسی حد تک اس پرچے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح صالح اعمال والے پرچے میں بھی کچھ نہ کچھ کارکردگی ضرور دکھائیں گے۔ البتہ یہ جائزہ لینے کی ہر وقت ضرورت ہے کہ کہیں ہم ان پرچوں میں مطلوبہ نمبروں سے کم کارکردگی تو نہیں دکھا رہے؟ قرآن پاک کی اوامرنواہی کی زبانی کسوٹی سے ہم بخوبی ان دو اوّلین پرچوں میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم بالعموم ایمان اور عمل صالح کے مرحلے ہی پر رک جاتے ہیں۔ اپنی ساری کاوشیں ان دونوں پرچوں میں خوب سے خوب تر کارکردگی دکھانے میں صرف کرتے اور بھول جاتے ہیں کہ جنت انٹری ٹیسٹ کے دو مزید مراحل حق کی تلقین اور صبر بھی ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بعد جب تک ہم ان دو امور پر بھی مطلوبہ توجہ نہ دیں‘ جنت داخلہ امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیا آئی بی اے انٹری ٹیسٹ کے تین تحریری‘ دو بات چیت اور ایک انٹرویو یعنی کل چھے مراحل میں صرف تین مرحلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھلانے والا طالب علم آئی بی اے میں داخل ہو سکتا ہے؟ جبکہ بقیہ تین مراحل میں اس نے کوئی کارکردگی ہی نہیں دکھائی یا ان میں ناکام رہا۔
جب ایک دنیوی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے تمام مراحل میں کارکردگی دکھانا لازم ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جنت انٹری ٹیسٹ کے کل چار مراحل میں سے دو میں ہماری کوئی کارکردگی نہ ہو اور ہم جنت میں داخل بھی ہو جائیں؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمام لوگ خسارے میں ہیں ماسوائے اُن لوگوں کے جنھوں نے ایمان لا کر عمل صالح کیا‘ حق کی تلقین و تبلیغ کی اور ان مراحل کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے رہے۔
حق کی تلقین کے بعد خصوصاً صبر کرنے کا ذکر اس لیے بھی ہوا کہ فرامین قرآن و حدیث کی تبلیغ کا لازمی نتیجہ مشکلات و مصائب کو دعوت دینا ہے۔ حق کی تبلیغ کا بیشتر کام انبیا علیہ السلام نے کیا اور انھیں ہی سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چناںچہ ہر مشکل اور تکلیف پر انھوں نے صبر سے کام لیا۔ اگر کوئی انسان جنت انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہو کر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرے۔
ساتھ ساتھ اپنے گرد و پیش میں موجود لوگوں کو حق کی تلقین بھی کرتا رہے۔ اس تلقین و تبلیغ کی راہ میں جو مصائب و مشکلات پیش آئیں‘ ان پہ صبر بھی کرے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو جنت داخلہ امتحان کے چاروں پرچوں میں کامیابی عطا فرمائے تا کہ وہ ابدی خسارے سے بچ کر جنت میں داخلہ کا آئی ڈی کارڈ حاصل کر سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے ارسلان‘ عائشہ اور فرقان نے اپنے اپنے انٹری ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد متعلقہ تعلیمی ادارے میں داخلہ کا آئی ڈی کارڈ حاصل کیا اور جس کی تمنا عدنان اپنے دل میں لیے بیٹھا ہے۔
http://urdudigest.pk/janat-ka-dakhla-imtihan/#