ایک مثالی خاتونِ خانہ کی باتیں
باتوں سے خوشبو آئے
باتوں سے خوشبو آئے
پھولوں میں ویسے تو گلاب اور موتیا اچھا لگتا ہے لیکن شاعرانہ انداز میں کنول کا پھول اچھا لگتا ہے کہ جو کیچڑ میں کھلنے کے باوجود خوبصورت ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ خوبصورتی ایسی جگہ بھی موجود ہوتی ہے جہاں ہماراگمان بھی نہ ہو۔ زندگی کا ایک طویل سفر طے کر لیا اور اب پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جن بچوں کو کل گود میں اٹھاتے تھے آج وہ شادی کے لائق ہو چکے ہیں۔ اب تو میرے ساس بننے کے دن آگئے ہیں۔ جب ہم بہو بن کر آتی ہیں تو اپنی ساس سے توقعات لگاتی ہیں کہ محبت کرنے والی ہوں زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور ہمیں اپنی بیٹی کی طرح سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ میری کوشش ہوگی کہ جو اُمیدیں میں اپنی ساس سے لگاتی تھی اب اپنی بہو کے لئے انہی امیدوں پر پوری اتروں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ساس میری سہیلی۔ میرے حق میں دعا کیجئے کہ میں اپنی پیاری ماں جیسی شفیق اور نرم خو ساس بنوں۔ یہ خوبصورت باتیں ایک ایسی گھریلو خاتون کی ہیں جن کی شادی میٹرک کے فوراََ بعد کردی گئی تھی۔ باقی علم و دانش انہوں نے کتابوں کے مطالعہ اور زندگی کے تجربات سے سیکھا۔ مختلف طبقہ ہائے فکرسے تعلق رکھنے والے درجنوں خواتین و حضرات کی موجودگی میں محترمہ میم جیم کی آن لائن باتیں پڑھتے ہوئے ایسالگ رہا تھا جیسے ع
رنگ باتیں کرے اور باتوں سے خوشبو آئے
کئی دنوں تک جاری رہنے والے اس مکالمہ میں آپ نے علم و دانش کی بہت سی ایسی باتیں کیں جن سے نئی نسل بالخصوص نوجوان لڑکیوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آئیے محترمہ میم جیم کی کہانی، انہی کی زبانی سنتے ہیں: بچپن ہی سے کم گو اور سنجیدہ ہوں ۔ جب پرائمری میں تھی تو پہلی اور آخری بار امی سے ایک جھوٹ بولا تھا جسے امی نے پکڑ لیا تھا۔ اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ آج جو بوئیں گے ، کل وہی کاٹیں گے ۔ اس لئے اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر آگے کے لئے اچھا سامان بھیجنا چاہیئے۔ کئی سال پہلے سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا ایک ناول ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی“ پڑھا تھا۔ اسے پڑھ کر بہت روئی تھی۔ الحمدللہ میں میوزک کا کوئی شوق نہیں رکھتی ، صرف نعتیں سننے کا شوق ہے۔ کسی قسم کی فلم نہیں دیکھتی اور نہ ایسا شوق ہے ، الحمدللہ۔ اللہ سب کو اس بُرے شوق سے بچائے آمین۔ کبھی کبھی ٹیلی ویژن کے ڈرامے دیکھ لیتی ہوں، حالانکہ یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ مجھے گھریلو اور معاشرتی مسائل پر مبنی ڈرامے اچھے لگتے ہیں لیکن جو ڈرامے آج کل چل رہے ہیں ان میں سے تو شاید پانچ فیصدہی ڈرامے معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں دکھاتے ہوں گے ۔ ہمارے ڈرامے اسلامی ثقافت سے بہت دور ہوتے ہیں۔ ان میں فحاشی ، عریانی اور دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے ڈرامے دیکھ کر معاشرے کے برے کرداروں کو تحریک ملتی ہے اور ان کے اندر جتنی خباثتیں ہوتی ہیں، وہ ظاہر ہوکر باہر ٓآجاتی ہیں۔ اللہ ہم سب کو نفس ا ور شیطان کے شر سے بچائے ۔ آمین۔ شاعری سے کافی لگاؤ ہے۔ اچھی شاعری مجھے متاثر بھی کرتی ہے اور اچھے شاعروں کا کلام پڑھ کر دل خوش بھی ہوتا ہے۔ دوست بنانے میں ہمیشہ کنجوسی کی ، کیونکہ میں بچپن ہی سے کم گو ، سنجیدہ اور بہت لئے دیئے رہنے والی تھی ۔ اسکول کے زمانے میں جو دوست تھیں وہی آج بھی ہیں۔
ماشاءاللہ میری شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ میرے شوہر بہت محبت کرنے والے اور اپنی فیملی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔ انہوں نے ہر وقت میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف یا کمی نہیں ہونے دی الحمدللہ۔ البتہ میں شاید اس انداز سے ان کا خیال نہ رکھ سکی ہوں۔ ازدواجی زندگی میں جب کسی ایک فریق کو کسی بھی بات پرغصہ آجائے تو دوسرے فریق کو مکمل خاموشی اختیار کرلینی چاہئے۔ چاہے اُس کی غلطی ہو یا نہ ہو۔ ہر صورت میں مکمل خاموشی بڑے سے بڑے طوفان کو ٹال دیتی ہے۔ اگر ایک بات کو دونوں ہی انا کا مسئلہ بنالیں تو بات ختم ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلوں میں گنجائش ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ من صمت فقد نجا یعنی جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا (سنن ترمذی۔۱۰۵۲)۔ بالخصوص عورت کو حتی الامکان خلاف مرضی بات پر بھی اپنے شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرکے سب کچھ رب کریم کے سپرد کرکے خاموشی اختیا کرنا چاہئے۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے اپنے مسلمان عورت ہونے پر بہت بہت فخر ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ کسی اورمذہب نے ایسا مقام عورت کو دیا ہی نہیں۔ اور دوسری باعث فخر بات یہ ہے کہ ماں کو جو بلند مقام ملا ہے اس کی وجہ سے بھی مجھے عورت ہونے پر فخر ہے ۔ میرا رواں رواں رب کریم کا شکر گزار ہے کہ اس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔ ہم ساری زندگی اس رب ذوالجلال کے حضور سجدے میں گزار دیں تب بھی اس کا شکر ادا نہ کرسکیں گے۔ الحمدللہ رب العالمین
جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے بہت سی روایات اور لوگوں کی عادات بدلتی جاتی ہیں جو کل تھیں وہ آج ناپید ہیں اور جو آج رائج ہیں وہ شاید کل نہ ہونگی۔ یہی ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور شاید صدیوں تک چلتی رہے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے گذرے کل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمارے کل میں زندہ رہیں۔ ہمارے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے ماضی کی طرح زندگی گزاریں۔ لیکن ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ پھرجب ہمارے بچوں کا دور آتا ہے تو ہم ڈکٹیٹر بن کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی ویسا ہی کریں جیسا ہمارے ماضی میں ہوتا تھا۔ حالانکہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر ہم ایسی توقعات کیوں لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں لچک رکھنی چاہئے تاکہ زندگی پرسکون رہے اور ہمارے بچے بھی ہم سے خوش رہیں۔ لہٰذا میں ایسی امیدیں نہیں لگاتی جو کبھی پوری نہ ہوں۔ زندگی کا توازن بھی اسی بات میں ہے کہ ماضی کے بجائے حال میں زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
آپ لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میں نے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ! میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے۔ میں فیصلہ کرنے میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب بھی ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل معاونت حاصل رہی ۔ عید بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے اُن کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن اُن کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ مجھے خریداری کا بالکل بھی شوق نہیں ہے۔ کوئی اگر مجھ سے بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔
عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ۔ مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا، چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔
آپ لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میں نے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ! میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے۔ میں فیصلہ کرنے میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب بھی ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل معاونت حاصل رہی ۔ عید بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے اُن کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن اُن کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ مجھے خریداری کا بالکل بھی شوق نہیں ہے۔ کوئی اگر مجھ سے بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔
عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ۔ مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا، چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔
میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے، اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔ مجھے میرے رب کریم نے اتنا نوازا ہے کہ اب تو دامن بھی تنگ پڑ گیا ہے۔ بے شک میری ہی جھولی تنگ ہے، اللہ کے ہاں کمی نہیں۔ انسان خواہشات کا غلام ہے ، جتنی بھی پوری ہو جائیں پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ یہ نہیں ملا، وہ نہیں ملا۔ ایک قول ہے کہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہوں کی بھی باقی رہتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خواہشات نہیں پالیں اور ہمیشہ اطمینان قلب حاصل رہا الحمدللہ۔ بس پایا ہی پایا ہی کچھ نہیں کھویا۔ ہاں ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزار دی اور اللہ کی بندگی کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکی۔ پتہ نہیں میں رب کریم کو راضی بھی کر سکی ہوں کہ نہیں اور آخرت میں میرا کیا ہوگا۔ جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گی تو میرے اعمال کے پیش نظر جو ہوگا وہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہوں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔ ماضی کو یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے ۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
عورتوں پر مردوں کے تشدد کے تو خلاف ہوں لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے پچانوے فیصد واقعات میں کہیں نہ کہیں عورتوں کا قصور ضرور ہوتا ہے ۔ اس بات سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں شتر بے مہار مَردوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہوں۔ مرد کو اللہ نے حاکمیت بخشی ہے تو اس کی حدود بھی مقرر فرمادی ہیں۔ اسی طرح عورتوں کو اگر کمزور بنایا ہے تو ان کے لئے بھی بہت سی رعایتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ شوہر کی اطاعت اور خوشنودی کو ہم پر واجب قرار دیا ہے۔ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کے سواجس کام میں شوہرکی خوشنودی ہو، اس کو کرنا ہم پر واجب اور جس میں ناراضگی ہواس سے بچنا لازم ہے۔ لیکن اکثر ہوتا کچھ یوں ہے کہ کہیں ہماری انا ، کہیں ہمارے والدین کی انا اس کام میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے اور یوں پھر پہلے ایک سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور ہوتے ہوتے یہ جنگ توتکار میں بدل جاتی ہے۔یہ سب مرد کی انا پر کاری ضرب لگاتی ہیں اور پھر یہ سارا لاوا ابل پڑتا ہے۔ مرد اپنی طاقت کے بل پر عورت کو دبانا چاہتا ہے تو عورت اسے اپنی توہین سمجھ کر اپنی صفائیاں دیتی ہے جو مرد برداشت نہیں کرتا ۔ نتیجہ پھر ذہنی جسمانی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم صرف مرد کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ اگر عورت اپنی انا کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے اور شوہر کی خوشنودی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو شوہر کو ہاتھ اٹھانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا ۔ اس طرح صرف خاموشی ہی سے اس تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے اور دوسرا راستہ تو تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ آزمائشوں کی بھٹی میں پک کر ہی کندن بنا جاسکتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے بھی یہی ایک راستہ ہے۔ آج کی تکلیفیں کل کی راحتوں میں بدل جائیں گی انشا ءاللہ
مجھے درس و تدریس کا بہت شوق تھا ۔ خیال تھا کہ اسی شعبہ کو اختیار کروںگی لیکن پھر میٹرک کے فوراً بعد ہی شادی ہوگئی۔ مجھے اپنی پیاری امی کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا اور تا زندگی ان کی شخصیت کا عکس میرے دل پر نقش رہے گا۔ کراچی میں تو مجھے بس اپنا گوشئہ عافیت اپنا پیارا گھر سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ساحل سمندر بہت اچھا لگتا ہے ۔ اپنا ملک پاکستان بڑا ہی خوبصورت ہے لیکن ابھی تک اس کی سیر کا ٹھیک سے موقع نہیں ملا ۔ بہت مختصر قیام لاہور، ملتان اور حیدرآباد میں رہا۔ لیکن کراچی تو کراچی ہے اس کے علاوہ کہیں دل نہیں لگتا۔ میرے بچے ماشاءاللہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انکی مطالعہ کی عادت مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اچھائی اور برائی اس دنیا میں موجود ایسی حقیقتیں ہیں کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ہماری آزمائشیں ہیں کہیں ہم اس میں پورے اترتے ہیں اور کہیں ہم شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ہر خاندان میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں ، پہلے کے مقابلے میں اس وقت برائی کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے یا پہلے لوگ ڈھکے چھپے برے کام کرتے تھے اب کھلم کھلا کرتے ہیں۔ بہرحال شیطان کا مکرو فریب تو صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک کے لئے اس کو اللہ نے چھوٹ بھی دی ہے اور طاقت و قوت بھی۔ لیکن جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ اسکے بہکاوے میں نہیں آتے۔ جہاں تک رشتہ داریوں میں دراڑیں ڈالنے والی بات ہے تو شیطان کا محبوب مشغلہ ہی قریبی عزیزوں میں جدائی ڈالنا ہے۔ اور اس کے آلہ کار یہ کام ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں اور خاندانی سیاست کا بازار ہر جگہ گرم رہتا ہے۔ کبھی کوئی اسکا نشانہ بنتا ہے تو کبھی کوئی۔ ہمارا مذہب ہمیں آپس کے میل جول کی تعلیم دیتا ہے اور بنیادی طور پر ہمیں گناہ سے نفرت کا درس دیتا ہے گناہ گار سے نہیں۔ اس لئے ملنا جلنا بھی بہت ضروری ہے۔ لیکن لوگوں سے ملنے ملانے میں احتیاط لازم ہے اور اپنا رویہ بالکل لئے دیئے رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ ہماری کمزوریوں کو پکڑ کر ہمیں بلیک میل نہ کر سکے اور ہماری خامیاں کسی اور کو بتا کر ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے ۔
میرا خیال ہے کہ لڑکیوں کو بلا ضرورت ملازمت نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی مجبوری ہو یا معاشی طور پر تنگی ہو تب ایسا کرنا ٹھیک ہے لیکن اگر معاشی الجھنیں نہ ہوں اور بظاہر کوئی مجبوری بھی نہ ہو تو پھر بلاوجہ گھر سے باہر نکل کر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے کیا حاصل ہے؟ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے ، چاہے وہ ماں باپ کا گھر ہو یا شوہر کا ، اسی پر توجہ دینا ہماری زندگی کا نصب العین ہے ۔ شوقیہ ملازمت اختیار کرکے ہم اپنے سر دوہری ذمہ داریاں ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم مردوں سے کسی طور کم تھوڑی ہیں۔ یہی زعم تو معاشرتی بگاڑ کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر لڑکی یا عورت اس زعم میں مبتلا نہیں ہوتی لیکن اکثریت اس نظریے کی یا تو حامی ہوتی ہے یا پھر یہ معاشرہ اس کو باغی کردیتا ہے تو وہ ایسا سوچنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے لگتی ہے۔ بہرحال کچھ مثبت سوچ کی حامل لڑکیاں اور عورتیں اب بھی ہیں مگر ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ پیشہ ورانہ شعبہ کا چناؤ اور شادی کے معاملات میں بچوں کی رائے اور مرضی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ تاہم اپنے بچوں کو صحیح رہنمائی دینا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ بچے عمر کے جس حصے میں ہوتے ہیں وہاں جذبات زیادہ اور عقل کااستعمال کم ہوتا ہے۔ لہٰذابچوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھا کرانہیں ان کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ آگے جو ان کا نصیب۔ البتہ کچھ جگہ پر بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ حتی الا امکان انہیں سمجھانا ہی چاہئے ۔ والدین نے ایک طویل عمر گزاری ہوتی ہے اور اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جو بھی اپنے بچوں کو سمجھائیں گے، وہ غلط نہیں ہوگا۔ اب یہ بچوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے فیصلوں سے استفادہ کرتے ہیں یا نہیں۔
مجھے صبح کا وقت اچھا لگتا ہے اس لئے کہ اس وقت تازگی کا احساس بہت ہوتا ہے۔ جب بہت بوریت ہورہی ہوتی ہے تو کبھی کبھار کوئی سا بھی چینل لگا لیتی ہوں۔ جب سیاستدانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں دیکھوں تو طبیعت اور مکدر ہو جاتی ہے ۔ پھر کسی کتاب کا مطالعہ کرکے یا نیٹ کھول کر اپنا دھیان بٹاتی ہوں۔ ویسے ٹاک شوزمیں سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ہی میں مصروف ہوتے ہیں۔ قوم کو کیا مسائل درپیش ہیں اس کا تو انہیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ نہ جاننے کا تو ایک ہی دکھ ہے، پر آگہی کے ہزار دکھ ہیں۔ میں کوکنگ شوز شوق سے دیکھتی ہوں اور جو ترکیب اچھی لگے وہ لکھ لیتی ہوں۔ پھراسے آزما کر داد بھی وصول کرتی ہوں۔
کراچی کے حالات ہوں یا پورے ملک کے، اب ان میں سدھار آنا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ہم دن بدن اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر شخص خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھنے لگا ہے۔ حق لینا تو جانتے ہیں لیکن دینا نہیں۔ ہر برائی کی جڑجھوٹ اوربددیانتی ہے ، جومعاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے۔ اپنے دین کے اصولوں کی خلاف ورزی نے ہمیں کمزور اور رو بہ زوال کر دیا ہے۔ بس اب تو صرف ربِ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ آہ و زاری کی ضرورت ہے کہ وہی ہمیں ان پستیوں سے نکال سکتا ہے۔ عام خواتین ہوں یا مرد ہم سب ایک ہی جیسے تعصب میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے سوا سب کو غلط سمجھتی ہیں۔ یہی عمومی رویہ ہے جو بد امنی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان میں بھی آپس کی محبتیں اور اتفاق سرے سے کہیں نظر نہیں آتا اور چھوٹی چھوٹی باتیں رنجشوں کا سبب بن جاتی ہیں اور پھر مدتوں تک ہم اپنے دل میں عداوتوں کو پالتے رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین
موجودہ پود بہت ذہین و فطین ہے۔ میں اپنی نسل سے نئی نسل کا مقابلہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس عمر میں تو ہم بالکل بدھو اور احمق تھے۔ جس عمر میں ہمارے بچے ہم سے دس گنا زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں اور بہتر طریقے سے چیزوں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں ہم تو آج اس عمر میں بھی کورے کے کورے ہی ہیں۔ ویسے ہماری نسل میں سادگی بہت تھی لیکن آج کا زمانہ بہت نمائشی ہو گیا ہے۔ معیارِ زندگی بہت زیادہ بلند ہو گیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس اور خوبصورتی ختم ہو گئی ہے ۔ ہمارے زمانے میں بے شک اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں لیکن رشتوں میں خلوص اور محبت تھی۔ اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کی آسائشیں تو مل گئیں لیکن اخلاص رخصت ہو گیا۔ بھئی کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں زمانے کے چال چلن بہت بدل گئے ہیں اور ایسا تو ہوتا ہی رہے گا ۔ جب تم لوگ ہماری عمروں کو پہنچو گے تو اپنے بچوں سے ایسے ہی کہوگے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اور وہ کہیں گے کہ آپ کا زمانہ اور تھا ہمارا زمانہ اور ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے یہ اسی طرح بدلتی رہے گی جسے لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں ۔ ہماری نسل کے لوگ اس کو اپنی اقدار سے دوری کہتے ہیں۔ پتہ نہیں ہم صحیح ہیں یا ہمارے بچے؟
کراچی کے حالات ہوں یا پورے ملک کے، اب ان میں سدھار آنا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ہم دن بدن اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر شخص خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھنے لگا ہے۔ حق لینا تو جانتے ہیں لیکن دینا نہیں۔ ہر برائی کی جڑجھوٹ اوربددیانتی ہے ، جومعاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے۔ اپنے دین کے اصولوں کی خلاف ورزی نے ہمیں کمزور اور رو بہ زوال کر دیا ہے۔ بس اب تو صرف ربِ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ آہ و زاری کی ضرورت ہے کہ وہی ہمیں ان پستیوں سے نکال سکتا ہے۔ عام خواتین ہوں یا مرد ہم سب ایک ہی جیسے تعصب میں مبتلا ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے سوا سب کو غلط سمجھتی ہیں۔ یہی عمومی رویہ ہے جو بد امنی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان میں بھی آپس کی محبتیں اور اتفاق سرے سے کہیں نظر نہیں آتا اور چھوٹی چھوٹی باتیں رنجشوں کا سبب بن جاتی ہیں اور پھر مدتوں تک ہم اپنے دل میں عداوتوں کو پالتے رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین
موجودہ پود بہت ذہین و فطین ہے۔ میں اپنی نسل سے نئی نسل کا مقابلہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس عمر میں تو ہم بالکل بدھو اور احمق تھے۔ جس عمر میں ہمارے بچے ہم سے دس گنا زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں اور بہتر طریقے سے چیزوں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں ہم تو آج اس عمر میں بھی کورے کے کورے ہی ہیں۔ ویسے ہماری نسل میں سادگی بہت تھی لیکن آج کا زمانہ بہت نمائشی ہو گیا ہے۔ معیارِ زندگی بہت زیادہ بلند ہو گیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس اور خوبصورتی ختم ہو گئی ہے ۔ ہمارے زمانے میں بے شک اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں لیکن رشتوں میں خلوص اور محبت تھی۔ اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کی آسائشیں تو مل گئیں لیکن اخلاص رخصت ہو گیا۔ بھئی کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں زمانے کے چال چلن بہت بدل گئے ہیں اور ایسا تو ہوتا ہی رہے گا ۔ جب تم لوگ ہماری عمروں کو پہنچو گے تو اپنے بچوں سے ایسے ہی کہوگے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اور وہ کہیں گے کہ آپ کا زمانہ اور تھا ہمارا زمانہ اور ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے یہ اسی طرح بدلتی رہے گی جسے لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں ۔ ہماری نسل کے لوگ اس کو اپنی اقدار سے دوری کہتے ہیں۔ پتہ نہیں ہم صحیح ہیں یا ہمارے بچے؟
زیادہ بولنے سے صحت پرتو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن خود ہم اپنے الفاظ کے پھیر میں اکثر پھنس جاتے ہیں۔ جب کھانا پکانا نہیں آتا تھا تو بورنگ لگتا تھا لیکن جب سنجیدگی سے سیکھا تو یہی کام اچھا لگنے لگاہے۔ پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادت ہے۔ اصل میں چیزیں سنبھال کر رکھنے سے ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کی یادوں میں رہنا چاہتے ہیں اور پرانی چیزیں ہمیں ماضی کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ جب ہم کئی سال پرانی چیزیں دیکھتے ہیں تو اس سے جڑی کئی خوشگوار باتیں ایک عجیب سی خوشی کا احساس دلاتی ہیں۔ شادی بیاہ میں ایسی کوئی خاص رسم یا چیز نہیں ہے جو نہ ہو تو کوئی بد شگونی کہلائے ۔ اس لئے کہ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں کہ یہ ہو ، وہ نہ ہو۔ جتنی فضول رسموں سے بچیں اتنا ہی اچھا ہے تاکہ کسی پر بلاوجہ کا بار نہ ہو اور کوئی ہماری بے جا خواہشات سے تنگی کا شکار نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں میں آسانیاں بانٹنی چاہئیں تاکہ اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے۔ صفائی والی سے کام کرانے کا گر یہ ہے کہ اس کے پیچھے پیچھے رہو اور اس کے کاموں پر کڑی نظر رکھو۔ نرمی اور سختی دونوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے اگر صرف نرمی سے کام لیں گے تو وہ آہستہ آہستہ کاموں سے غافل ہوتی جائے گی اور اگر صرف سختی ہی کرتے رہیں تو وہ گھبرا کے کام چھوڑ کر چلی جائے گی لہٰذا کبھی نرم اور کبھی گرم۔
شادی جیسے مذہبی فریضہ کو ادا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے۔ قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی۔ عورت چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہوتے ہوئے بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہی کیوں نہ ہو، تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ۔ میری یہ بات آزادی حقوقِ نسواں کی تنظیموں کو بُری لگے گی اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو ان کے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے۔ ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے۔ جیسے گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ دنیا کی کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے ۔
میرے خیال میں لڑکیوں کی شادی کے لئے بہترین عمر بیس سے پچیس کے درمیان ہوتی ہے ۔ اِس عمر سے چھوٹی لڑکیاں ذہنی طور پر ناپختہ ہوتی ہیں تو سسرال کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پاتیں۔ اور قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب کہ بیس تا پچیس برس کی لڑکیوں میں ذہنی طور پر پختگی آجاتی ہے اور وہ سسرال کے معاملات کو اچھے طریقے سے سمجھ لیتی ہیں اور پھر سمجھداری سے اپنے گھر کو چلاتی ہیں۔ ویسے سمجھداری کا تعلق صرف عمر سے نہیں ہوتا بلکہ تعلیم و تربیت بھی اس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم تو ہمیشہ ہی بہت ضروری رہی ہے لیکن آج کے دور میں تو بے حد اہم ہے۔ کم از کم بی اے تو ضرورکرنا چاہئے اور اگر ایم اے کر لیں تو اور بھی اچھا ہے۔ اگر تو لڑکی کی تعلیم ادھوری رہ جائے تو بعد میں اس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اگر دوران تعلیم کوئی اچھا رشتہ آجائے تو باہمی مشاورت سے اس بات پر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تعلیم مکمل ہوجائے یا شادی کے بعد لڑکی اپنی تعلیم مکمل کرلے ۔ لڑکی کی خود اعتمادی کے لئے تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہی ہو، جیسے، طب، انجینئرنگ یا قانون وغیرہ تو میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی اسی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے۔ پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔ اسپیشلائزیشن ، پریکٹس یا کیرئیر میں قدم جماتے جماتے لڑکی کی عمر اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ کبھی قسمت ہی سے کوئی اچھا رشتہ آتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پھر آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اچھے رشتوں کواسپیشلائزیشن یا پریکٹس وغیرہ کا بہانہ بنا کر انکارنہ کیا جائے۔ اللہ کا نام لے کر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہے ۔ البتہ جن لڑکیوں کی کسی بھی وجہ سے شادی نہ ہوسکے توایسی لڑکیوں اور عورتوں کو سماجی بہبود کے کاموں میں تن من دھن سے مشغول ہوجانا چاہئے کہ یہ ہماری زندگی کا بہترین مصرف بھی ہے اور کسی کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ جانا بذاتِ خود بہت بڑی نیکی بھی ہے ۔ ویسے تومعاشرے کے تمام افراد کو بقدرِ استطاعت فلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے لیکن چونکہ شادی شدہ افراد اپنے گھر گرہستی میں جڑ جاتے ہیں تو وہ ذمہ داریاں ان کی پہلی ترجیح بن جاتی ہیں ۔ اس لئے غیر شادی شدہ لوگ اس کام کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں تو اس میں وقت کا زیاں بھی نہیں ہے اور دین و دنیا میں فلاح کا باعث بھی ہے۔
( http://www.urduweb.org/mehfil/forumبہ شکریہ ۔ )
( http://www.urduweb.org/mehfil/forumبہ شکریہ ۔ )