Friday 24 February 2012

پھر سوئے حرم لے چل ۔ حصہ دوم

آدابِ حرمین شریفین: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے ”حرم“ ہونے کا اعلان کیا تھا اور میں مدینہ کے ”حرم“ قرار دیئے جانے کا اعلان کرتا ہوں۔ اس کے دونوں طرف کے دروں کے درمیان پورا رقبہ واجب الاحترام ہے۔ اس میں خوں ریزی کی جائے اور نہ کسی کے خلاف ہتھیاراٹھایاجائے۔ جانوروں کے چارے کی ضرورت کے سوا درختوں کے پتے بھی نہ جھاڑے جائیں۔ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ (صحیح مسلم


احرام: سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کنگھی کرنے اور تیل ڈالنے اور چادر تہہ بند پہننے کے بعد مدینہ سے چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی چادر اور تہہ بند کے پہننے سے منع نہیں فرمایا سوائے زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے کے جس سے بدن پر زعفران جھڑے۔ پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں اپنی سواری پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب مقامِ بیداءمیں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے لبیک کہا اور اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں ہار ڈالے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کو مکہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قربانی کے جانوروں کی وجہ سے احرام سے باہر نہیں ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گلے میں ہار ڈال چکے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بلندی پر مقام حجوں کے پاس اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کا احرام باندھے ہوئے تھے طواف کرنے کے بعد آپ کعبہ کے قریب بھی نہ گئے یہاں تک کہ عرفہ سے لوٹ آئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کا اور صفا مروہ کا طواف کریں اس کے بعد اپنے بال کتروا ڈالیں اور احرام کھول دیں۔اور بال کتروانے کے بعد جس کے ہمراہ اس کی بیوی ہو اس سے صحبت کرنا، خوشبو لگانا اور کپڑے پہننا سب جائز ہوگیا۔ سیدنا یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورپوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہے، جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو حالانکہ وہ خوشبو سے تر ہو؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو خوشبو تجھے لگی ہوگی اس کو تین مرتبہ دھو ڈالو اور اپنا جبہ اپنے جسم سے اتار دو اور عمرہ میں بھی اسی طرح اعمال کرو جس طرح اپنے حج میں کرتے ہو۔ (صحیح بخاری


سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حج کیلئے مکہ جانے کا ارادہ کرتے تو تیل لگاتے جس میں خوشبو نہ ہوتی تھی پھر ذوالحلیفہ کی مسجد میں آتے اور نماز پڑھتے اس کے بعد سوار ہوتے پھر جس وقت وہ سوار ہوتے اور سواری کھڑی ہوجاتی تو احرام باندھتے اس کے بعد کہتے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم حج کے مہینے میں حج کے احرام کے ساتھ مدینے سے نکلے پھر ہم مقامِ سرف میں اترے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تم میں سے جس شخص کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اور وہ چاہے کہ اس احرام سے عمرہ کرے تو وہ ایسا کرلے اور جس شخص کے ہمراہ جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ اُمُّ المو منین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجة الوداع کے سال مکہ کی طرف چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا یہاں تک کہ قربانی کا دن آگیا۔ اُمُّ المومنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کرکے احرام سے باہر ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کرکے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کرلوں احرام سے باہر نہیں آسکتا۔ (بخاری


مردوں اورعورتوں کے احرام کا فرق: حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والاکیا کیا کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حالت احرام میں نہ تو قمیض پہنو اور نہ پاجامہ ۔ نہ ہی سر پر عمامہ پہنو اور نہ پاؤں میں موزے پہنو۔ ایسا کوئی کپڑا بھی نہ پہنو جس کو زعفران یاخوشبو لگا ہو۔ (صحیح مسلم) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کو احرام کی حالت میں دستانے پہننے اور چہرے پر نقاب ڈالنے اور زعفران یا خوشبو لگے کپڑوں کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے وہ چاہیں پہن سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ چاہیں تو زیور بھی پہن سکتی ہیں اور شلوار اور قمیض اور موزے بھی پہن سکتی ہیں۔ (سنن ابی داؤد


احرام کھولنا: سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج میں سر کے بالوں کو منڈوا ڈالا تھا۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید کہتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بال کتروانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اﷲ سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بال کتر وانے والوں پر بھی رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا کہ بال کتروانے والوں پر بھی رحمت فرما۔ (بخاری


تلبیہ پڑھنا: سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھتے ہی تلبیہ یعنی لبیک نہیں پکارا ۔ البتہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب پہنچے تو تلبیہ پڑھی۔ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ سے مزدلفہ تک سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمر کاب تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہمرکاب کرلیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دونوں صحابیوں کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرة العقبہ کی رمی کی۔ سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا ” اے اﷲ میں تیرے دروازہ پر بار بار حاضر ہوں اور تیرے بلانے کا جواب دیتا ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہر طرح کی تعریف اور احسان تیرا ہی ہے اور بادشاہی تیری ہی ہے کوئی تیرا شریک نہیں۔ (بخاری


خلاد بن سائب تابعی اپنے والد سائب بن خلاد انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم پہنچایا کہ میں اپنے ساتھیوں کو حکم دوں کہ تلبیہ بلند آواز سے پڑھیں۔ (موطا امام مالک، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی): حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کا مومن و مسلم بندہ جب حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارتا ہے ۔تو اس کے داہنی طرف اور بائیں طرف اﷲ کی جو بھی مخلوق ہوتی ہے خواہ وہ بے جان پتھر اور درخت یا ڈھیلے ہی ہوں وہ بھی اس بندے کے ساتھ لبیک کہتی ہیں۔ ( ترمذی، ابن ماجہ) عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب احرام باندھ کر تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اﷲ تعالیٰ سے اس کی رضا اور جنت کی دعا کرتے اور اس کی رحمت سے دوزخ سے خلاصی اور پناہ مانگتے(مسند شافعی
  
کعبہ اور طوافِ کعبہ: اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہوگیا تھا۔ میںنے عرض کیا کہ کعبہ کا دروازہ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہاری قوم نے اس لئے کیا تھا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کا زمانہ، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہوگا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کردیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملادیتا ۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کردینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کردیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کردیتا اور اس کو زمین سے ملادیتا اور اس میں دروازے بناتا ایک شرقی دروازہ اور ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کے موافق کردیتا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کردے گا۔ ایک اور حدیث میںسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گویا کہ میں اس سیاہ فام شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔ (بخاری


طوافِ کعبہ میں رمل کرنا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ جب حج کرنے مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے یہ چرچا کیا کہ اب ہمارے پاس ایک ایساگروہ آنے والا ہے جس کو یثرب کے بخار نے کمزور کردیا ہے پس اس بات کی اطلاع پاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان معمولی چال چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حکم کے دینے سے کہ لوگ تمام چکروں میں رمل نہ کریں یہ منظور تھا کہ لوگوں پر سہولت ہو، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہ تھی۔سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے تو پہلے طواف میں حجر اسود کا بوسہ دیتے اور سات چکروں میں سے تین میں رمل کرتے۔ (بخاری

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا پھر طواف کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ عمل عمرہ کے لےے نہیں تھا۔ پھر امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی طرح کیا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ رسی سے باندھا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کو رسی کے ذریعہ کھینچ رہا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسی کو اپنے ہاتھ سے توڑدیا پھر فرمایا کہ اسے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر لے چل۔ (بخاری) سیدنا ابن ِعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلا طواف کرتے تھے تو اس کے تین چکروں میں رمل یعنی دوڑ کر چلا کرتے تھے اور اگلے چار چکروں میں مشی یعنی معمولی چال سے چلا کرتے تھے اور صفاومروہ کے درمیان سعی کرتے تو بطن المسیل میں سعی (دوڑا) کرتے تھے۔ (بخاری)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو سب سے پہلے حجر اسود پر آئے اور اس کا استلام کیا۔ پھر آپ نے داہنی طرف طواف شروع کیا۔ پہلے تین چکروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیااور اس کے بعد چار چکروں میں آپ اپنی عام رفتار سے چلے۔ ( مسلم) حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت اﷲ کا طواف نماز کی طرح کی عبادت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ طواف میں تم کو باتیں کرنے کی اجازت ہے۔ جو کوئی طواف کی حالت میں کسی سے بات کرے تو نیکی اور بھلائی کی بات کرے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی ، سنن دارمی


حجرہ اسود اور رکن یمانی: امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ طواف میں حجراسود کے پاس آئے پھر اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کو تیرا بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجةالوداع میں اپنے اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا، اور لاٹھی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا۔ یعنی حجر اسود کو لاٹھی لگا کر اسے چوم لیا۔ (بخاری


حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: خدا کی قسم! قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کو نئی زندگی دے کر اس طرح اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گا۔ اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا۔ جن بندوں نے اس کا استلام کیا ہوگیا ان کے حق میں سچی شہادت دے گا۔ ( ترمذی، ابن ماجہ، سنن دارمی) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ حجر اسود اور رکن یمانی ان دونوں پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے۔ جس نے اﷲ کے اس گھر کا سات بار طواف کیا اور اہتمام اور فکر کے ساتھ کیاتو اس کا یہ عمل ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوگا۔ بندہ طواف کرتے ہوئے جب ایک قدم رکھ کر دوسرا قدم اٹھائے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ ایک گناہ معاف کرے گا اور ایک نیکی کا ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا (ترمذی


حضرت عبداﷲ بن السائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (سنن ابی داؤد)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جوہر اس بندے کی دعا پر امین کہتے ہیں جو اسکے پاس یہ دعا کرے کہ : اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ االعَفوَ وَالعَافِیَةَ فِی الدُّنیَا وَالا خِٰرَةِ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَةً وَّفِی الا خِٰرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (اے اﷲ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں معافی اور عافیت مانگتا ہوں۔ اے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی، اور دوزخ کے عذاب سے ہم کو بچا!)۔ (سنن ابن ماجہ


زم زم کا پانی : سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو زم زم کا پانی پلایا تو آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔(بخاری


صفا و مروا کی سعی : اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی بہن کے بیٹے عروہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے قول (ترجمہ) ”بے شک صفا اور مروہ دونوں اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے“ (بقرہ۔ ۸۵۱) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واﷲ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی پر کچھ گناہ نہیں اگر وہ صفاومروہ کی سعی نہ کرے؟ اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے بھانجے! تم نے بہت بُرا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی (ترجمہ) بے شک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مسلمان ہونے سے پہلے ”مناة“ بت کی پوجا کرتے تھے ۔یہ لوگ زمانہ جاہلیت میں جب احرام باندھتے تو صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اس بارے میں دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہم صفاومروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے۔ تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ صفا و مروہ کی سعی کو ترک کردے۔ (بخاری

قیامِ منیٰ : سیدنا انس بن مالک سے عبدالعزیز بن رفیع نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نے ظہر اور عصر کی نمازیں آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھیں؟ تو انہوں نے کہا ”منیٰ میں“ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ نفر کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ”ابطح میں“ پھر سیدنا انس رضی اللہ تعلیٰ عنہ نے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔ (بخاری) عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کوفرماتے سنا: حج وقوف عرفہ ہے۔ جو حاجی مزدلفہ والی رات یعنی 9 اور10 ذی الحجہ کی درمیانی شب میں بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پالیا اور اس کا حج ہوگیا۔ منیٰ میں قیام کے تین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے 11، 12، 13 ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی11، 12 ذی الحجہ کو رمی کرکے منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ ( ترمذی، ابی داؤد، نسائی، ابن ماجہ،


یومِ عرفہ : سیدناعبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرفہ کے دن زوالِ آفتاب کے بعد حجاج کے خیمے کے قریب آکر بلند آواز دی تو حجاج نے باہر نکل کر پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو تجھے اسی وقت وقوف کے لےے چلنا چاہیئے۔ حجاج نے عرض کیا کہ مجھے اتنی مہلت دیجئے کہ میں اپنے سر پر پانی ڈال لوں۔ پھر حجاج نکلا تو چل پڑے ۔ اس موقع پر موجودسالم بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجاج سے کہا کہ اگر تو سنت کی پیروی چاہتا ہے تو خطبہ مختصر پڑھنا اور وقوف میں عجلت کرنا تو وہ حجاج عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھنے لگا ۔جب عبداﷲ بن عمرنے کہا کہ سالم صحیح کہتے ہیں ۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حجةالوداع میں عرفات سے روانہ ہوئے تو کس طرح چل رہے تھے؟ تو سیدنا اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہجوم میں بھی تیز تیز چل رہے تھے اور جب میدان صاف ہوتا تو اور بھی تیز چلنے لگتے۔ (بخاری


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ ہم مزدلفہ میں اترے تو اُمُّ المومنین سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور وہ ایک سست عورت تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی اور وہ لوگوں کے ہجوم سے پہلے چل دیں اور ہم لوگ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی پھر ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔مگر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی کہ میں تمنا کرتی تھی کہ کاش میں نے بھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی جس طرح کہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لے لی تھی تو مجھے ہر خوشی کی بات سے زیادہ پسند ہوتا۔ (بخاری


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اﷲ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ اپنے بندوں کے لئے جہنم سے آزادی اور رہائی کا فیصلہ کرتا ہو۔ اس دن اﷲ تعالیٰ اپنی صفت ر حمت کے ساتھ عرفات میں جمع ہونے والے اپنے بندوں کے بہت ہی قریب ہوجاتا ہے اور ان پر فخر کرتے ہوئے فرشتوں سے کہتا ہے کہ دیکھتے ہو!میرے یہ بندے کس مقصد سے یہاں آئے ہیں؟(صحیح مسلم) تابعی حضرت طلحہ بن عبید اﷲ کریز سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شیطان کسی دن بھی اتنا ذلیل خوار، پھٹکارا ہوا اورجلا بھنا ہوا نہیں دیکھا گیا جتنا وہ عرفہ کے دن دیکھا جاتا ہے۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس دن رحمتِ الٰہی کوبرستے ہوئے اور بڑے بڑے گناہوں کی معافی کا فیصلہ ہوتے دیکھتا ہے ۔(موطا امام مالک)


وقوف ِمزدلفہ : سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سب لوگوں کے ہمراہ مزدلفہ گئے اور ہم نے مغرب اور عشاءکی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں ۔ ہر نماز کے صرف فرض پڑھے اذان و اقامت کے ساتھ اور دونوں نمازوں کے درمیان کھانا کھایا اس کے بعد جب صبح کا آغاز ہوا تو فوراً فجر کی نماز پڑھ لی۔ نماز سے فراغت پانے کے بعد سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ دونوں نمازیں اس مقام یعنی مزدلفہ میں اپنے وقت سے ہٹادی گئی ہیں مغرب اور عشائ۔ پس لوگوں کو چاہیئے کہ جب تک عشاء کا وقت نہ ہوجائے مزدلفہ میں نہ آئیں اور فجر کی نماز صبح صبح اسی وقت پڑھیں۔ جب خوب سفیدی پھیل گئی تو عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اب منیٰ کی طرف چل دیتے تو سنت کے موافق کرتے ۔چنانچہ امیر المومنین نے کوچ کردیا ۔ پھر سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر تلبیہ کرتے رہے اور قربانی کے دن جمرةالعقبہ کو کنکریاں ماریں۔تب تلبیہ موقوف کردیا۔ امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نماز مزدلفہ میں پڑھی پھر ٹھہرے رہے اس کے بعد فرمایا کہ مشرک لوگ جب تک آفتاب طلوع نہ ہوتا یہاں سے کُوچ نہ کرتے تھے اورثبیر نامی پہاڑ سے کہا کرتے تھے کہ اے ثبیرآفتاب کی کرنوں سے چمک جا۔بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت فرمائی تھی۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آفتاب کے نکلنے سے پہلے ہی کوچ کردیا۔ (بخاری


حج کی قربانی: سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام سے باہر آجاؤ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہوکر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ جب ترویہ کا دن آجائے تو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کردو تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم اس کو تمتع کردیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے۔ (بخاری


سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجةالوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے آپ نے عمرہ کا احرام باندھا۔ اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اُسے چاہیئے کہ کعبہ کا طواف اور صفامروہ کی سعی کر کے بال کتر والے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو کو صرف حج کا احرام باندھے ۔پھر حج کرے اور قربانی کرے۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔ (بخاری


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو قربانی کا جانور ہے اس پرکیسے سوار ہوسکتا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ۔ سیدنا مسور بن مخرمة رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مروان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور عمرہ کا احرام باندھا۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں، قربانی کیلئے روانہ کی تھیں۔ ایک اور روایت میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کردیتے تھے اور حج پر نہ جانے کے باعث اپنے گھر میں بغیر احرام کے رہتے تھے۔ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے قربانی کے جانوروں کے لےے ہار بنائے تھے۔(بخاری


سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منحر میں یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کرنے کی جگہ پر قربانی کیا کرتے تھے۔سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اونٹ کو نحر کرنے کے لےے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کرکے اس کا پیر باندھ دے پھر اس کو نحر کر کیونکہ یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے جانوروں کے پاس کھڑا رہوں اور ان کی بنوائی کی اجرت میں قصاب کو گوشت یا کھال وغیرہ نہ دوں۔ سیدنا جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا کہ کھاؤ اور ساتھ لے جاؤ ۔ پس ہم نے کھایا بھی اور ساتھ بھی لے کرآئے۔ (بخاری

حضرت عبداﷲ بن قرط سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت والا دن یوم النحر(10 ذی الحجہ) ہے۔ اس کے بعد اس سے اگلا دن یوم القر(11 ذی الحجہ) کا درجہ ہے۔ اس کے بعد (یعنی 12 ذی الحجہ) اگر کی جائے تو ادا تو ہوجائے گی ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ یا چھ اونٹ کے لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لائے گئے تو ان میں سے ہر ایک آپ کے قریب ہونے کی کوشش کرتا تھا، تاکہ پہلے اسی کو آپ ذبح کریں۔ ( ابو داؤد

طوافِ زیارت: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو دسویں ذی الحجہ کی رات تک موخر کرنے کی اجازت دی ۔ (گو طوافِ زیارت 10 ذی ا لحجہ کے دن افضل ہے تاہم اس دن کے ختم ہونے کے بعد رات میں بھی کیا جاسکتا ہے) ۔حضرت حارث ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج یا عمرہ کرے تو چاہئے کہ اس کی آخری حاضری بیت اﷲ پر ہو اور آخری عمل طواف ہو۔ (مسند احمد


جمرات کی رمی کرنا: سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا کہ جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔ اس نے دوبارہ ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور آفتاب ڈھل جا نے کے بعد کنکریاں مارتے۔سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! محمد کے رمی کرنے کی جگہ یہی ہے ۔سیدنا عبداﷲ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کرلیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کی ۔سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارتے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہوجاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آجاتے تھے اورکہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمرات پر کنکریاں پھینکنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ذکر اﷲ کی گرم بازاری کے وسائل ہیں۔(جامع ترمذی، سنن دارمی)


طوافِ وداع : سیدنا ابنِ عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ان کا آخری وقت کعبہ کے ساتھ ہو یعنی مکہ سے واپسی کے وقت کعبہ کا طواف کرکے جائیں مگر حائضہ عورت کو یہ معاف کردیا گیا تھا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو عورت طوافِ زیارت کے بعد حائضہ ہوئی ہو اس کے لےے جائز ہے کہ وہ طوافِ وداع کےے بغیرمکہ سے چلی جائے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حائضہ عورتوں کوایسا کرنے کی اجازت تھی۔ (بخاری

مدینة النبی صلی اللہ علیہ وسلم :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں کا دستور تھا کہ جب وہ درخت پر نیا پھل دیکھتے تو اس کو لاکر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے، آپ اس کو قبول فرما کر اس طر ح دعا فرماتے : اے اﷲ! ہمارے پھلوں اور پیدا وار میں برکت دے، اور ہمارے شہر مدینہ میں برکت دے، اور ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت دے ! الہٰی ! ابراہیم علیہ السلام تیرے خاص بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعا کی تھی اور میں مدینہ کے لئے تجھ سے ویسی ہی دعا کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم


مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتا۔“ ( صحیح مسلم) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مسجد نبوی میں مسلسل ۰۴ نمازیں پڑھیں اورایک نماز بھی فوت نہیں کی اس کے لئے دوزخ سے نجات اور نفاق سے برات لکھ دی جائے گی۔(مسند احمد، معجم اوسط للطبرانی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ ہے ۔ میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔ (صحیح مسلم


روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے حج کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (شعب الایمان للبیہقی ، معجم کبیر و معجم اوسط للبطرانی)۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگی۔ ( ابن خزیمہ، سنن دار قطنی ، بیہقی 

پھر سوئے حرم لے چل ۔ حصہ اول

پھر سوئے حرم لے چل


بلا شبہ اللہ اپنے بندوں پر بہت رحیم و شفیق ہے۔بندہ جب صدقِ دل سے اللہ کے گھر جانے کا ارادہ کر لے تو وہ اس کے لئے راستے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔ گذشتہ برس جب ہم نے حج کی نیت کی تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور جملہ مشکلات دور ہوتی چلی گئیں اورہم نے حج کی تیاری شروع کردی کہ رب العالمین کا فرمان ہے : اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو۔(البقرہ ۔ 196 ) عمرہ ادا کرنے کی سعادت تو دو برس قبل ہی اہلیہ کے ہمراہ اور اس سے کافی عرصہ قبل سعودی عرب میں اپنے مختصر قیام کے دوران کئی مرتبہ حاصل کرچکا تھا، مگر حج کا فریضہ ابھی باقی تھا۔ لہٰذا ہم اپنے گناہوں سے چھٹکارا پانے کے لےے عازمینِ حج کی صف میں شامل ہوگئے کہ گناہوں کی یہ گٹھری کافی وزنی ہوچکی تھی کیونکہ اب ع میںنصف صدی کا قصہ ہوں ،دوچار برس کی بات نہیں ۔موسیٰ لین لیاری کراچی کے پروفیسر سلیم میمن کافی عرصہ سے عازمینِ حج کی خدمت کر رہے ہیں۔ موصوف خود بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر سال عازمینِ حج کے ساتھ جاتے ہیں اور وہاں انہیں ہر ممکن مادی و تربیتی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔چنانچہ ہم نے بھی انہی کے گروپ کے ساتھ حج پر جانے کا فیصلہ کیا، جو درست ثابت ہوا۔

پہلا وہ گھر خدا کا: بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی، وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوںکے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کُھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم علیہ السلام کا مقام ِعبادت ہے۔ اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔آلِ عمران....97

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے اس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔ اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں۔اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔(سورة الحج....30

اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبہ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اورلوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنالو، اور ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔(البقرة....125
اور یاد کرو، ابراہیم علیہ السلام اور اسمٰعیل علیہ السلام جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: ”اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوںکو اپنا مسلم بنا۔ ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے“۔(البقرة....129
اللہ نے مکانِ محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قَلادوں کو بھی (اس کام میں معاون بنا دیا) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے اور اُسے ہر چیز کا علم ہے۔ خبردار ہوجاﺅ! اللہ سزا دینے میں بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ بہت درگزر اور رحم بھی کرنے والا ہے۔ (المآئدة....۹۹

قرآنی ہدایاتِ حج: اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عُمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھر جاﺅ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اَسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکّے پہنچ جاؤ) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور اگر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اس طرح پُورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔

پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے، جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دیدے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چُکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہےیں۔ پھر جو کوئی جلدی کرکے دو ہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں__ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔(البقرة....196 تا 203
حالت احرام میں شکار حلال نہیں:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو۔ تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔(المآئدة....۱

احرام میں شکارکا کفارہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ تمہیں اُس شکار کے ذریعہ سے سخت آزمائش میں ڈالے گا جو بالکل تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوگا، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم میں سے کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے، پھر جس نے اس تنبیہ کے بعد اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے تجاوز کیا اس کے لیے دردناک سزا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! احرام کی حالت میں شکار نہ مارو۔ اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے گا تو جو جانور اس نے مارا ہو اُسی کے ہم پلّہ ایک جانور اُسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا۔ یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اُس کے بقدر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا مزا چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اُسے اللہ نے معاف کر دیا۔ لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا۔ اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے۔ المآئدة.95
احرام میں سمندر کا شکار حلال ہے:تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کر دیا گیا۔ جہاں تم ٹھیرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لیے زادِراہ بھی بنا سکتے ہو۔ البتہ خشکی کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے۔ پس بچو اس خدا کی نافرمانی سے جس کی پیشی میں تم سب کو گھیر کر حاضر کیا جائے گا۔(المآئدة....96)

فرائضِ حج : (۱) اِحرام۔مردوں کے لےے دو چادریںجبکہ عورتوں کے لےے معمول کا لباس۔ نیت کرنا اور تین بار تلبیہ پڑھنا۔(۲) وقوفِ عرفات۔(۳) طوافِ زیارت (خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگانا

واجباتِ حج:۱۔ وقوفِ مزدلفہ ۲۔ رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) ۳۔ حج کی قربانی 4۔ بالوں کا حلق یا قصر ۵۔ صفا و مروا کی سعی (صفا پہاڑی سے مروا پہاڑی تک آنا اور جانا، کل سات مرتبہ) 6۔ طوافِ وداع

۔8 ذی الحجہ: ٭اپنی رہائش پر غسل یا وضو کرکے احرام باندھنا۔٭اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل نماز ادا کرنا۔٭ پھر حج کی نیت کرنا کہ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں، اس کو میرے لئے آسان فرما دیجئے اور قبول فرمائےے ۔(اَللّٰھُمَّ اِنّی اُریدُالحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی )٭ اس کے بعد تین مرتبہ تلبیہ پڑھنا۔ ٭اب احرام کی پابندیاں شروع ہوگئیں۔ ٭اس کے بعدمکہ سے تین میل دور منیٰ کو روانگی جہاں دن اور رات کو منیٰ میں قیام کرنا۔

۔ 9 ذی الحجہ:٭ منیٰ سے طلوع آفتاب کے بعد ۶ میل دور عرفات کو روانگی۔٭غسل یا وضو کرکے زوال سے غروبِ آفتاب تک دوسرا فرض وقوفِ عرفات کرنا جوکھڑے ہوکر کرناافضل ہے ۔٭غروبِ آفتاب کے بعد نمازِ مغرب پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہونا۔٭ مزدلفہ پہنچنے کے بعد (رات جس وقت بھی پہنچیں) مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھی پڑھنا۔٭ یہ مبارک رات ہے۔ اس رات ذکر اذکار، دعا اور آرام کرنا ہے۔

۔ 10 ذی الحجہ:٭مزدلفہ ہی میں نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب کے قریب تک وقوفِ مزدلفہ کرنا۔٭ رَمی کے لئے کنکریاں مزدلفہ سے اٹھانا۔ ( احتیاطاََ ستّر ۰۷کنکریاں جمع کر لیں)۔٭طلوع آفتاب کے وقت مزدلفہ سے تین میل دور منیٰ روانہ ہونا۔٭زوال سے پہلے منیٰ میں جمرہ عقبہ کی رمی کرنا یعنی سات کنکر یاںمارنا۔ رمی کے دوران آپ کا رُخ اس طرح ہو کہ دائیں جانب منیٰ اور بائیں جانب مکہ ہو۔٭ جمرہ عقبہ کی رمی کے آغاز سے ہی تلبیہ بند کردینا۔٭ بطور شکرانہ حج کی قربانی کرنا جو عید الضحیٰ کی قربانی سے الگ ہے۔٭ قربانی کرنے کے بعدبالوں کاحلق (گنجا ہونا) یا قصر کرنا(کم از کم بالوں کی ایک تہائی لمبائی کو کاٹنا)۔ خواتین تمام بالوں کے آخری سرے کو تقریباََ دو انچ تک کاٹیں۔٭ اب زوجین کے تعلقات کے علاوہ احرام کی جملہ پابندیاں ختم ہوگئیں۔٭ غسل یا وضو کے بعد احرام میں ہی یا پھر عام لباس پہن کر مکہ روانہ ہونا۔٭ تیسرا اور آخری فرض، طوافِ زیارت کی ادائیگی جو10 تا 12 ذی الحج کی جاسکتی ہے مگر10 ذی الحج کو کرنا افضل ہے۔٭طوافِ زیارت کے بعد دو رکعت نمازِ طواف ادا کرنا۔ ٭ اگر ممکن ہو توملتزم پر دعا کرنا۔٭ زم زم کا پانی سیر ہوکر پینا۔٭ صفا و مروا کی سعی کرنا۔٭ جمرات کی رمی کے لئے منیٰ روانگی۔

۔ 11 ذی الحجہ:٭بعد زوال اور غروبِ آفتاب سے قبل پہلے جمرہ اولیٰ پھر جمرہ وسطیٰ کی رَمی کرنا یعنی سات کنکریاں مارنا۔ اس کے بعد دعا کرنا کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہے٭ آخر میںجمرہ وعقبہ کی رمی کرنا ۔ اس رَمی کے بعد کوئی دعا نہیں ہے۔

۔12  ذی الحجہ:٭زوال اور غروبِ آفتاب کے درمیان تینوں جمرات کی بالترتیب رَمی کرنا۔٭ منیٰ میں ہی قیام کریں یا مکہ روانہ ہو جائیں۔ ٭افضل یہی ہے کہ منٰی میں قیام کریں اور 13 ذی الحجہ کی رمی کرکے ہی مکہ روانہ ہوں

۔ 13 ذی الحجہ:٭اگر ۳۱ ذی الحجہ کی صبح منیٰ میں ہوگئی تو13 ذی الحجہ کی رمی بھی واجب ہوگی، ورنہ نہیں۔

مدینہ میں مرنے اور دفن ہونے کی فضیلت: حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس کی کوشش کرسکے کہ مدینہ میں اس کی موت ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ مدینہ میں مرے۔ میں ان لوگوں کی ضرور شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مریں گے ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی)یحییٰ بن سعید انصاری تابعی صحابی کا واسطہ ذکر کئے بغیر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیںکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میںمدینہ کے قبرستان میںکسی میت کی قبر کھودی جارہی تھی۔ ایک صاحب نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسلمان کے لئے یہ اچھی آرام گاہ نہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہاری زبان سے بہت بری بات نکلی۔ روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اپنی قبرکا ہونا مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ (موطا امام مالک)

اپنی تالیف ’پیغامِ حدیث‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تیاری کے دوران ان احادیث پر نظر پڑی تو دل میں یہ تمنا جاگ اٹھی کہ کاش ہمیں بھی اس سفر حج کے دوران مکہ یا مدینہ کی خاک اوڑھ کر ابدی نیند سونے کی سعادت حاصل ہو جائے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ سے رسمی دعا بھی کی اور ایک آدھ قریبی احباب سے اس کا تذکرہ بھی کیا۔ہوائی سفر کے آغاز پر جب ہم نے اہلیہ محترمہ کو اپنی اس تمنا اوردعا کا بتلایا تو وہ آبدیدہ سی ہو گئیں۔ ہم نے کہا کہ کیا تمہارا اللہ اور تقدیر پر ایمان نہیں۔ ہم ہوں یا نہ ہوں، تمہارا پالنہار تو اللہ ہی ہے۔ وہی اس وقت بھی تمہیں پال رہا ہے اور آیندہ بھی پالے گا۔ اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھو۔ شکر ہے ہماری یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور چھلکتے نین، چھلکنے سے رہ گئے۔

ایامِ حج سے چند دن قبل اور بعد کے کچھ دن ہماری رہائش حرم سے کوئی تین کلو میٹر دور ’کاکیا ‘ کے علاقہ میں تھی۔چونکہ یہاں سے حرم شریف میں پانچوں وقت نماز کے لےے جانا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا ہم مکہ پہنچ کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد ’کاکیا ‘ہی میں ایک قریبی مسجد میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ ہم ٹھہرے بلند فشارِ خون اور ذیابطیس کے مریض۔ گو دواو¿ں کا بنڈل ہمارے ساتھ تھا مگر کراچی سے راونگی، جدہ ایئر پورٹ پر دن بھر کی تھکان، عمرہ کی مشقت، ان سب نے مل کر اپنا اثر دکھایا۔ اور شایددوائیں کھانے کا معمول بھی برقرار نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں یہ ہمارا دوسرا یا تیسرا ہی دن تھا کہ ایک روز مقامی مسجد میں فجر کی نماز کے دوسرے رکعت میں حالت غیر ہوگئی۔چنانچہ نماز توڑ کا فوراََ مسجد سے باہر نکلے تاکہ ہوٹل پہنچ سکیں۔ مسجد سے باہر نکلتے ہی الٹی ہوگئی۔ دماغ نے فوراََ سگنل دیا کہ بلڈ شوگرکم (ہائپو) ہوگیا ہے۔ ہوٹل کے دروازے پر پہنچے تو وہاں چائے کا اسٹال نظر آیا۔ فوراََ ایک چمچہ چینی کا کھایا۔ ایک کپ چائے پی تو کچھ ہی دیر میں حالت بہتر ہو گئی۔یوں ہماری دعا قبول ہوتے ہوتے رہ گئی کہ ابھی تو ہم صرف عازمِ حج ہی تھے۔ حج کی ادائیگی ابھی باقی تھی۔

اس قسم کا دوسرا ’موقع‘ حج کی ادائیگی کے بعد ہمارے چالیس روزہ سفر حج کے عین وسط میں اُس وقت پیش آیا جب ہم حرمِ کعبہ سے چند منٹ کے فاصلہ پر واقع اپنے ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ رات گئے ہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ زم زم کی دس دس لٹر کی تین بوتلیں بھر کر ہوٹل پہنچے توبخار نے آ پکڑا بلکہ جکڑ لیا۔ دوائیں ہمارے پاس موجود تھیں۔ مگر بخار نے پھر بھی ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ ایک دن تک بستر سے اُٹھنے اور دودن تک ہوٹل سے نکلنے سے معذور رہے۔کمزوری مزید اگلے تین چار روز تک برقرار رہی۔ اور یوںیہاں بھی ’وصال‘ کی آرزو، آرزو ہی رہی۔ ایسا ہی ایک آخری موقع مدینہ منورہ میں بھی ملا۔ اس مرتبہ مرضِ بلند فشارِ خون نے ہماری دعا کا ساتھ دینے کی کوشش کی۔ 35 دن تک غیر معمولی بھاگ دوڑ کے سبب اس مرض کو کنٹرول کرنے میں پاکستان سے ساتھ لائی ہوئی تمام ادویات ختم ہوگئیں تو ہم نے مقامی فارمیسی سے بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی ایک دوائی کا پیکٹ خرید لیا۔ یہ سوچ کر کہ اب چار پانچ دن ہی تو رہ گئے ہیں۔ ان سے گذارا ہوجائے گا۔ دواو¿ں کے ساتھ ساتھ ہم بلڈ پریشر اور بلڈشوگر مانیٹر بھی لے گئے تھے تاکہ ان دونوں امراض کو خود بھی مانیٹر کرتے رہیں کہ وہاں ہر وقت اور ہر جگہ بآسانی ڈاکٹر کاملنا ممکن نہ تھا۔ اسی آخری ہفتہ کا ذکر ہے کہ ایک روز بلند فشارِ خون ہماری خودی کی طرح بلند ہونے لگا تو ہم نے اسے مزید بلند ہونے سے روکنے کے لےے متعلقہ دوائی کی دُہری خوراک لے لی۔مصرع ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کو بچپن سے سنتے اور پڑھتے چلے آئے تھے مگر اس کی’ عملی تفسیر ‘ آج معلوم ہو رہی تھی۔ 24 گھنٹہ میں دو مرتبہ کھانے والے کیپسول کو چار گھنٹہ میں چار مرتبہ کھایا، مگر جب بھی کھایا، فشارِ خون کو مزید بلند پایا۔ جب حالت غیر ہونے لگی تو برادرم پروفیسر سلیم میمن کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ اتفاق سے اُس وقت اُن کے پاس ایک دوست ڈاکٹر شوکت آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کیس ہسٹری لی اور نتیجہ یہ نکالا کہ چونکہ ہم خلافِ معمول بلند فشارِ خون کے لےے صرف ایک دوائی لے رہے تھے، دو تین دوائیوں کا مجموعہ نہیں، لہٰذا ہمارا بلند فشارِ خون معمول پر نہیں آرہاتھا۔ انہیں نے دیگر دوائیوں کے ساتھ ساتھ ایمر جنسی میں استعمال ہونے والی دوائی بھی منگوا کر کھلائی اور ہدایت کی کہ اب ان دوائیوں کے مجموعہ کو ہی کھانا ہے۔ ان شاءاللہ بلڈ پریشر نارمل ہوجائے گا جو اگلے روز تک ہو بھی گیا۔ اور قیامِ مدینہ کے آخری دو تین روز میں ہم بھلے چنگے ہو گئے۔اور مدینہ کے جنت البقیع قبرستان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بجھے بجھے قدموں سے وطن واپسی کے لئے جدہ ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ تحریریہاں تک لکھی جاچکی تھی کہ ایک دلچسپ صورتحال کا انکشاف ہوا۔ معلوم ہوا کہ جب ہم نے تہہِ خاکِ مدینہ میں ہمیشہ کی نیند سوجانے کی اپنی دُعا کا اظہاربیگم صاحبہ سے کیا تھاتو انہوں نے بھی چپکے چپکے اپنے دل میں ایک دعا مانگ لی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے یا تو ہماری سننی تھی یا بیگم صاحبہ کی۔ کیا اب بھی یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ بیگم صاحبہ کی دعا کیا تھی؟ ع یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ’وہاں ‘ہوتا۔

مشاہدات و تجاویز: منیٰ میں بیشتر خیمے قبلہ رُخ نہیں ہیں جس کی وجہ سے باجماعت نماز میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔خیموں کی چاروں ضلعی دیواروں میں سے کوئی ایک دیوار قبلہ رُخ ہو نی چاہئےے تاکہ دورانِ نماز صف بندی میں آسانی ہو۔ اگست 2010 ءمیں سعودی نائب وزیر زین العابدین نے بتلایا تھا کہ منیٰ کے شمال میں 15 لاکھ افراد کے قیام کے لےے تیس ارب سعودی ریال کی لاگت سے ایک نیا شہر تعمیر کیا جا رہا ہے جو یا توکنکریٹ کی عمارتوں پر مبنی ہوں گی یا جدید ڈیزائن کے نئے خیمے ہوں گے۔ ہم نے جمرات سے متصل منیٰ کے خیموں کے ساتھ ہی کثیر منزلہ عمارتوں اپارٹمنٹس کا ایک بلاک دیکھا جو مکمل ہوچکا تھا۔ یقیناََ یہی اپارٹمنٹس موجودہ خیموں کا بتدریج متبادل بنیں گے۔ کیونکہ وزیر موصوف کے بقول یہ پروجیکٹ اگلے پانچ سالوں میں مکمل ہوگا۔ کاش ان عمارتوں میں قبلہ رُخ کا اس طرح اہتمام ہو کہ ہر کمرے کی کوئی نہ کوئی دیوار قبلہ رُخ ہو۔

٭ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں بنائے گئے چھوٹے چھوٹے عوامی بیت الخلا کے اندر ہی غسل کے لئے شاور نصب ہیں۔ غسل خانے اور بیت الخلاالگ الگ ہونے چاہئےے تاکہ عازمینِ حج کو غسل کرتے ہوئے کراہیت محسوس نہ ہو اور دورانِ غسل ناپاک چھینٹوں سے بھی بچا جاسکے۔ احرام کے ساتھ ان ’ ٹوائلیٹ والے چھوٹے چھوٹے غسل خانوں‘ کا استعمال مردوں کے لئے تو مشکل ہوتا ہی ہے، یقیناََ خواتین کو بھی دقت پیش آتی ہوتی ہوگی۔

٭خیموں کی رہائش گاہوں میںدیواروں کے ساتھ ساتھ ہر بستر کے اوپر چار پانچ فٹ کی بلندی پر ایسے مضبوط ہُک نصب ہوں جن پر حجاج اپنے سامان کے بیگ لٹکا سکیں۔ بیگ نیچے فرش پر رکھے جانے کی وجہ سے دستیاب شدہ قلیل جگہ مزید مختصر ہوجاتی ہے۔ اور حجاج کے بیگز بھی اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔

٭ بالوں کاحلق یا قصر: حج کا واجب رکن ہے اوراس کی ادائیگی کے بغیر کوئی حاجی احرام کی پابندیوں سے باہر نہیں آسکتا۔منیٰ میںحلق یا قصر کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ صرف جمرات کے قریب حجام کی چند دکانیں ہیں جو لاکھوں حجاج کے لےے ناکافی ہیں۔ لہٰذا لوگ منیٰ میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کے بال مونڈتے نظر آتے ہیں۔ جنہیں سعودی شُرطے ایسا کرنے سے روکتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ 10 ذی الحجہ کوہر خیمے میں یا دو تین متصل خیموں کے لےے علیحدہ علیحدہ عارضی حجاموں کا انتظام مکتب کی طرف سے کیا جائے جو مقررہ ریٹ پر بالوں کو مونڈے یا قصر کرے ۔جمرات کے قریب واقع باربر شاپ پر رش کی وجہ سے وہاں حجام حضرات بخشش لیتے بھی نظر آئے۔ 20 ریال مقررہ اجرت کے علاوہ 50 ریال تک کی بخشش لیتے ہوئے تو ہم نے خود دیکھا۔گویا حاجی صاحبان نے 70 ریال صرف بال مونڈنے کے دیئے۔ واضح رہے کہ یہ اُن بخششوں کا تذکرہ ہے جو جبراََ لی جارہی تھیں۔ واضح رہے کہ خانہ کعبہ کے ارد گرد قائم مستقل باربر شاپس میں عمرہ ادا کرنے والے زیادہ سے زیادہ دس ریال دے کر حلق کراتے ہیں۔ بعض باربر شاپ والے تو محض 5 ریال یا اس سے بھی کم لیتے ہوئے نظر آئے۔

٭ عوامی بیت الخلا کے علاوہ ہر خیمہ کے اندر بھی ایک ایک وضو خانہ اور ممکن ہو تو ایک ایک حمام بھی قائم کیا جائے تاکہ باہر مشترکہ حمام میں رات دن ہر نماز سے قبل طویل قطاروں سے بچا جاسکے ۔ شہری خواتین کے لےے بالخصو ص یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے کہ عموماََ مردوں کے بیت الخلا سے متصل واقع خواتین کے بیت الخلا کی طویل قطار میں کھڑی ہوں۔ ہر خیمہ کے اندر کم از کم ایک یا دو واش رومز اور وضو خانہ ہونے کی صورت میں لوگ خیموں کے اندر ہی باری باری فارغ ہولیا کریں گے اور باہر رش کم نظر آیا کرے گا۔

٭سعی: وھیل چیئر پر طواف وسعی کروانے والے مزدور پیشہ مول تول کے ذریعہ 500 ریال تک کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ تجویز ہے کہ اس کے ریٹس فکس کئے جائیں جو 50 تا 100 ریال سے زائد نہ ہوں۔ اور اس کے باقاعدہ کاؤنٹر قائم ہوں جہاں سے ٹوکن بمع نمبر جاری ہوں۔ تاکہ لوگ لوگ ٹوکن لے کر اپنی باری کا انتظار کریں۔

٭طوافِ زیارت کے لئے منیٰ سے بیت اللہ شریف جانے اور آنے کے لئے ٹرانسپورٹ کا معقول انتظام نظر نہیں آیا۔ اس ضمن میں باقاعدہ بڑی بسیں مختلف مکاتب کے لئے مختلف اوقات میں چلائی جائیں۔ ان بسوں کا کرایہ بھی مقررہ ہو۔اس مقصد کے لےے لوگوں کو بالخصوص بوڑھوں اور خواتین کو میلوں چلنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر کوئی نجی سواری ملتی ہے جو منہ مانگا کرایہ طلب کرتی ہے۔ بہت سے لوگ تو منیٰ تا بیت اللہ شریف پیدل بھی جاتے آتے نظر آئے۔بعض بسوں ویگنوں والوں نے 50 پچاس ریال فی سواری تک کرایہ وصول کیا اور بیت اللہ اور منٰیٰ سے خاصا دور بھی اتارا۔

٭ منیٰ میں مقیم جمرات سے دور مکاتب والوں کے لےے بھی سواری کا انتظام ہو۔ تاکہ انہیں منیٰ والی اپنی قیام گاہ سے جمرات آنے جانے میں آسانی ہو۔

٭اس سال پہلی مرتبہ آزماشی بنیادوں پر منیٰ میں ٹرین سروس کا آغاز کیا گیا جس کا کرایہ ۰۰۱ ریال فی کس تھا جو بہت زیادہ ہے۔ٹرین سروس کو سرکلر ریلوے کی طرز پر اس طرح توسیع دی جائے کہ منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ، منیٰ سے جمرات بلکہ بیت اللہ تک لوگ بآسانی آجا سکیں۔

٭ عرفات میں قناتوں کے مختلف کیمپس لگے ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ نمبر الاٹ ہوتے ہیں۔ یہاں حاجی صبح سے شام تک رہتے ہیں۔ اسی طرح عرفات سے مزدلفہ پہنچ کرحاجی وہاں پوری رات رہتے ہیں۔ مگر مزدلفہ میں شب بسری کے لےے کوئی باقاعدہ نظام نظر نہیں آیا۔ عرفات کی طرح مزدلفہ میں بھی مکاتب کی طرز پر کیمپس قائم کئے جائیں۔ چونکہ یہاں کھلے آسمان تلے شب بسر کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا صرف تین یا چار فٹ اونچی قناتوں کی باؤنڈریز ہی کافی ہونگی ۔تاکہ ان مجوزہ باؤنڈریز کے اندر خواتین و مرد الگ الگ حصوں میں شب بسری اور وقوف کر سکیں۔ اس طرح خواتین خصوصاََ موجودہ بے پردگی سے بچ سکیںگی۔ اس وقت وہ لب سڑک اِدھر اُدھر بے پردہ الٹی سیدھی لیٹی نظر آتی ہیں۔ اور ان خواتین کے محرم مرد حضرات بوقتِ ضرورت ان کی تلاش میں دیگر خواتین کو دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مزدلفہ میں بھی حاجیوں کے رات کے قیام کو عرفات ہی کی طرح باقاعدہ انتظام کیا جائے۔

٭ قبلہ رخ: منیٰ عرفات اور مزدلفہ ۔ ان تینوں جگہوں پر قیام اور وقوف کے لئے کی گئیں حد بندیاں قبلہ رُخ سے آزاد ہیں۔ نمازیوں کو آڑی ترچھی صفیں بنانی پڑتی ہےں۔ منیٰ کے خیمہ اور عرفات کی قناتیں اورمزدلفہ کی مجوزہ سیٹنگ اس طرح کی جائے چہار دیواری کی کوئی نہ کوئی دیوار قبلہ کی طرف ہو تاکہ کم جگہ میں سیدھی صفیں بن سکیں اور لوگ آسانی سے نمازیں پڑھ سکیں۔

٭ مزدلفہ میں اکثر جگہوں پر اور عرفات میں کہیں کہیں قیام کرنے کی جگہوں پر زمین کی سطح غیر ہموار ہے۔ان غیر ہموار سطحوں پر نمازیوں کی صفیں بھی بے ترتیب ہوتیں ہیں اور کچھ دیر آرام کی خاطر لیٹنے والے حاجیوں کو بھی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ سعودی حج انتظامیہ کو چاہئےے کہ ان نا ہموار زمینوں کو ہموار کروادے۔

٭ کنکریاں: مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوںکے ڈھیر لگائے جائیں تاکہ انہیں ”چننا “نہ پڑے۔ اس مرتبہ مزدلفہ میں جگہ جگہ کنکریوں کے پیکٹس بھی تقسیم کئے گئے ۔ ایسا انتظام ہر حاجی کے لئے ہونا چاہئے ۔ عرفات میں کھانے کے پیکٹس کے ساتھ ہی کنکریوں کا پیکٹس بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر مزدلفہ ہی میں وافر مقدار میں پیکٹس تقسیم کئے جائیں تاکہ یہ پیکٹس ہر حاجی کو مل سکیں۔ ہر حاجی کو کل 70 کنکریاں درکار ہوتی ہیں۔ چنانچہ احتیاطاََ ہر پیکٹس میں 80 کنکریاں ہوں تو بہتر ہوگا۔
خطبہ حج : مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آلِ الشیخ نے ۹ ذی الحجہ 2010 کو میدانِ عرفات کے مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مکمل شریعت کے ساتھ تمام کائنات کے لےے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا۔ اسلام شفقت اور رحمدلی کی تلقین کرتا ہے۔ یہ وہ عالمگیر دین ہے جو ہر زمانے کے فتنوں کا سامنا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔حج کے دوران بہت کم لوگوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ وہ مسجدِ نمرہ میں جاکر خطبہ حج سن سکیں۔ چنانچہ یہ خطبہ ریڈیو سے براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ حجاج الانصار کے پروفیسر سلیم میمن نے اپنے کیمپ میں حاجیوں کے لےے ایف ایم ریڈیو اور پورٹیبل اسپیکرز کا خصوصی انتطام کیا تھا تاکہ جملہ خواتین و مرد حجاج کرام بآسانی یہ خطبہ سن سکیں۔ قریبی کیمپس کے بعض دیگر حجاج بھی ہمارے کیمپس میں یہ خطبہ سنتے نظر آئے۔ جس سے معلوم ہوا کہ خطبہ سننے کا ہر کیمپ میں انتظام نہ تھا۔کاش تمام مکاتب کے ذمہ داران اس طرف توجہ دے سکیں۔ مفتی اعظم نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ اسلام کانظام عدل و انصاف پر قائم ہے جس میںظلم اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلام کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانے والوں اور فساد پھیلانے والوں کو سخت سزا کی ہدایت کرتا ہے۔ مسلمانوں اور ذمیوں کے جان و مال کو نقصان پہچانا اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے۔اسلام بنی نوع انسان کو عزت بخشنے کے لےے آیا ہے۔ یہ دین عبادتوں کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے کی دیکھ بھال کی بھی تلقین کرتا ہے۔چنانچہ مسلمانون کو اپے دین پر فخر کرنا چاہئےے۔شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیںایک ایسی شریعت دی ہے جس میںانسانیت کے لےے مکمل رہنمائے موجود ہے۔ اسلام میں سب سے زیادہ زور رزقِ حلال پر دیاگیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ اپنی دولت کو حرام کاموں پر مت خرچ کرو۔ مالدار لوگ ایسے لوگوں کا خیال کریں جو رزق کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کا نظامِ جرم و سزا ایک جامع نظام ہے جس سے معاشرے میں نظم و نسق قائم ہوتا ہے۔ اسلامی سزائیں معاشرے کی اصلاح کے لےے ہیں۔ نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا، یہ بھی اسلام کی تعلیمات میں سے ہیں۔مفتی اعظم نے کہا کہ جو قوم شکر چھوڑ دیتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی نعمتوں کو مصیبت بنا دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت تمام انسانوں کے لےے ہے۔ اور ہم تمام غیر مسلموں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قرآن کو پڑھیں۔ اس دین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانوں کے لئے آسانی پیدا کرتی ہے۔ آسانی اور سہولت کو اسلام کی روح کے مطابق اختیار کرنا ہی دین کا مقصد ہے۔قرآن کی تشریح اپنی مرضی سے کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ امت میں اختلافات کو ہوا دینے والے امت کے خیر خواہ نہیں ہیں۔رہبرانِ ملت اور عوام مل کر قرآن کی تبلیغ کے لےے کوشاں رہیں۔ مفتی اعظم نے مسلم دنیا، پاکستان، افگانستان اور فلسطین میں امن کے لےے خصوصی دعا کی۔

حسب روایت اس سال بھی ۹ ذی الحجہ کو غلافَ کعبہ تبدیل کیا گیا۔ نیا غلافِ کعبہ دو کروڑ ریال کی لاگت سے 670 کلو گرام خالص ریشم سے تیار کیا گیا ہے۔ اس غلاف کی تیاری میں 150 کلوگرام خالص سونا اور چاندی بھی استعمال کی گئی ہے اور اس پر بیت اللہ کی حرمت اور حج کی فرضیت و فضیلت کے بارے میں قرآنی آیات کشیدہ کی گئی ہیں۔ غلافِ کعبہ کا سائز 658 مربع میٹر ہے اور یہ 47 حصوں پر مشتمل ہوتاہے۔ ہر حصہ 14 میٹر طویل اور 95 سینٹی میٹر چورا ہوتا ہے۔ غلافِ کعبہ کی تبدیلی کے موقع پر اسلامی ممالک کے سفیر، اعلیٰ سعودی حکام اور شہر کی اہم شخصیات شریک تھیں۔واضح رہے کہ اُتارے جانے والے غلافِ کعبہ کے ٹکڑے بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سربراہانِ مملکت اور دیگر معززین کو بطور تحفہ پیش کر دئے جاتے ہیں۔ اب سعودی حکام حج کے دنوںمیں غلافِ کعبہ کو سطح زمین سے کوئی دس فٹ بلند سمیٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں حج پر آئے ہوئے بعض حجاج کرام تبرک کی خاطر غلافِ کے ٹکڑے کاٹ کر اپنے ہمراہ لے جانے لگے تھے۔

بچپن میں ہم ہر سال حج کے موقع پر منیٰ کے خیموں میں آگ لگنے سے حجاج کی شہادتوں کی خبریں سنا کرتے تھے ۔ لیکن جب سے منیٰ میں فائر پروف خیمے نصب کئے گئے ہیں، آگ لگنے کے واقعات تقریباََختم ہو کر رہ گئے ہیں۔ تاہم اس سال مصری حجاج کے 38 جل کر خاکستر ہوگئے۔ تاہم خیمہ بستی خالی ہونے کے سبب کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ آگ ممکنہ طور پر بجلی کے شارٹ سرکٹ کے باعث ہوا۔ بہت سے پاکستانی خیموں میں بھی وقتاََ فوقتاََ بجلی کی سپلائی معطل ہوتی رہی۔ تاہم کہیں سے کوئی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔واضح رہے کہ منیٰ میں تین ارب ریال کی لاگت سے 40 ہزار فائر پروف خیمے بنائے گئے ہیں۔ خادم الحرمین شریفین شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی دعوت پر اس سال مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی 1300 ممتاز شخصیات نے شاہی مہمان کے طور پر فریضہ حج ادا کیا۔

عموماََ حج و عمرہ کی کتابوں میں امختلف فقہ کے مطابق مختلف طریقے درج ہوتے ہیں۔ اسی طرح احج و عمرہ کے سفر کی روداد میں بھی ہرحاجی صرف اپنے نقطہ نظر سے ہی لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ذاتی تاثرات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ بنیادی ارکانِ حج کو بیان کرنے کے علاوہ قرآن و حدیث سے براہِ راست اقتباسات پیش کریں۔ لہٰذا مسائلِ حج پرکتاب الحج سے منتخب احادیث پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین براہِ راست ہدایاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کر سکیں ۔

حج کی فضیلیت: اُمُّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جہاد کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں تو پھر ہم بھی کیوں نہ جہاد کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاسب سے افضل جہاد ”حجِ مقبول“ ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ کے لےے حج کرے پھر حج کے دوران کوئی فحش بات کرے اور نہ گناہ کرے تو وہ حج کرکے اس طرح بے گناہ واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے بے گناہ جنم دیاتھا۔سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خشعم کی ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اﷲ! صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ میرے ضعیف با پ پر حج فرض ہے مگر وہ سواری پر نہیں جم سکتے ۔ توکیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کرلے۔( بخاری

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اﷲ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔ایسا اس لئے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :”اﷲ کے لئے بیت اﷲ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں“۔ (جامع ترمذی

حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقرو محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور رکردیتے ہیں جس طرح لوہا اور سنا ر کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے ۔ اور ”حج مبرور “ کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔(جامع ترمذی، سنن نسائی) حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لئے کہو۔ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہوچکا ہے ۔ (مسند احمد) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کا جو بندہ حج یا عمرہ کی نیت سے یا راہ خدا میں جہاد کے لئے نکلا۔پھر راستہ ہی میں اس کو موت آگئی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کے واسطے وہی اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے جو حج و عمرہ کرنے والوں کیلئے یاراہ جہاد کرنے والے کے لےے مقرر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی

مقاماتِ حج : سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کیلئے ذوالحلیفہ کو میقات قراردیا تھا اور شام والوں کیلئے جحفہ اور نجد والوں کیلئے قرن المنازل اوریمن والوں کیلئے یلملم۔ یہ مقامات یہاں کے رہنے والوں کیلئے بھی میقات ہیں۔ اور جو شخص حج یا عمرہ کے ارادہ سے غیر مقام کا رہنے والا ان مقامات کی طرف سے ہوکر آئے، اس کی بھی میقات ہیں پھر جو شخص ان مقامات سے مکہ کی طرف کا رہنے والا ہو تو وہ جہاں سے نکلے احرام باندھ لے اسی طرح مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وادیِ عقیق میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج شب کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ اس مبارک وادی یعنی عقیق میں نماز پڑھو اور کہو کہ ”میں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا“۔ایک اور روایت میںسیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اخیر شب میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ میں تھے، وادیِ عقیق میں یہ خواب دکھایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلمایک مبارک وادی میں ہیں ۔ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب بھی وحی میں شامل ہیں۔ (صحیح بخاری 
  

بلا عربی متن والے تراجم قرآن کی افادیت

بلا عربی متن والے تراجم ِ قرآن کی افادیت

لوحِ محفوظ میں موجود قرآن مجید کو پہلے لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا پھر یہی قرآن مجید حرف بہ حرف رحمۃ اللعالمین ﷺ پر بتدریج نازل کیا گیاہے۔ اِس آخری الہامی کتاب کے بعد چونکہ قیامت تک نہ توکوئی نبی یا رسول آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی آسمانی صحیفہ نازل ہونے والا ہے۔ اس لےے اس قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا فرمان ہے کہ : اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اُتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو ، اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاؤ۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، اور یقینا" کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لےے ۔سو رة البقرہ: ۳۲۔۴۲

اسی طرح جب نزولِ قرآن کے ابتدائی ایّام میں حضرت محمد ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی پہنچائی ہوئی وحی کو یاد رکھنے کیے لےے اسے جلدی جلدی دُہرایا کرتے تھے تو اللہ عز و جل کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی کہ : اے نبی ﷺ! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔ اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ القیامة: ۷۱۔۶۱۔ آج نہ صرف ہر مسلمان کا یہ جزو ایمان ہے کہ اس وقت جو عربی قرآن مجید دنیا میں موجود ہے، وہ حرف بہ حرف وہی ہے جو تقریبا" چودہ سو سال پہلے حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھا بلکہ دنیا بھر کے غیر مسلم محققین بھی تاریخی شہادتوں سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو چودہ صدیاں گذرنے کے باوجود حرف بہ حرف اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔ قرآن کا یہ معجزہ تاقیا مت باقی رہنے والا ہے۔ کسی انسان کی یہ مجال نہیں کہ اصل قرآن میں تحریف یا ملا وٹ کر سکے۔

ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے مجھے اپنے خواب میں دیکھا، اُس نے یقینا" مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کبھی میری شکل میں نہیں آسکتا ۔ صحیح بخاری حدیث۔١١٠ ۔ محدثین اس حدیث کی تشریح میں محدثین فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ شیطان کسی کے خواب میں آکر یہ بہکا بھی نہیں کہہ سکتا کہ نعو ذُ با للہ وہی رسولِ عربی ہے اوراُس کی فلاں فلاں ہدایت پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا اس بات پر اجمائے اُمت ہے کہ جب کبھی کوئی مسلمان ایسا کوئی خواب دیکھے تو اُس خواب پر عمل کرنے سے پہلے تعلیماتِ قرآن و حدیث سے اس کی تصدیق ضرور کر لے۔
عین یہی بات قرآن پر بھی صادق آتی ہے۔یہ تو صحیح ہے کہ قرآن مجید تا قیامت اِس دنیا میں اپنی اصل حالت میں بلا تحریف موجود رہے گا، خواہ حفاظ کے سینوں میں محفوظ رہے یاکاغذ کے نسخوں پر۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ کسی انسانی خطا یا شیطانی چال کے باعث ، اغلاط سے پُر کوئی نسخہ قرآن دنیا میں کہیں سامنے نہ آسکے۔ اور جہاں تک غیر عربی زبان میں قرآن کے تراجم کا تعلق ہے، اول تو کوئی ترجمہ، خواہ کتنا ہی مصدقہ اور لفظ بہ لفظ ہی کیوں نہ ہو، قرآن کریم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ تلاوت ِ کلام پاک ہو یا نماز میں اس کی قرات، عربی قرآن کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں۔ البتہ عربی زبان سے نا واقف لوگوں کے لئے ترجمہ قرآن کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کی روشنی، عالمِ عرب کی حدود سے باہر پھیلی تو پیغامِ قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے دنیا کی ہر اہم زبان میں قرآن مجید کے تراجم کےے گئے۔ بلکہ ایک ایک زبان میں کئی کئی تراجم بھی کئے گئے۔
ابتدا میں عربی آیات کی سطور کے نیچے متعلقہ زبان میں لفظی ترجمہ لکھا جاتا رہا۔ جب یہ لفظی ترجمہ قرآن کے درست مفہوم کومکمل طور سےادا کرنے سے قاصر رہا تو بعد ازاں بامحاورہ ترجمہ کی روایت ڈالی گئی۔ تراجم میں اجتہاد کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ کبھی عربی متن کا ترجمہ حاشیہ میں لکھا گیا تو کبھی صفحہ کو عرضا" دو حصوں میں تقسیم کرکے عربی آیات کے بالمقابل تراجم لکھے گئے ۔ کبھی صفحہ کو طولا" دو حصہ میں تقسیم کر کے اوپر عربی اور نیچے ترجمہ کتابت کیا گیا۔ بلکہ کئی معتبر مترجمین و مفسرین نے تو ایک صفحہ پرعربی متن اور اس کے بالمقابل صفحہ پر ترجمہ لکھنے کا رواج بھی ڈالا۔ تراجمِ قرآن کی تازہ ترین شکل، عربی متن کے بغیر ترجمہ کا مختلف زبانوں میں چھاپا جانا ہے۔ یہا ںیہ واضح رہے کہ جب کبھی بھی اور جس ہئیت میں بھی ترجمہ کو شائع کیا گیا، اسے کبھی بھی نہ تو اصل عربی متن کا متبادل سمجھا گیا اور نہ ہی ترجمہ کی خواندگی کو تلاوتِ قرآن سمجھا گیا۔ تراجم کی کثرت کے باجود عجمی مسلمانوں نے بھی تلاوتِ قرآن کے لئے ہمیشہ عربی متن ہی کو استعمال کیا، خواہ وہ اس کے معنی و مطالب سے قطعا" ناواقف ہی کیوں نہ ہوں۔ ترجمہ کی خواندگی کو ہمیشہ صرف اور صرف قرآن فہمی کے لئے ہی استعمال کیا جاتارہا ہے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
 
عربی متن والا قرآن ہی اصل قرآن مجید ہے۔ کسی بھی زبان میں اور کوئی بھی ترجمہ، خواہ وہ کتنا ہی مصدقہ کیوں نہ ہو، اصل عربی قرآن کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ گویا تلاوتِ کلام پاک ہو یا نمازوں میں قرات کا معاملہ، ہمیشہ صرف اور صرف عربی قرآن ہی پڑھا جائے گا۔
 اصل عربی قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لیا ہو ہے۔ حتیٰ کہ رسولِ عربی ﷺ کو بھی اس کی حفاظت سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا کسی بشر کی یہ مجال نہیں کہ اصل عربی قرآن میں تحریف کرسکے۔ نہ گذشتہ چودہ صدیوں میں ایسا ہوسکا ہے اور نہ تا قیامت کبھی ایسا ہوسکتا ہے۔
 تاہم اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ کسی اور عربی یا عجمی کتاب کو قرآن کے طور پر پیش کرکے مسلمانوں یا غیر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوسکتاہے۔

قرآن کو سمجھنے سمجھانے کے لئے دیگر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی یہ کوشش جاری رہے گی ۔ انسانی کاوش ہونے کے سبب ایک ہی زبان کے مختلف تراجم کہیں کہیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں اور باہم متضاد بھی۔ لیکن قرآنی الفاظ و آیات کے ایسے ترجموں کو جو باہم مختلف یا متضاد ہونے کے باوجود قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے یکسر خلاف نہ ہوں، بالکلیہ مسترد نہیں کیاجاسکتا ۔ ہاں اگر کوئی ترجمہ یا مفہوم قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیمات اور اجمائے اُمت کے برعکس ہو تو اسے بلا شبہ مسترد کردیا جائے گا۔ جیسے خاتمۃ النبیّین کا وہ مفہوم و مطلب جو قادیانی حضرات بیان کرتے ہیں، پوری اُمت مسلمہ کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ دلچسپ اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قادیانی حضرات بھی اپنے ترجمہ میں وہی عربی قرآن شائع کرتے ہیں، جو متفقہ طور پردرست ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تراجمِ قرآن کی کتابوں میں ساتھ ساتھ عربی عبارت کے لکھنے یا نہ لکھنے سے ترجمہ کے مصدقہ ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ ان بعض فتاویٰ میں بیان کیا جاتا ہے، جن میں عربی متن کے بغیرقرآن کے ترجمہ کی اشاعت کوحرام قرار دیاگیا ہے۔ قرآن وحدیث میں جہاں غیر عربی زبانوں میں ترجمہ کو منع نہیں کیا گیا وہیں ایسی کوئی شرط بھی نظر نہیں آتی کہ ترجمہ قرآن کے ساتھ لازما" عربی عبارت بھی درج کی جائے۔

ترجمہ کے ساتھ لازما" عربی عبارت لکھے جانے کی احتیاط علمائے کرام نے وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی تھی، جو اپنی جگہ بالکل درست تھی ۔ کیونکہ آج سے محض سو سال قبل تک ہر چھپی ہوئی عبارت نہ صرف یہ کہ مصدقہ تصور کی جاتی تھی بلکہ عام قارئین کے لئے یہ ممکن بھی نہ تھا کہ وہ چھپی ہوئی عبارت کے مصدقہ ہونے کو چیک کر سکے۔ لیکن آج صورتحال قدرے تبدیل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں ایک علمی انقلاب آچکا ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے اس قدر فروغ پا لیا ہے کہ دنیا کا ہر علم محض جنبشِ انگلی سے کمپیوٹر اسکرین کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ ایسے میں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآنی علم کو بھی سہل الحصول بنانے کی غرض سے متعدد جدتیں اختیارکی ہیں۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیم میںبذریعہ انٹر نیٹ، جدید سرچ انجن کی بدولت قرآن کے الفاظ و معنی کے مطلوبہ مواد کی سُرعت و سہولت کے ساتھ دستیابی کو ممکن بنایا گیا ہے تو دوسری جانب پرنٹ میڈیم یعنی جرائد اور کتب کے روایتی تصورات میں بھی تبدیلی پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عربی متن پر مشتمل قرآن پاک کے پروٹوکول کا ایک خاص معیار بنا ہوا ہے، جس پر ہم لوگ اکثر اوقات پورا نہیں اترتے۔ لہٰذا عملا" ہم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کی تعلیمات سے دور رہ کر ہی گذارتے ہیں۔ ایسے میں بلا عربی متن والے تراجمِ قرآن پر مبنی کتب کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے لئے کسی خاص اہتمام جیسے وضو وغیرہ کی شرعا" ضرورت نہیں پڑتی اور ہم شب و روز کی مختلف گہما گہمی میں جب اور جہاں چاہیں ، دیگر کتابوں کی طرح ان تراجم قرآن سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اس پس منظر میں قرآن کے عربی متن کے بغیر محض ترجموں پر مبنی کتب فروغ پاتی جارہی ہیں۔ خود ہمارے ملک میں عربی اور انگریزی کے ایسے کئی تراجم شائع ہوچکے ہیں، جن میں عربی متن کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے کرام اپنی سابقہ رائے سے رجوع فرمائیں۔ عربی عبارت کے ساتھ ترجمہ شائع کرنا بلا شبہ افضل ہے لیکن بلا عربی متن والے ترجموں کے ذریعہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تک پیغامِ قرآن کی آسان رسائی کی بھی ہمت افزائی کی جانی چاہئے تاکہ مملکت کے اہم مناصب تک پہنچنے والے یہ جدید تعلیم یافتہ افراد بھی قرآنی تعلیمات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور آگاہ ہو سکیں۔

پیغامِ قرآن پبلی کیشن کی جانب سے ایک ایسی ہی کاوش پیغامِ قرآن کے نام سے عوام کے سامنے آئی ہے۔ قرآن مجید کے مستند اوربامحاورہ اردو مفہوم کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں سے مزین اس کتاب کی مقبولیت اور مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔ اس مقبولیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو زبان میں متعدد بامحاورہ تراجمِ قرآن کی موجودگی کے باوجودآج ایک عام اردو دا ں قاری کو قرآن کے ترجمہ کے مطالعہ کے دوران ایک نامانوس سی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتب و رسائل کو آسانی کے ساتھ پڑھنے کی اہلیت رکھنے والا قاری بھی جب قرآن کا مطالعہ ترجمہ کے ساتھ شروع کرتا ہے تو چند صفحات کے مطالعہ کے بعد ہی اس کی توجہ بھٹکنے لگتی ہے۔پیغامِ قرآن درحقیقت قارئین کی اسی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ اگرآپ کثیر المطالعہ ہیں تو پیغامِ قرآن کے اس نسخہ کو بآسانی چند نشستوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ دراصل ہم یا تو ایک ہی موضوع پر لکھی گئی کتاب کو روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں یا پھر ایسے کتب و جرائد کو جس کے متنوع موضوعات کی درجہ بندی واضح طور پر دکھائی دے۔ کتاب کے آغاز میں روایتی طور پر فہرستِ مضامین موجود ہو۔ ہر باب کے طویل متن کو مختصر نثر پاروں میں تقسیم کیا گیا ہو اور قارئین کی دلچسپی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ذیلی عنوانات یا سرخیاں بھی دی گئی ہوں۔ جب کہ تقریری اندازِبیان میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی سورتوں کو تحریرِ مسلسل میں مرتب کیا گیا ہے۔ گویا قرآن اپنی بصری ہیئت میں بھی ان عام کتابوں جیسی نہیں ہے، جنہیں ہم روز و شب روانی کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہیں۔

پیغامِ قرآن کے اصل متن اور ایک عام بامحاورہ ترجمہ قرآن میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ پیغامِ قرآن میں آیات کی ترتیب کو تبدیل کیے بغیر ہر پارے کی جملہ آیات کو مختلف پیراگراف میں تقسیم کرکے ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں اور پارہ کے آغاز میں ایسے تمام ذیلی عنوانات کی فہرست بھی دی گئی ہے، تاکہ قارئین کو دورانِ مطالعہ کسی قسم کی اجنبیت محسوس نہ ہو اور وہ پیغامِ قرآن کو بھی اسی سہولت کے ساتھ پڑھ سکیں جس کے وہ عام مطالعہ کے دوران عادی ہیں۔ ہر پیراگراف کے آخر میں سورت اور آیت کا حوالہ بھی درج ہے تاکہ پیغامِ قرآن کے مطالعہ کے دوران اگر کہیں مزیدوضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو قرآن پاک کے اصل عربی متن اور دیگر تراجم و تفاسیر سے بآسانی رجوع کیا جاسکے۔

سسرال مرے پیچھے ہے تو میکہ مرے آگے


سسرال مرے پیچھے ہے تو میکہ مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے

!گھر کسی بھی معاشرے کا اہم ترین بنیادی ادارہ ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسا پیداواری ادارہ جو سوسائٹی کوبہتر انسان کی مسلسل فراہمی کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ گھر کے اس اہم ترین ادارے کا آغاز دو بنیادی ارکان یعنی شوہر اور بیوی سے ہوتا ہے ۔ اس ادارے کو کامیابی سے چلانے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تین باتوں کا پیشگی تعین کر لیا جائے ۔ پہلی بات اس ادارہ کے قیام کا بنیادی مقصد، دوسرا اس مقصد کو حاصل کرنے کا لائحہ عمل یا طریقہ کار اور تیسرا مقصد کے حصول کی غرض سے طے کردہ طریقہ کار پر عمل درآمد کے لیے ورکنگ ٹیم کے سربراہ کی تقرری۔ گھر کے ادارہ کے قیام کا بنیادی مقصد تو سوسائٹی کو بہتر انسانوں کی فراہمی ہے ۔ جبکہ اس مقصد کے حصول کے لیے لائحہ عمل ہمیں مختلف دنیوی نظام ہائے زندگی یا مذاہب عطا کرتا ہے ۔ ہم مسلمانوں کے لیے یہ لائحہ عمل اسلام عطا کرتا ہے ۔ ایک نئے گھر کے تاسیسی ارکان چوں کہ میاں بیوی ہی ہوتے ہیں، لہٰذاگھر کا سربراہ بھی انہی میں سے کسی ایک کو ہونا چاہئے ۔ عقل و شعور، منطق، تاریخی شواہد، دیگر مذاہب اور اسلام سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ گھر کا سربراہ شوہر کو ہی ہونا چاہیے ۔ خود خواتین بھی اُصولی طور پر اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ اللہ نے مردوں کو نسبتاً برتر جسمانی و دانائی کی قوت اسی لیے عطا کی گئی ہے کہ وہ گھر میں ایک لیڈنگ رول کردار ادا کرے ۔ شریعتِ اسلامی میں اسی لیے شوہر کا رُتبہ و درجہ بلند رکھا گیا ہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ مرد کی صنف کو مجموعی طور پر عورت کی صنف پر برتری حاصل نہیں ۔

;جس طرح مرد کے چار بنیادی روپ ہیں یعنی بیٹا،بھائی، شوہر اور باپ۔ اسی طرح عورت کے بھی چار ہی روپ ہیں یعنی بیٹی، بہن، بیوی اور ماں ۔ مستثنیات کے علاوہ بیٹا بیٹی یا بہن بھائی عمومی طور پر مساوی حیثیت و مرتبے کے حامل ہوتے ہیں یعنی ان میں سے کوئی مطلقاًحاکم یا محکوم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بیٹی اور باپ کے رشتے میں باپ(مرد) کو اور بیٹا اورماں کے رشتے میں ماں (عورت) کوحاکمیت کا درجہ عطا کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف شوہر اور بیوی کے تناظر میں دونوں ایک دوسرے کے لائف پارٹنرہوتے ہوئے نہ صرف یہ کہ دونوں کی ذمہ داریاں یکسر مختلف اور علیحدہ ہیں بلکہ باہمی ورکنگ ریلیشن شپ کو مؤثر بنانے کے لیے شوہر کا ایک درجہ بلندبھی رکھا گیا ہے تاکہ اختلافِ رائے کی صورت میں شوہر کی ا تھارٹی پر عمل درآمد کیا جاسکے ۔ جس طرح اپنی ماں کا نافرمان بیٹا جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے اسی طرح اپنے شوہر کی نافرمان بیوی بھی داخلِ جہنم ہو سکتی ہے ۔

حدیث میں آتا ہے کہ دورِ رسالت ﷺ میں ایک نافرمان بیٹا عذابِ مرگ میں تڑپ رہا تھا اور اس کی جان نہیں نکل رہی تھی۔ جب حضور ﷺ کو اس بات کی خبر ملی تو آپﷺ نے نافرمان بیٹے کی ماں سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی خطا بخش دے تاکہ اس کی جان آسانی سے نکل سکے ۔ لیکن ماں نے اپنے بیٹے کو اس بنیاد پر معاف کرنے سے انکار کر دیا کہ بیٹے نے ماں کو اپنی زندگی میں بہت ستایا تھا۔ چنانچہ رسولِ ا کرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکڑیاں جمع کر کے الاؤ جلانے کا حکم دیا تاکہ اس الاؤ میں اس نافرمان بیٹے کو جلایا جاسکے ۔ جب اس بات کی اطلاع اُس ماں کو ملی تو اس نے احتجاج کیا کہ میرے بیٹے کو کیوں جلایا جا رہا ہے ۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ جب اسے جہنم کی آگ میں جلنا ہی ہے توکیوں نہ اسے یہاں بھی جلا ہی دیا جائے ۔ یہ بات سنتے ہی اس دکھی ماں نے فورااًپنے بیٹے کی خطا معاف کر دی۔ ماں کے معاف کرتے ہی وہ شخص جان کنی کے عذاب سے نجات پا گیا اور اس کی روح پرواز کرگئی۔ اس واقعہ سے عورت کی بہ حیثیت ماں کے درجہ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ماں بیٹے سے ناراض ہو تواللہ اُسے جہنم کے آگ میں اور اللہ کے رسول ﷺ اسی دنیا میں جلانے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ آپ ﷺ رحمۃاللعالمین ہیں اور اللہ تو رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی۔

اگرکوئی شخص کسی آدمی کو وزیر اعظم جیسابلندمرتبہ عطا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو توکیا اس بارے میں دو رائے ہو سکتی ہے کہ خودوہ شخص وزیراعظم سے بلندتر درجہ کا حامل ہو گا۔ عورت بیٹی اوربہن کی حیثیت سے تو اپنے مدمقابل بیٹا اور بھائی سے کم و بیش برابر ی کا درجہ ہی رکھتی ہے ۔ لیکن جب ایک اور مرد (شوہر) اِسے ماں بناتا ہے تو اس (ماں ) عورت کا درجہ ایک یا ایک سے زائد مردوں (بیٹوں ) سے اس درجہ بلند ہو جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بھی ان مرَدوں (بیٹوں ) سے اس وقت تک راضی نہیں ہوتا جب تک یہ (ماں ) عورت راضی نہیں ہو جاتی۔ اب آپ خود سوچئے کہ جو مرد (شوہر) اسے اس بلند تر درجہ پر فائز کرنے کا سبب بنتا ہے، خود اس کا درجہ (کسی کو وزیر اعظم بنانے والے کی طرح) کتنا بلند ہو گا۔ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا رَوا ہوتا تو میں بیویوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ ایک اور حدیث کے مطابق فرشتے رات بھر اُس بیوی پر لعنت کرتے رہتے ہیں جو اپنے شوہر سے روٹھ کر شوہر اور اُس کے بستر سے دور رات بسر کرے ۔ شادی سے قبل عورت باپ کے حکم کے تابع ہوتی ہے تو شادی کے بعدباپ سے برتر درجہ شوہر کا ہو جاتا ہے اورباپ کے گھر (میکہ) سے شوہر کا گھر (سسرال)مقدم ٹھہرتا ہے ۔

جو عورتیں اس فطری اور عین اسلامی حدود و قیود کو دل سے قبول نہیں کرتیں، وہ نہ گھر کی رہتی ہیں نہ گھاٹ کی۔ یعنی پھر اُن کی عزت نہ میکہ میں ہوتی ہے نہ سسرال میں ۔ سسرال کو اپنے پیچھے اورمیکہ کو اپنے آگے رکھنے والی بیویوں کے سامنے شب و روز تماشہ تو ہو اہی کرتا ہے ۔ لیکن ایسی بیویوں کا اُخروی انجام بھی بُرا ہی ہوا کرتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں نے معراج میں جہنم میں عورتوں کی کثرت کو دیکھا جو محض اس وجہ سے جہنم میں ڈالی گئیں تھیں کہ وہ اپنے شوہر کی ناشکرگذار تھیں ۔ شوہر کی فرمانبرداری کی اہمیت کا اندازہ عہدِ رسالت کے اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔

تجارت کی غرض سے بیرونِ شہر جانے والے ایک شخص نے احتیاتاً اپنی بیوی کو ہدایت کی کہ جب تک میں واپس نہ آ جاؤں، تم گھر سے باہر نہ نکلنا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ شوہر کی غیر موجودگی میں خاتون کے والد کا انتقال ہو گیا۔ جب اس کے میکہ والے اسے لینے آئے تو اُس نے جانے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ میرے شوہر نے کہا تھا کہ جب تک وہ واپس نہ آ جائے، میں گھر سے باہر نہ نکلوں ۔ یوں وہ اپنے والد کے آخری دیدار سے محروم رہ گئیں ۔ بعد ازاں خاتون نے دربارِ رسالت میں اپنے شوہر کی شکایت کرتے ہوئے اپنا دکھ پیش کیا تورحمۃاللعالمین ﷺنے فرمایا کہ تمہارے اس عمل سے تمہارا رب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے تمہارے والد کی مغفرت کر دی۔ کیا تم اپنے رب کی اس بات سے خوش نہیں ۔ چنانچہ خاتون نے اپنی شکایت واپس لے لی۔

اسلام نے جہاں بیوی کو شوہر کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، وہیں گھر کی جملہ ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار شوہر کو قرار دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عورتیں کمان کی مانند ہیں جنہیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اگر تم انہیں سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اُنہیں توڑدو گے ۔ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ بیوی کو ناراض ہونے سے بچانے کے لیے اُس سے (بے ضر ر) جھوٹ بھی بولا جاسکتا ہے ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے شوہر اور بیوی دونوں کو اپنا اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارے اعمال کہیں قرآن و سنت سے متصادم تو نہیں ۔ یہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ میاں بیوی میں فطرتاً کون تیز و طرار ہے اور کون خاموش طبع۔ آپ غصہ ور ہوں یا خاموش طبع، مظلوم ہونے کی صورت میں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیے کہ ظلم خواہ شوہر کی طرف سے ہو یا بیوی کی طرف سے، ظالم کو اس کی سزا ضرور ملتی ہے ۔ بیویاں تیزی و طراری سے شوہروں پرحاوی ہونے والی ہوں یا خاموش طبع چُپ چاپ رہنے والی، وہ یہ بات ہرگز نہ بھولیں کہ دنیا میں شوہروالی خاتون کی حیثیت بے شوہر والی خاتون سے بہر حال بہترہوتی ہے ۔ شوہرجو بڑی مشکل سے ملتے ہیں، اسے پا کر گنوانا کوئی عقلمندی نہیں ۔

ایک شوہر جسے تو گراں سمجھتی ہے
ہزار شوہروں سے دیتا ہے عورت کو نجات
(روزنامہ جنگ میں شائع شدہ)

پیغام قرآن و حدیث کی تعارفی تقریب

اتوار 24 جولائی 2011 کی شام اسلامی تہذیبی مرکز جمعیت الفلاح کراچی میں اس احقر کی نئی کتاب " پیغامَ قرآن و حدیث" کی تعارفی تقریب سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان جناب اسداللہ بھٹو کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جمعیت الفلاح کے سیکریٹری جنرل حکیم مجاہد محمود برکاتی نے کتاب اور صاحب کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ نوجوان دانشور جناب شاہنواز فاروقی نے قرآن اور تفہیم قرآن کے حوالے سے علم و دانش سے بھر پور تقریر کر تے ہوئے کتاب پر بھی اظہار خیال کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ احسان الحق نےاس خیال کی نفی کی کہ قرآن کے عربی متن کے بغیر پیغام قرآن و حدیث کی کوئی افادیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل قرآن و حدیث کی موضوعاتی درجہ بندی پر مبنی کتاب ہے اور ایسی اور بھی بہت سی کتب عربی متن کے بغیر شائع ہوچکی ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی مظفر احمد ہاشمی نے کہا کہ اس کتاب میں کمیوں کی تو نشاندہی کی جاسکتی ہے، مگر خامیوں کی نہیں۔استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد زبیری نے کتاب اور صاحب کتاب پر اپنا تفصیلی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے نہ صرف یہ کہ مصنف بلکہ قارئین کا بھی بہت بھلا ہوگا۔ ممتاز شاعر یونس رمز نے منظوم ہدیہ تبرک پیش کیا۔

منظوم ہدیہ تبریک

ترا دل مومن و مسلم شناسا نور وحدت کا
محمد کی رسالت کا محمد کی شریعت کا

تری آنکھوں میں جلوہ چہرہ قرآں کی اشاعت کا
کہ شعلہ ہے ترے دل میں مضامیں کی بلاغت کا

ترا جینا ، ترا مرنا ، عقیدت کے تلازم میں
تعلم ساز تفہیم و تدبر کی صلابت کا

رواں ہے دجلہ خوننابہ دل میں نفس تیرا
جگر کی آگ ، ادراکِ نظر کی قدر و قیمت کا

خوشا تو غلبہ اسلام کا حامی ، مبلغ ہے
ترا دل ہے جریدہ حرف جاں شوقِ شہادت کا

شگفتہ لب تکلم ، نغمگی کے تار میں محکم
ترے اظہار کی قوت میں محور ہے اشارت کا

دماغِ شعلہ احساس میں پیہم سلگتا ہے
جنوں تیرا پتنگا ہے شرارِ جذب و جرات کا

سلامت ، مرحبا صد مرحبا اے یوسفِ ثانی
مرقع رمز کے دل ، ہدیہ ذوقِ طبیعت کا


کتاب کے مؤلف کی حیثیت سے احقر نے عرض کیا کہ میں بنیادی طور پرایک قلمکار ہوں یعنی میرا کام لکھنا ہے،بولنا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ میرے پاس بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ لکھنے لکھانے کا جو تھوڑا بہت ہنر میرے پاس تھا اسے میں نے ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ اور اس کتاب پر گفتگو کرنے کے لئے آج بہت سے فاضل مقررین آپ کے سامنے موجود ہیں ۔ پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست دعوت دین کا فریضہ ادا کرنا ہے، جو ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ فرض مجھے بھی ادا کرنا تھا اور چونکہ میں یہ کام تحریری طور پر ہی انجام دے سکتا تھا، لہٰذا میں نے یہ کام پیغام قرآن و حدیث کی تالیف کی صورت میں انجام دیا ہے اور میں اس کام کو اپنے لئے اُخروی نجات کا ذریعہ بنانا چاہتا ہوں ۔ ابلاغ عامہ کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے کہ آج کا ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی قرآن و حدیث کی تعلیمات سے مکمل طور پرآگاہ نہیں ہے ۔ عربی زبان سے ناواقفیت اور ہمارے مروجہ تعلیمی نظام میں قرآن و حدیث کی عدم شمولیت اس کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ تاہم ان دو بڑی رکاوٹوں کو عبور کر کے اگر کوئی فرد قرآن کو تراجم و تفاسیر اور احادیث کو شروحات کی مدد سے پڑھنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے دو مزید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایک تو تفاسیر و شروحات بذاتِ خود خاصی ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر مبنی ہوتی ہیں ۔ دوسرے ان کتب کا انداز تحریر و ترتیب اگر متروک نہیں تو نامانوس ضرورہے ۔ چنانچہ آج کا سہل پسند انسان اخبارات، رسائل و جرائد اور کتب کا باقاعدہ قاری ہونے کے باجودقرآن و حدیث کے ان عظیم ذخیروں سے استفادہ کرنے سے بالعموم محروم ہی رہتا ہے ۔ پیغامِ قرآن اور پیغامِ حدیث کو عام کتب کی طرز پر مرتب کر کے میں نے انہی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے ،تاکہ ایک عام قاری بھی بہ سہولت انہیں پڑھ اور سمجھ سکے ۔ پیغامِ قرآن و حدیث ان دونوں کتب کا مشترکہ ایڈیشن ہے ۔ دونوں کتب الگ الگ بھی شائع ہو چکی ہیں اور ان شا اللہ آئندہ بھی شائع ہوتی رہیں گی۔ یہ کتب غیر تجارتی بنیادوں پر شائع و تقسیم کی جاتی ہیں ۔ ان کتب کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں یعنی انہیں کوئی بھی شائع و تقسیم کر کے صدقہ جاریہ کے قیمتی خزانہ سے اپنا دامن بھر سکتا ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کتاب، سی ڈی اور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔ پیغام قرآن و حدیث کے ا جزاکو یو ٹیوب پربھی اَپ لوڈ کیا جا رہا ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کی جملہ تعلیمات کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر وقار زبیری صاحب نے اس موقع پر اپنا ایک مضمون پڑھ کر سنایا: میں مجاہد برکاتی صاحب کا اور یوسف ثانی صاحب کا شکر گذار ہوں کہ ہر دو حضرات میری بے بضاعتی سے خوب واقف ہیں، اس کے باوجود انہوں نے اس بابرکت محفل میں مجھے اظہار خیال کا موقعہ دیا۔ میں نے اس کو اپنے لئے باعث سعادت جانا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر بڑا کام کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا کرتے ہیں اور مقام شکر ہے کہ یوسف ثانی کو اللہ نے ہی ایسا بڑا اور مفید کام کرنے کی توفیق عطا کی جو ان کے لئے بہت سے فیوض و برکات کا سبب تو ہو گی ہی، اور بھی بہت سے لوگ ان کے کام سے استفادہ کریں گے ۔ خرم مراد صاحب نے ’’قرآن کا راستہ‘‘ میں کہا تھا: ’’ اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہو گی کہ قرآن کو اپنی ذات کی شہرت، عزت، حیثیت یا مالی دولت جیسی دنیاوی چیزوں کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ مل بھی جائے مگر اس طرح آپ ایک بیش بہا خزانے کا نہایت حقیر اشیا سے سودا کر رہے ہوں گے ‘‘۔ بلا شبہ یوسف ثانی نے یہ کام تو کیا مگر معاوضے میں کسی حقیر شئے کی تمنا نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو ہی اپنی محنت کا صلہ جانا۔ ان شا ء اللہ انہیں یہ صلہ ضرور حاصل ہو گا۔
پیغام قرآن و حدیث دراصل دو کتابوں کا مجموعہ ہے ۔ پہلے پانچ سال قبل ’’پیغامِ قرآن‘‘ شوئع ہوئی اور پانچ سال میں اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے ۔ پھر ۲۰۱۰ء میں ’’پیغامِ حدیث‘‘ الگ شائع کی گئی۔ پھر ۲۰۱۱ء میں دونوں کتابوں کو ملا کر ’’پیغامِ قرآن و حدیث‘‘ شائع کی گئی۔ دونوں کتابیں الگ الگ پہلے ہی مقبول ہو چکی ہیں اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بھی ان شاء اللہ بہت مقبول ہو گی۔ ’’پیغامِ قرآن‘‘، قرآن کا ترجمہ نہیں ہے ۔ شاید قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے، جس کا کم و بیش دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔ ترجموں کی ابتدا حضور ﷺ کے زمانے ہی میں ہو گئی تھی۔ حضرت سلمان فارسی نے فارسی میں پہلا ترجمہ کیا تھا۔ اردو میں بھی اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ۔ یوسفِ ثانی نے اردو میں ۹۰ ترجموں کی خبر دی ہے ۔ مولانا مودودی علیہ رحمۃ نے اپنے ترجمہ قرآن میں بجا طور پر فرمایا تھا:’’ اب کسی شخص کا محض برکت و سعادت کی خاطر ایک نیا ترجمہ شائع وقت اور محنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں ہے ‘‘ تراجم رہتی دنیا تک ہوتے ہی رہیں گے مگر پیغام قرآن میں یوسف ثانی نے خود وضاحت کی ہے ’’ قرآن مجید کا کسی حاشیے اور تشریح کے بغیر با محاورہ اردو مفہوم، بالترتیب آیات کی موضوعاتی درجہ بندی، ذیلی عنوانات اور فہرستِ مضامین کی اضافی خوبیوں کے ساتھ اردو زبان میں پہلی بارپیغام قرآن میں پیش کیا جرہا ہے ۔ چونکہ اس میں عربی متن نہیں ہے اس لیے اس کو لیٹے بیٹھے، گاڑی میں کسی بھی فرصت کے وقت پڑھا جاسکتا ہے ۔ وضو کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ ہاں اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہو تو قرآن کریم سے رجوع کیا جائے ۔ پیغام حدیث کی خوبی بھی یہی ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں، کیونکہ اس میں بہت ایسی تفصیل کو حذف کر دیا گیا ہے جو سب کے لیے ضروری نہیں ہیں ۔ ان ہی راویوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے براہ راست حضور ﷺسے روایت کی ہے ۔ طویل احادیث کو چھوٹے چھوٹے پیراگراف میں تقسیم کر دیا گیا ہے تاکہ قارئین سہولت سے پڑھ سکیں اور یاد بھی رکھ سکیں ۔ یہاں بھی یہی درست ہے کہ کسی مزید وضاحت کے لیے اصل مآخذ اور راویوں کے تسلسل سے استفادہ کے لیے بخاری شریف سے رجوع کیا جائے ۔
یوسف صاحب نے مسلمانوں کے عروج و زوال دونوں کا سبب قرآن کریم کو ہی قرار دیا ہے ۔ یعنی جب ہم قرآن سے پوری طرح استفادہ کر رہے تھے تو صدیوں تک علم و دانش، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہم دنیا کے امام تھے ۔ اقبال نے بھی یہی کہا تھا ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر ۔ یعنی جب ہم نے قرآن کریم کی سچی رہبری اور رہنمائی سے اغماض برتنا شروع کیاتو بربادی ہمارا مقدر ہو گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک اہلِیورپ اپنے تحریف شدہ مذہب سے جڑے رہے، ان کا تاریک دور جاری رہا۔ جب انہوں نے اس سے چھٹکاراپایا تو کامرانیوں کے در وَا ہو گئے ۔ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ یوں تو ہر دور میں قرآن پر غور و فکر اور عمل کی ضرورت تھی مگر فی الوقت ہم جس بربادی اور تباہی سے دوچار ہیں، اس دور میں قرآن سے جڑنے کی ضرورت اہم سے اہم تر اور اہم ترین ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے ماحول میں قرآن کے مفہوم سمجھنے سمجھانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے، اس کی بہت ہمت افزائی کی جانی چاہئے ۔ یوسف ثانی نے یہی کام کیا ہے ۔
آج کل مسلمانوں میں اور بطور خاص نوجوانوں میں اس ضرورت کا احساس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ قرآن کو سمجھا جائے، اس کے اسرار و رموز پر غور و فکر کیا جائے ۔ ترکی کے ڈاکٹر بلوک نوریافی نے قرآن کی آیات کے معنی کو گلاب کے پھولوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی آیات کے معنی ایسے ہی پنکھڑیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں کہ ہر پنکھڑی الگ ہونے پر ایک نیا جہانِ معنی کھول دیتی ہے ۔ یعنی جتنا غور و فکر کیا جائے، نئے نئے مفہوم سامنے آتے جاتے ہیں، جیسے کسی بحر ذخار میں ہر غواص کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے ۔ یوسف ثانی نے بھی نہایت تابدار موتی تلاش کر لیے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ ڈاکٹر بلوک نے یہ بھی کہا تھا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہر تحریر کا بے اثر ہونا اس کی قسمت ہے مگر قرآن کسی فرد کی تحریر نہیں ہے اس لیے آج بھی تر و تازہ ہے ۔ اگر پوری توجہ اور انہماک سے مسلمان قرآن کی طرف رجوع کریں تو قرآن کریم ان کو ایسی قوت فراہم کرے گا جو مسلمانوں کی رہنمائی اعلیٰ کارناموں کے حصول کی طرف کرے گی۔ یوسف ثانی نے اپنا کام کر دیا ہے ۔
اب جس کے دل میں آئے ، وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا
میں برادرم یوسف ثانی کو ا س عظیم کام کو انجام دینے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اس کا فیض تا دیر جاری رہے ۔


   

ڈاؤن لوڈ کیجئے

اوامر و نواہی . قرآن و حدیث


پیغام قرآن اور پیغام حدیث پی ڈی ایف میں



پیغام قرآن اور پیغام حدیث یونی کوڈ میں
 http://kitaben.urdulibrary.org/Books/PaighamQuranDoc.zip